سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(39)بغیر وضو قرآن مجید ہاتھ میں لے کر پڑھنا

  • 14824
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1633

سوال

(39)بغیر وضو قرآن مجید ہاتھ میں لے کر پڑھنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بغیروضو قرآن مجید ہاتھ میں لے کرپڑھنا جائز ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس کتاب(یعنی خط)میں جس کو جناب حضرت رسول اللہﷺنے عمروبن حزم کے لیے لکھوائی تھی من جملہ اوراحکام کہ یہ بھی تحریرکیاگیا تھا کہ‘‘لا يمس القرآن طاهر’’یعنی طہارۃ وپاکی وضوکےبغیرکوئی آدمی قرآن کریم نہ چھوئے اس حدیث کو امام مالک نے مرسل روایت کیا ہے لیکن نسائی اورابن حبان نےموصول ذکرکیاہے اگرچہ حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ نے بلوغ المرام میں نسائی کی روایت کے متعلق‘‘انه معلول’’کہاہےیعنی یہ حدیث معلول ہے یعنی لیکن اس میں علت ہے اس کے شارح صاحب سبل السلام فرماتے ہیں کہ مصنف نے اس حدیث کو معلول اس لیے کہا ہے کہ اس کی سند میں ایک راوی سلیمان بن داودہیں اورمصنف اس کو وہم کی وجہ سے سلیمان بن داودالیمانی سمجھ بیٹھے ہیں۔ سبل السلام ج١’ص٧۰.

(جواتفاقا ضعیف ومتروک ہے)لیکن اس سند میں سلیمان بن داودیمانی نہیں ہیں بلکہ سلیمان بن داود خولانی ہیں جوثقہ ہیں اس پر ابوزرعہ نے ثنا کی ہے اوراسی طرح حافظ حاتم اورعثمان بن سعید اوردوسرے حفاظ حدیث میں سے ایک جماعت نے بھی اس پر ثنا کی ہےیعنی اس کی توثیق کی ہے لہذا یہ علت حدیث کی سند میں نہ رہی اورسند قابل اعتمادبن جاتی ہےجاننا چاہیئے کہ اس کتاب(یعنی جو عمرو بن حزم کے لیے آنحضرتﷺنے تحریرکروائی تھی)کے متعلق حفاظ حدیث میں اختلاف ہے لیکن محققین نے اس کتاب کو قبول کیا ہے۔

علامہ مبارکپوری تحفۃ الاحوذی میں فرماتے ہیں:

((قال ابن عبدالبر أنه اشبه المتواتر لتلقى الناس له بالقبول.))

‘‘یعنی ابن عبدالبرفرماتے ہیں کہ یہ کتاب متواترکے مشابہ ہے کیونکہ لوگوں نے

اسے قبولیت سے لیا ہے۔’’

((وقال يعقوب ابن سفيان‘‘لا اعلم كتابا أصح من هذا الكتاب فإن أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم والتابعين يرجعون اليه ويدعون رايهم.))

‘‘یعنی مشہورمحدث یعقوب بن سفیان فرماتے ہیں کہ مجھے اس کتاب سے زیادہ صحیح کتاب کا علم نہیں (یعنی یہی زیادہ صحیح کتاب ہے۔)کیونکہ حضرت رسول اللہﷺکے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اورتابعین بھی اس کتاب کی طرف رجوع کرتے تھے۔(یعنی احکام کے سلسلہ میں)اوراس کے وجہ سے اپنی رائے کو بھی چھوڑدیتے تھے۔’’

اس سے معلوم ہوا کہ یہ کتاب صحیح ہے:

((وقال الحاكم قد شاهد عمر بن عبدالعزيز وامام عصره لازهرى بالصحيحة بهذا الكتاب.))

‘‘اورمشہور محدث امام حاکم فرماتے ہیں کہ اس کتاب کی صحت پر حضرت عمربن عبدالعزیز خلیفہ راشداوراپنے عصرکے امام مشہورمحدث زہری شہادت دے چکے ہیں۔’’

خلاصہ کلام!راجح یہی ہے کہ یہ کتاب صحیح ہے اوریہ کتاب آنحضرتﷺنے عمروبن حزم کے لیے لکھوائی تھی اوراس میں یہ حکم موجود ہے کہ قرآن مجید کو طہارت (وضو)کے بغیرمس نہ کیا جائے اس کی مئویداوربھی حدیثیں ہیں۔مثلا طبرانی،صغیروکبیرمیں حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

((وعن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لايمس القرآن إلاطاهر.))  ذكرالهيثمى فى مجمع الزوائد(١/٢٧٦).

‘‘بیشک حضرت رسول اللہﷺنے فرمایاکہ مس نہ کرے قرآن کو مگرظاہر

(پاک وضو سے)’’

اورہیثمی مجمع الزوائد میں فر ماتے ہیں  کہ:

((ورجاله موثقون.)) (المجمع جلد نمبر١)

اس حدیث کے سب راوی پختہ ہیں اسی طرح حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ :

((قال عثمان بن ابى العاص وكان شابا:وفدنا على رسول لله صلى الله عليه وسلم فوجدونى أفضلهم أخذاللقرآن وقدفضلتهم بسورة البقرة فقال النبى صلى الله عليه وسلم قد امرتك على أصحابك وأنت أصغرهم ولاتمس القرآن إلاوأنت طاهر.))   ذكره الهيثمى فى مجمع الزوائد(١/٢٧٧).

 ‘‘حضرت مغيره بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان العاص

 رضی اللہ عنہ نے کہاکہ ہم حضرت رسول اللہﷺکے پاس وفد کی صورت میں آئے پھر ہمارےساتھیوں نے محسوس کیا کہ میں ان سے زیادہ قرآن لے سکتا ہوں یا لے چکاہوں اورمیں ان سے پہلے سورہ بقرہ کو حاصل کرنے کی فضیلت پاچکا تھاپھرنبی اکرمﷺنے فرمایاکہ میں نے تجھے تمہارے ساتھیوں کا امیر بنایاہے(یعنی تمہارے زیادہ قرآن کے حصول کی وجہ سے)(گو)تم ان سے چھوٹے ہواورقرآن کو طہارۃ کے بغیر مس نہ کرنا۔’’

ہیثمی مجمع الزوائد جلد نمبر1میں فرماتے ہیں:

((رواه الطبرانى فى الكبير.))

‘‘یعنی یہ حدیث طبرانی نے کبیر میں ذکر کی ہے :

((وفيه اسمعيل بن رافع ضعفه يحي بن معين والنسائى وقال البخارى......مقارب الحديث .))

‘‘یعنی اس حدیث کی سند میں ایک راوی بنام اسمعیل بن رافع واقع ہیں جس کویحی بن معین اورنسائی نے ضعیف کہا ہے۔’’

اورامام بخاری فرماتے ہیں کہ ثقہ ہیں اوران کا حال حدیث میں ثقاہت کے قریب ہےحافظ ابن حجرتقریب التہذیب میں فرماتے ہیں کہ‘‘ضعيف الحفظ’’یعنی یہ راوی حافظہ کاکمزورتھا۔اس سے معلوم ہوا کہ ی راوی صدوق ہے اورشدید مجروح نہیں ہے بلکہ جن محدثین نے ان کو کمزورکہا ہے وہ حافظہ کی کمزوری کی وجہ سے نہ کسی اوروجہ سے لہذا ایسے راوی سےمتابعات وشواہد میں کام لیا جاسکتا ہےچونکہ اس سے پہلے حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کی حدیث گزرچکی ہے جس کی سند کے سب راوی ثقہ ہیں توحدیث جس کی سند کا راوی ضعف کاحامل ہے اس کی مئوید بن جائے گی۔

ویسے بھی قرآن حکیم شعائراللہ میں سے ہے اوراللہ تبارک وتعالی نے قرآن حکیم میں شعائراللہ کے متعلق فرمایاہےکہ:

﴿يُعَظِّمْ شَعَـٰٓئِرَ‌ ٱللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى ٱلْقُلُوبِ ﴿٣٢﴾ (الحج:٣٢)
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شعائراللہ کی تعظیم کرنادلوں کی تقوی میں سےہے لہذا قرآن مجید کی عظمت وعلوشان بھی اس کا متقاضی ہے کہ اس کو بغیرطہارۃ لے کرنہ پڑھا جائے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ راشدیہ

صفحہ نمبر 243

محدث فتویٰ

تبصرے