سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(33)رسول کا ہم زبان ہونا

  • 14818
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1548

سوال

(33)رسول کا ہم زبان ہونا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جب اللہ سبحانہ وتعالیٰ نےہرنبی کواس کی قوم کی زبان میں بھیجاتوحضرت محمدﷺکوپوری دنیاکےلیےکیوں مبعوث کیاگیا،حالانکہ ان کی زبان عربی تھی۔لہٰذآپﷺصرف عالم عرب کےلیےنبی ہوتے،سندھیوں کےلیےکوئی سندھی اورانگریزوں کےلیےکوئی انگریزرسول بن کرآتے۔وغیرہ وغیرہ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن کریم میں واضح ہےکہ:

﴿وَمَآ أَرْ‌سَلْنَا مِن رَّ‌سُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِۦ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ﴾ (ابراهيم:٤)

‘‘یعنی نہیں بھیجاہم نےکوئی بھی رسول مگراس کی قوم کی زبان کےساتھ تاکہ ان پربیان کرے۔’’

اوراللہ سبحانہ وتعالیٰ نےہرملک اورہرقوم میں کوئی نہ کوئی نبی بھیجاہے۔جیسےاللہ تعالٰ فرماتےہیں:

﴿وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ﴾ (الرعد:٧)

‘‘یعنی ہرقوم کےلیےکوئی نہ کوئی ہادی‘‘پیغمبر’’تھا۔’’

دوسری جگہ فرمایا:

﴿وَإِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ‌ۭ ﴾ (فاطر:٢٤)

‘‘یعنی ہرامت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سےکوئی نہ کوئی ڈرانےوالاگزرچکاہے۔’’

لہٰذاسرزمین سندھ اورانگریزوں کےملک میں اوردوسرےسارےممالک یاخطہ میں کوئی نہ کوئی آتارہاہےلیکن قرآن کریم میں کسی بھی جگہ پراس طرح نہیں ہےکہ میں ہمیشہ اس طرح ہرملک میں الگ الگ نبی بھیجتارہاہوں۔اورکوئی بھی ساری دنیاکےلیےایک جامع نبی نہیں بھیجوں گا،لہٰذایہ اعتراض فضول ہے۔

جب اللہ تعالیٰ نےچاہاتوایک ایساجامع کمالات نبیﷺبھیجاجوپوری دنیاکےلیےقیامت کےدن تک ہواوراس کی لائی ہوئی شریعت کامل ومکمل ہوجوتاقیامت لوگوں کی رہنمائی کرتی رہے۔جب بھی کوئی مسئلہ درپیش آئےتواس میں اس کاحل موجودہو۔تب اللہ تعالیٰ نےحضرت محمدﷺکومبعوث فرمایااورساتھ ایسی کتاب بھی دی جوتاقیامت لوگوں کےلیےرہنماءاورہادی ہے،جس کامثل لانےسےانس وجن عاجزہیں۔جب اس کتاب کوتاقیامت رہناتھاتواس کی حفاظت کاذمہ بھی اللہ تعالیٰ نےخوداٹھایا۔یہی وجہ ہےدشمنان اسلام کی بھرپورکوشش کےباوجوداس میں ایک حرف کابھی الحاق یااضافہ یاکمی وبیشی ہرگزنہ ہوسکی۔حالانکہ توریت،انجیل اوردوسری آسمانی کتب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سےآئےہوئےتھےاورسچےتھےان کےلانےوالےبھی سچےپیغمبرتھےلیکن ان کی نبوت عمومی اورساری دنیاکےلیےنہ تھی اورنہ ہی ہمیشہ کےلیےتھی یہی وجہ ہےکہ ان کےبعدان کی کتابوں میں تحریف،تبدیل اوراضافات ہوگئے۔جس کااقراران کتابوں کےماننےوالےبھی کرتےہیں۔لیکن اس کتاب(قرآن کریم)کاایک حرف بھی آگےپیچھےنہیں ہوسکا۔اگرچہ اس کوآئےہوئے١٤۰۰چودہ سوسال سے بھی زائد عرصہ ہوگیا ہے۔یہ قرآن شریف کا دائمی معجزہ ہے ،ورنہ دوسری کوئی بھی کتاب اتنا عرصہ توکیا تین سوسال بھی محفوظ نہ رہ سکی اوراس میں تحریف ہوگئی ۔اس طرح بھی نہیں کہ قرآن کریم اس وقت یا آج کے عربوں کے لیےمعجزہ تھی یا ہے بلکہ دنیا کے لیے ہے ،آج بھی دنیا میں کتنے ہی عیسائی ایسے ہیں جو عربی پر بڑی مہارت رکھتے ہیں ان جتنی مہارت ہمارے پڑھے لکھے عالم بھی نہیں رکھتے ۔انہوں نے بیشتر عربی زبان میں لکھی ہیں۔عربی لغت کی کتنی ہی کتابیں لکھی ہیں جودنیا کےمختلف ممالک میں پھیلی ہوئی ہیں لیکن عربی کے ان ماہر عیسائیوں کو بھی یہ جرات نہیں ہوئی کہ قرآن کریم کے اس چیلنج کو قبول کرسکیں کیوں؟

اس لیے کہ وہ جانتے ہیں کہ قرآن کریم کا مقابلہ انسانی طاقت سے ماوراء ہے ،یہی معجزہ رہتی دنیا تک ہمارے نبیﷺکی صداقت کا ایک عظیم الشان ثبوت ہے۔نبی کریمﷺکی بعثت کے وقت دنیا کی یہ حالت تھی  کہ پوری دنیا میں تقریبا(ماسوائےامریکا)لوگوں کے ایک دوسرے سے روابط قائم تھے گزرے ہوئے نبیوں کی طرح ہردنیا کاخطہ اورعلاقہ الگ تھلگ نہیں تھا،یعنی آپﷺکی بعثت کے وقت پوری دنیا ایک گھر کی مانند بنی ہوئی تھی اس وقت سے لے کر آج تک پوری دنیا کے علاقے ایک دوسرے کےبالکل قریب آتے رہے اورآج دنیا کی کیا حالت ہے کہ جو بالکل ایک گھر کی مثل بن چکی ہےاورپوری دنیا کا احوال ایک ہی وقت میں انسان اپنے گھربیٹھے بیٹھے معلوم کرسکتا ہے اورسن سکتا ہے ۔لہذاایک ہی گھر کے لیے سربراہ یا نبی بھی ایک ہی ہونا چاہیئے نہ کہ زیادہ کیونکہ دنیا کی موجودہ حالت نبیﷺکی بعثت سےشروع ہوئی ہے جس کا تقاضا ہے کہ دنیا کا مرشد،ہادی،رہنمااورپیغمبرایک ہی ہونا چاہیئے تاکہ ساری دنیا ایک ہی برادری کے دھاگے میں بندھی ہوئی ہے ۔ہر ملک کے جداجدانبی نہ ہوں کیونکہ یہ نمونہ عالمی برادری کے منافی ہے اورافتراش انتشارکی علامت ہے ،بہرحال آپﷺکی بعثت مبارکہ کے وقت ساری دنیا اپنی زبان حال سے یہ تقاضا کررہی تھی کہ ہماراپیشوالیڈر اوربشیرونذیر ایک ہی ہونا چاہئے ،یہی  وجہ  ہے کہ مالک الملک جو کہ عالم الغیب ہے ،انسانیت کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے اوران کی زبان  حال کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے ایک عظیم الشان نبی مبعوث کیاجوایسی کتاب کے ساتھ آیاجورہتی دنیاتک معجزہ ہے اورتمام انسانوں کی ضرورتوں کو پوراکرنے والی ہے ۔آنے والےمسائل کا حل بھی اس میں موجود ہے اورملتا رہے گااوراسی کلام پاک اوراس کے لانے والےعظیم الشان پیغمبر علیہ السلام نے پوری دنیا کو یہ شاندارتصور(Grand-Conception)عطافرمایاکہ یہ پوری دنیا اوراس کے باشندے ایک ہی عالم برداری کے اجزاء یا افرادہیں حضوراکرمﷺنے حجۃ الوداع کے موقع پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بھری مجلس میں یہ واشگاف اعلان فرمایاکہ کسی عربی کو عجمی (غیر عربی)پر محض اس وجہ سے فضیلت نہیں ہے کہ وہ عربی ہے ،کسی عجمی کو عربی پر،کالے کو گورے پر اورگورے کوکالے پر فضیلت نہیں ،سب کےسب آدم کی اولادہیں ،آدم کو اللہ نے مٹی سے بنایاتھا،تم میں سے اگر کسی کو کوئی فضیلت حاصل ہے تو محض تقوی کی بنا پر ہے ،ورنہ اگراب بھی ہر ملک کا الگ الگ نبی ہوتا توآج تک دنیا کے اس شاندارتصورکا خواب شرمندہ تعبیر نہ   ہوسکتا تھا۔بلکہ دنیا اوربھی زیادہ متفرق برادریوں میں تقسیم ہوجاتی ۔اسلام اس شاندار تصورکا مظاہرہ ہر سال حجاز مقدس میں کرتا رہتا ہے ،جہاں ہردنیاکے مختلف خطوں سے آئے ہوئے لوگ مختلف ذات ،زبان قبیلے اورالگ الگ خصوصیات اورامتیازات اوراونچ نیچ کے باوجودبھی ایک ہی لباس میں ملبوس ہوکرایک ہی نمونہ وہیت میں ایک ہی رب وحدہ لاشریک لہ کے سامنے جھک کردعامانگتے ہیں،وہاں پر کوئی امتیاز نظر نہیں آتا ،اگرچہ آپس میں باہمی کئی امتیازات کیوں نہ ہوں ۔کیا اس قسم کاتصور اوراس کا عملی  مظاہرہ کسی دوسرے مزہب یا قوم یاکسی علاقے یا ملک کے لوگوں نے سوائے اسلام کے پیش کیا ہے ؟ہرگز نہیں ۔بے شمار فوائد اورانسانیت کی بھلائی کی باتوں میں سے یہ بھی ایک نہایت عظیم الشان عملی نمونہ ہے اس جیسا نہ کوئی پیش کرسکاہے اورنہ ہی کرسکے گا ،پس رہا یہ سوال کہ اس مقصد کے لیے عرب وحجاز کے خطے کو منتخب کرکے ایسے پیغمبروں کا کیوں انتخاب کیا گیا ،دوسرے ملکوں سے کیوں نہ ہوااس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اگراللہ سبحانہ وتعالی سندھ  سے یایورپ وغیرہ سے یا کسی اورملک یا خطہ سے پیغمبرکا انتخاب کرتا توبھی یہی سوال اٹھایاجاتا،لہذاایسے عظیم الشان پیغمبر کے انتخاب کے لیے عالمی برادری کو وجود میں لانے کے لیے جس بھی خطہ کا انتخاب ہوتا تولازما دوسرے ممالک سے اعتراض دہرایا،کہ اس مقصد کے لیےفلاں علاقہ ہی کیوں منتخب کیاگیا ؟ہماراخطہ کیوں نہ منتخب کیا گیا ،حالانکہ اسی عالمی برادری کےوجودمیں لانے کے لیے ضروری تھا کہ ساری دنیا کے لیے ایک ہی پیشوااورپیغمبرہونا چاہیئے ،اس لیے جہاں بھی اس کا انتخاب ہوتا تودوسرے خطے کے لوگ یہ سوال اٹھاتے ،اس لیےانسانوں کو چاہیئے کہ اس بارے میں معاملہ اللہ پرہی چھوڑیں دیں کیونکہ جہاں بھی اس کو مناسب نظرآیا اس نے وہاں سے اس کا انتخاب کرہی لیا اس میں کیا خرابی ہے ؟کیا اللہ کے ماننےوالوں کا اللہ تعالی پر اتنا بھی بھروسہ نہیں ہے کہ اس نے جو بھی اورجہاں بھی انتخاب کیا اس میں ہمارے لیے بھلائی ہی بھلائی ہے ۔اگریہ اعتراض کرنے والے اللہ کے وجود کے منکرہیں توان کو اس اعتراض کاکوئی حق بھی نہیں علاوہ ازیں جس خطہ سے دین اسلام کی تبلیغ کی ابتداہوئی یعنی(مکہ معظمہ)وہ پرانی ،ایشیا،یورپ،افریقہ کے تقریبا بیچ کی جگہ ہے۔

چنانچہ جغرافیہ جاننے والوں پر  یہ مخفی نہیں ہے اس کے متعلق معلومات کے لیے قاضی سلیمان منصوری کی کتاب رحمۃ للعالمین کی پہلی جلد کا مطالعہ کرنا چاہیئے ۔بہرحال مکہ معظمہ پوری دنیا کا سینٹر ہونے کی بناپرزیادہ حقدارتھا اوروہاں سے ہر ملک کی طرف دین کی آوازپہنچی اسی مرکزی حیثیت کی بناپرعرب کاخطہ منتخب کرنا زیادہ موزوں تھا اوربلاشک وشبہ نبی اکرمﷺکی ہستی اس پورے علاقے میں ایک ہی ہستی تھی جو اس عظیم منصب کی حقدار تھی ۔بلکہ تاریخ گواہ ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں ایک بھی ایسی ہستی نہ تھی جو اس عظیم الشان منصب کےلیے منتخب کی جاتی ۔پوری دنیا میں صرف حضرت محمدﷺکی ہی بابرکت ہستی تھی جس کو اس کامل دین کا علمبرداربنایاگیا کیونکہ وہی اس بڑے منصب کے حقدار تھے ،لہذا جب اللہ عالم الغیب والشہادہ نے پوری دنیائے عرب وعجم پر نظر دالی توسارے مغضوب علیہم نظر آئے۔کوئی بھی اس منصب کے لائق نظر نہیں آیا کہ جس کواس رحمت والے دین کا حامل بنایا جائے ،سوائے پیارے پیغمبرجناب محمدﷺکی بابرکت ہستی کے ۔تواللہ تعالی نے ہی ان کا انتخاب فرمایااس میں کیا اعتراض اورکون سی قباحت ہے ؟یہاں یہ ضرورہے کہ انگریزی زبان بھی کافی دنیا میں بولی جاتی ہے ،عالمی زبانوں میں سے ایک ہے لیکن کوئی انصاف کرے جس کودونوں زبانوں (عربی،انگریزی)پر مکمل عبورہووہ یقینا یہ مانے گاکہ عربی زبان میں جووسعت ہے اس کا عشروعشیربھی انگریزی زبان میں نہیں ہے ۔اسی عربی زبان ایک سائینٹفک(Scientfic)ہےاس کےنحو،صرف،علم البلاغہ اورعلم لغت کے مہارت رکھنے والوں سےپوچھوگےتومعلوم ہوگاکہ عربی زبان مختلف زبانوں سے کس قدروسیع عااعلی درجہ پرفائزہے۔دنیاکی کوئی بھی زبان اس کا ہرگزہرگزمقابلہ نہیں کرسکتی ،یہ ہمارادعوی ہے ۔جس کو کوئی ان شاءاللہ ردنہیں کرسکتا ،لہذاایسے عالمی دین اورعالمی برداری کووجود میں لانے کے  لیےزبان بھی ایسی کا اتخاب ہونا چاہیئے تھا جوسب زبانوں سے اعلی ہو۔عربی زبان کی لطافت نحواورصرف زیروزبراورپیش یا الف ،واواوری کے اختلاف کے لحاظ سے معنی میں بے پناہ اختلاف آجاتاہےیہ ایسی خصوصیت ہے جو دوسری زبان میں نہیں ملتی،اس ایک زبان میں مہارت لانے کے لیے جتنے علوم کی ضرورت ہوتی اتنے علوم کی ضرورت دوسری زبانوں میں نہیں ہوتی ۔لہذا کامل دین کے لیے عربی زبان کا انتخاب عین حکمت کا تقاضا تھی ،اگراس کی جگہ دوسری زبان منتخب کی جاتی تووہ ہوگز اس کامل دین کے لیے موزوں نہ ہوتی ،علاوہ ازیں جب اس دنیا کو ہمیشہ کے لیے رہنا تھا اورانسان کو کئی مسائل درپیش آتے رہتے ہیں لہذااس  کے لیے ایسی زبان کا اختیارکرنا ضروری تھا جس میں رہتی دنیا تک انسانوں کے مسائل کا حل موجود ہو،یہ عربی زبان اوراس کے الفاظ کے معانی کی بے پناہ وسعت ہی ہے کہ ہر زمانہ کی ضرورتوں کا ساتھ دیتی رہی ہے اوردورمیں انسانی مسائل کا حل اس میں دستیاب رہا ہے،دوسری زبان یہ پارٹ ہرگز ادانہیں کرسکتی تھی ،یہ صحیح ہے کہ جناب رسول اللہﷺکی قوم  کی زبان عربی تھی کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ نبیﷺپوری دنیاجاکرہرایک کو اللہ تعالی کا پیغام پہنچائیں۔ان کی ڈائریکٹ(Direct preching)ایک قوم تک ہی رہ سکتی تھی،اس لیے اللہ تعالی نے ان کو ڈائریکٹ عربوں کی طرف بھیجاتاکہ وہ اس کے حامل بن کراس دین کو دوسرے ملکوں اورانسانوں تک پہنچائیں اس طرح یہ دین۔قرآن وسنت پوری دنیا میں پہنچ گئے۔

یہاں اللہ سبحانہ وتعالی نے ایسا انتظام ضرورکیا کہ اپنے کلام پاک کے تراجم پوری دنیا کےمشہورزبانوں میں میسرکروائے ،اس طرح دنیا کلام پاک سے اپنی اپنی زبان میں مستفید ہوتی رہے ،اورہوتی رہے گی۔(ان شاء اللہ)

خلاصہ کلام کہ جب تک دنیا اپنی صفر شنی میں تھی اوراپنے کمال کو نہ پہنچی تھی تب تک توہرملک میں الگ الگ نبی آرہے تھے لیکن جب دنیا اپنی بلوغت وکمال کو پہنچی اوراپنے لسان حال سے تقاضا کرنے لگی کہ اب میرے لیے ایک ہی رہنمائے آئے،ایک ہی دستوریاآئین،نمونہ یالائحہ عمل آئے اورمیرے تمام افرادایک ہی برادری میں پرولیےگئے ہیں اللہ تعالی  نے اپنی بے پناہ رحمت اورفضل عظیم کے ساتھ یہ دعاقبول کی اوران انسانوں میں سےہی ایک عظیم انشان نبی جس کی صداقت وامانت ،تقوی اوردیانت عالم آشکارتھی۔اس سفیرکی جوزبان پوری دنیا کی زبانوں سے اعلی تھی اس کو ایسے خطہ سے مبعوث کیا جو پوری دنیا کےلیے مرکزی حیثیت رکھتا تھاجس نے آکرپوری دنیا کے انسانوں کوامن کاپیغام دیا۔ان سب کو ایک ہی عالمی برادری سے منسلک کیا ان کو ایسا کامل دین عطاکیا جو کامل ہونے کے ساتھ ساتھ رہتی دنیا تک کے انسانوں کی ضروریات کو پوراکرتا رہے ،اوروہ سارے ایک ہی معبودکے بندے بن کرآپس میں بھائی بھائی بن کررہیں،کوئی بھی اپنے آپ کو دوسروں کاخادم سمجھے،یہ سارانظام یا مقصد خاتم النبیین حضرت محمدﷺکے ورودمسعودکےساتھ پوراہوا،اس میں کون سی ایسی بات ہے جو اعتراض کے لائق ہے،باقی ان علم اورروشنی کے چمڑوں کو اسلام کے نہ غروب ہونے والے سورج (رسول اللہﷺ)سے خواہ مخواہ ضد یا عداوت ہےتواس کا علاج ممکن ہی نہیں ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ راشدیہ

صفحہ نمبر 223

محدث فتویٰ

تبصرے