سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(31)نور و بشر کی حقیقت

  • 14816
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2152

سوال

(31)نور و بشر کی حقیقت
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیافرماتےہیں علمائےکرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ سب سےپہلےالله تعالی نے حضرت محمدﷺکو اپنے نورسے پیداکیا جس کانامحمدﷺرکھا پھر پوری مخلوق کو آپﷺکے نوراورپسینہ سے پیداکیا،آسمان ،زمین،عرش وکرسی لوح وقلم وغیرہ جنت جہنم ،فرشتے وغیرہ بھی اسی نورسےپیداکیےکیا یہ بات درست ہے یا نہیں؟‘‘ بینواوتوجروابالدلیل الصحیح؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ مسئلہ دراصل ان لوگوں کی طرف سے گھڑاگیا ہے جومشرکانہ خیال رکھتے ہیں۔رسالت مآبﷺکے بارے میں ان حضرات کا خیال ہے کہ آپﷺانسانوں میں سے ہیں ہی نہیں،اس لیے یہ حضرات آپﷺپربشرکااطلاق جائزنہیں سمجھتے بلکہ کہتے ہیں کہ آپﷺنورہیں اورنورکا مطلب ان کے پاس یہ ہے کہ معاذاللہ!اللہ تبارک وتعالی نے اپنی ذات مبارکہ سے تمام نورنکال کرالگ کرکےاس سے نبیﷺکو بنایایعنی ان حضرات کے ہان اللہ تعالی نعوذباللہ کسی مادی چیز کا مجموعہ ہےجس سے کچھ نکال کر کسی دوسری چیز کو بنایاگیا مثلا مٹی کا ڈھیر ہو جس سے کچھ نکال کرکوئی چیزبنائی گئی ہو۔اس طرح کے عقیدہ کا کفریہ عقیدہ ہونے کے بارے میں کوئی شک نہیں کیا جاسکتااس بدعقیدہ کا ایک لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالی نے اگر اپنی ذات میں سے کوئی حصہ نکالاہےتووہاں پرپڑنے والے خلاکو کس چیز سےبھرایاوہ خال ویساکا ویسارہ گیا اوراس کادوسرامطلب یہ ہوگا کہ نبی کریمﷺخوداللہ ہیں جس طرح اس قسم کے عقیدہ رکھنے والےاس طرح کے اشعارکہنے سےبھی نہیں ڈرتے:

جو تھا مستوی عرش پر خداہوکر

اترپڑامدینہ  میں  مصطفی  ہو کر

اب اس سے بڑھ کر کفریا الحاد کیا ہوسکتا ہے کہ اللہ کے رسول کریمﷺکو بعینہ اللہ بنادیا گیا ہے یہی تو نصاری کا عقیدہ تھا وہ کہتے تھے کہ ‘‘ان الله هوالمسيح ابن مريم’’یعنی عیسی بن مریم ہی تواللہ ہیں۔’’افسوس کے ہمارے نام نہاد مسلمان بھی نصاری کے اس عقیدہ کو اختیارکرکے رسول اللہﷺکو اللہ بناددیاہے جب کہ قرآن کریم نے توتین جگہوں پر نبی کریمﷺکے بشرہونے کی تصریح کی ہے۔

مثال نمبر١: ﴿قُلْ سُبْحَانَ رَ‌بِّى هَلْ كُنتُ إِلَّا بَشَرً‌ۭا رَّ‌سُولًا﴾(بني اسرائيل:٩٣)

‘‘كہو کہ میرارب پاک ہے کیا میں بشررسول ہونے کے علاوہ اورکچھ ہوں کیا؟’’

یعنی اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوں صرف بشراوررسول ہی  ہوں۔

مثال نمبر٢:﴿قُلْ إِنَّمَآ أَنَا۠ بَشَرٌ‌ۭ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰٓ إِلَىَّ﴾ (الكهف: ١١۰)

‘‘اے اللہ کے نبی تو لوگوں کو واضح کرکے بتادے کہ میں بھی تمہاری طرح بشرہوں۔(یعنی انسان ہوں)اورمیری طرف وحی کی جاتی ہے۔’’

مثال نمبر٣:﴿قُلْ إِنَّمَآ أَنَا۠ بَشَرٌ‌ۭ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰٓ إِلَىَّ﴾ (حم السجدة:٦)

‘‘یعنی اللہ سبحانہ  وتعالی نے آپ کی بشریت کی واضح الفاظوں میں تصریح فرمائی ہےمگرقرآن کریم میں نورہونے کے بارے میں ایک جگہ نی تصریح نہیں فرمائی اسی طرح قرآن کریم میں دوسری جگہوں پر قرآن کریم پر تونورکا اطلاق ہوا ہے اوراس کی تصریح بھی ہوئی ہے :

مثال نمبر١:﴿فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُ‌وهُ وَنَصَرُ‌وهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ‌ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ ۙ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾ (الاعراف: ١۰٧)

‘‘یعنی جن لوگوں نے نبی پر ایمان لایا اوران کی تعظیم اورمددکی اوراس نور کی اتباع کی جو وہ ساتھ لائے ہیں تووہ لوگ کامیاب ہیں۔’’

اوریہ بالکل واضح ہے  کہ جو نورنبی ﷺساتھ لائے ہیں اس سے مراد قرآن کریم ہے:

مثال نمبر٢:﴿فَـَٔامِنُوا۟ بِٱللَّهِ وَرَ‌سُولِهِۦ وَٱلنُّورِ‌ ٱلَّذِىٓ أَنزَلْنَا ۚ وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ‌ۭ﴾ (التغابن:٨)

‘‘پس تم ایمان لائے اللہ اوراس کے رسول کے ساتھ اوراس نورکے ساتھ جوہم نے نازل کیا ہے اورتم جو عمل کرتے ہواللہ اس سے باخبر ہے۔’’

اورقرآن کریم پر نورکااطلاق اس لیے ہے کہ جس طرح نور(یعنی روشنی)میں سب کچھ دیکھا جاسکتا ہے اسی طرح قرآن کریم سے بھی ضلالت کفروشرک کی تاریکیوں سے نکل کرہدایت وایمان کی روشنی میں آیا جاسکتا ہے ۔اورہرایک کو معلوم ہوجاتا ہےکہ ایمان کیا ہے کفرکیا ہے ؟ضلالت کیا ہے ؟ہدایت کیا ہے؟بہرحال قرآن کریم اللہ کی کتاب قرآن پرنورکااطلاق ہوا ہے مگر نبیﷺپروضاحت کے ساتھ کسی ایک جگہ پر بھی نورکااطلاق نہیں ہوابلکہ ان کے بشرہونے کی صراحت کی گئی ہے جس طرح پہلے گزرچکاہےکچھ حضرات سورہ مائدہ کی اس آیت کریمہ:

﴿قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللَّـهِ نُورٌ‌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ﴾ (المائدہ:١٥)

‘‘یعنی تمہار ے پاس اللہ کی طرف سے نور اورواضح کتاب آچکی ہے۔’’

ان حضرات کا کہنا ہے کہ اس آیت کریمہ میں نورپر﴿كِتَابٌ مُّبِينٌ﴾کومعطوف بنایاگیاہےاورعطف مغایرۃ کو چاہتا ہے اس لیے كِتَابٌ مُّبِينٌاورنوردوعلیحدہ چیزیں ہیں لہذا كِتَابٌ مُّبِينٌسےتوقرآن ہی مرادہے لیکن نورسےمرادنبیﷺہیں۔حالانکہ ہم پہلے بھی یہ واضح کرچکے ہیں کہ قرآن کریم میں قرآن پرنورکی صراحت واضح نہیں ہے۔لہذا بموجب قائدہ‘‘القرآن يفسربعضه بعضا’’اس آيت کریمہ میں بھی نورسےمرادقرآن عزیز ہےاورایک چیز کی چند وصفیں صرف عطف کے ساتھ آجاتی ہیں۔اورباقی رہی،مغایرۃ والی بات توعطف مغایرۃ کو چاہتا ہے اوران صفتوں میں معنوی مغایرۃ جو عطف کے لیے کافی ہے ۔اس کی مثال قرآن کریم میں بھی کافی ہیں مثلا سورۃ حجرکی ابتدائی آیات میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:

﴿الٓر‌ ۚ تِلْكَ ءَايَـٰتُ ٱلْكِتَـٰبِ وَقُرْ‌ءَانٍ مُّبِينٍ﴾ (الحجر:١)

‘‘یعنی الر،یہ آیتیں ہیں کتاب کی قرآن مبین کی۔’’

اورظاہر ہے کہ کتاب اورقرآن دونوں سےمرادقرآن ہی ہے کتاب اس لیے کہا جاتاہے کہ لکھا ہوا ہے اسی طرح سورت نمل کی بھی ابتدائی آیات میں ہے:

﴿طسٓ ۚ تِلْكَ ءَايَـٰتُ ٱلْقُرْ‌ءَانِ وَكِتَابٍ مُّبِينٍ﴾ (النمل:١)

ان دونوں آیات کے درمیان واوعاطفہ ہے مگرمرادایک ہی چیز ہے یعنی قرآن کریم کیونکہ قرآن اورکتاب میں جو معنوی مغایرۃ ہے وہی عطف کے لیے کافی ہے۔اسی طرح سورۃالاحزاب میں نبیﷺکی چندوصفیں بیان ہوئیں ہیں۔جیسے:

﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ إِنَّآ أَرْ‌سَلْنَـٰكَ شَـٰهِدًا وَمُبَشِّرً‌ۭا وَنَذِيرً‌ۭا ﴿٤٥﴾ وَدَاعِيًا إِلَى ٱللَّهِ بِإِذْنِهِۦ وَسِرَ‌اجًا مُّنِيرً‌ۭا﴾ (الاحزاب:٤٥’٤٦)

قارئین کرام!غورکریں!یہاں پرنبیﷺکی یہ صفات بیان کی گئی ہیں۔شاہد،مبشر،نذیر،داعی الی اللہ،سراجا،منیرااوریہ تمام وصف عطف کےساتھ آئیں ہیں لیکن یہاں پریہ کہناکہ مبشراورنذیرکوئی الگ الگ ہستیاں ہیں کیونکہ واوعاطفہ مغایرۃکوچاہتاہےتوکیااس طرح کہنادرست ہوگاہرگزہرگزنہیں۔کیونکہ شاہد،مبشر،نذیروغیرہاکےمعنی میں کچھ مغایرۃہےجوکہ عطف کوبنانےکےلیےکافی ہےخلاصہ کہ ان صاحبوں نےجوواوعطف کی مغایرۃکابت کھڑاکیاتھاوہ حق آنےکےبعدسرنگوں ہوگیا۔

(جاءالحق وزهق الباطل)

اب مطلب یہ ہواکہ سورۃالمائدہ میں نورسےمرادبھی قرآن کریم ہےجس طرح آیات میں قرآن کااطلاق ہےاورنورکہنےکی وجہ شبہ بھی ہم نےبیان کردی ہےاوروہآیات بھی بیان فرمادیں جن میں نبیﷺکےبشرہونےکی صراحت موجودہے۔سورۃکہف اورحم سجدہ والی آیات﴿قُلْ إِنَّمَآ أَنَا۠ بَشَرٌ‌ۭ مِّثْلُكُمْ﴾والی آیت کےبارےمیں مشرکانہ خیالات رکھنےوالےحضرات ایسی مجلسوں میں جن میں کوئی عربی کاجانےےوالایاماہرنہیں ہوتاوہاں اپنےتجاہل عارفانہ کوعملی جامہ پہنانےکی کوشش کرتےہوئےسادہ لوہ مسلمانوں کویہ کہہ کرگمراہ کرنےکی کوشش کرتےہیں کہ یہ وہابی حضرات آپ کواس آیت کاغلط مطلب بتاتےہیں کیونکہ إِنَّمَآ میں(ان کےکہنےکےمطابق)مَآنافیہ ہےاوراس کامطلب یہ ہےکہ نہیں ہوں میں آپ جیساانسان لیکن بھائی!یہ وہابی حضرات اللہ کےکلام میں بھی اپنےمطلب کی معانی نکالتےہیں اورلوگوں کوحق سےدورکرتےہیں۔درحقیقت اس جگہ یااس جیسی دوسری جگہوں پر‘‘إِنَّمَآ’’ کاکلمہ حصرکاہےجس کی صحیح معنی یہاں پریہ ہوگاکہ میں صرف تمہاری طرح انسان ہوں۔لیکن ان لوگوں نےتوعربی کےقوانین کونظراندازکردیااورصرف عوام کودھوکہ دینےکےلیےاللہ کےکلام میں تحری کرنےسےبھی دریغ نہ کیا۔علامہ ابن ہشام انصاری اپنی مایہ نازکتاب مغنی اللبیب کی جلد٢صفحہ٩پرلکھتےہیں:

((وليث ماللنفى بل هى بمنزلتهافى اخواتهماليتماولعلماولكناوكأنما_))

‘‘یعنی ان کےساتھ جو‘‘ما’’زائدہ یاکافہ آتی ہےوہ نفی کےلیےنہیں ہےبلکہ وہ اپنی دوسری اخوات کی طرف آتی ہے۔(یعنی جس طرح ان حروف میں مازائدہ کافۃہےاسی طرح إِنَّ وَأَنَّ کےساتھ بھی جوماہےوہ بھی زائدہ ہےنہ کہ نافیہ)لہٰذاجو إِنَّ مشبہ بالفعل ہےوہ‘‘ما’’نافیہ پرداخل نہیں ہوتی یعنی إِنَّ کواپنےعمل سےروکتی ہےاور‘‘ما’’اور‘‘الا’’حصرکی معنی پیداکرتےہیں یا إِنَّ کےبعدآنےوالی ماموصولہ ہوتی ہےاورموصولہ اسم ہوتاہےاس صورت میں‘‘ما’’موصولہ ان کااسم بن جائےگی لیکن اگران حضرات کےکہنےکےمطابق‘‘ما’’کونافیہ بنایاجائےتویہ‘‘ما’’صرفی ہوگی پھراسم میں اس کااسم یامسندالیہ بننےکی لیاقت ہی نہیں رہےگی کیونکہ حرف نہ مسندبن سکتاہےاورنہ ہی مسندالیہ لہٰذااس سورت میں إِنَّ کااسم کس چیزکوبنایاجائے۔‘‘ما’’اگرنافیہ بنائی جائےگی تو‘‘ما’’‘‘إِنَّ’’کااسم بنےگی اور

‘‘بَشَرٌ‌ۭ مِّثْلُكُمْ’’اس کی خبربنےگی پھربتائیں کہ مااسم اورخبرسےمل کرکیاعبارت بنےگی؟اگرکہوگے؟یہ جملہ تاویل مصدرمیں ہوکران کااسم بنےگاتواس صورت میں معنی یہ ہوگاکہ بیشک میرآپ جیساانسان نہ ہونےکی وصی کی جاتی ہےمیری طرف۔

قارئین کرام!انصاف کریں کہ اس جملہ کےیہ معنی کیادیوانہ کےعلاوہ کوئی اورکرسکتاہے؟ہرگزنہیں بہرحال ایک توان‘‘ما’’نافیہ پرعمل نہیں کرتی دوسراکہ اگرتھوڑےسےوقت کےلیےاس کومانابھی جائےتواس کےمعنی ایسےغلط ہوں گےکہ اس کوصحیح کرنےکی کوئی صورت بھی نہیں بچتی،تعجب ہےکہ ان لوگوں کواللہ تعالیٰ کےکلام میں اس طرح کی جرات کس طرح ہوتی ہے۔علاوہ ازیں اسی آیت کریمہ کےاندر(يُوحَىٰٓ إِلَىَّ)کےبعدپھردوبارہ یہ الفاظ ہیں۔(أَنَّمَآ إِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَ‌ٰحِدٌ)توکیایہ حضرات اس کےبھی معنی کریں گےکہ‘‘نہیں ہےتمہاراایک اللہ’’؟اگرنہیں توپھراس سےپہلےوالےجملہ میں اس خودساختہ معنی پراتنی ہٹ دھرمی کیوں؟قرآن کریم میں یہ ایک مثال نہیں ہےبلکہ تعکیب کی کتنی ہی مثالیں ہیں ہم یہاں پرچندمثالیں بیان کرتےہیں قرآن کریم میں سورت توبہ میں ہے:

﴿إِنَّمَا ٱلْمُشْرِ‌كُونَ نَجَسٌ﴾ (التوبة:٢٨)

عربیت کےان نئےمجتہدین کےمطابق اس کی معنی یہ ہوگی کہ نہیں ہیں مشرک پلید۔

سورۃالانفال میں اللہ تعالیٰ فرماتےہیں:

﴿إِنَّمَا ٱلْمُؤْمِنُونَ ٱلَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ‌ ٱللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ......الاية﴾ (الانفال:٢)

معنی اس کے(ان کےقائدے)کےمطابق یہ ہوگاکہ وہ لوگ مومن نہیں ہیں جن کےدل اللہ کےذکرپرخوف کےمارےکانپ جاتےہیں۔

﴿إِنَّمَا ٱلْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ﴾ (الحجرات: ١۰)

‘‘بیشک مومن بھائی نہیں ہیں۔’’اور

﴿قُلْ إِنَّمَا ٱلْعِلْمُ عِندَ ٱللَّهِ وَإِنَّمَآ أَنَا۠ نَذِيرٌ‌ۭ مُّبِينٌ﴾ (ملك: ٢٦)

آپ کہیں کہ اللہ تعالیٰ کےپاس علم ہی نہیں ہےاورنہیں ہوں میں واضح ڈرانےوالا۔

بہرحال ہم نےتویہاں چندمثالیں عرض رکھیں بلکہ قرآن کریم توایسی ترکیبوں سےبھراہواہےپھریہ حضرات آخرکہاں تک اپنی خودساختہ معنی کرتےرہیں گے۔

حاصل کلام!کہ انمامیں‘‘ما’’نافیہ بنانےکی وجہ سےجومفاسدپیداہوں گےان کاکوئی حل نہیں ہےاورمعاذاللہ قرآن جیسی کتاب مہمل بن جاتی ہے۔قارئین کی آسانی کی بناپرہم صرف اتناعرض کرتےہیں کہ ان کےبعدآنےوالی‘‘ما’’کی ہم نےدواقسام بیان کی ہیں۔ایک ماکافہ جوکہ إِنَّ کوعمل سےروکتی ہےاگر إِنَّ کےساتھ آئےگی تواس سےمل کربالکل ایک حرف بن جاتی ہےیہی وجہ ہےقرآن میں یہ جہاں پربھی آئی ہےوہاں وہ ان کےساتھ متصل آئی ہے۔اگرمانافیہ ہوتی تودونون کوالگ الگ لکھاجاتااوراکٹھی صورت میں انماکلمہ حصربن جاتا ہے اوردوسری‘‘ما’’موصولہ کی آتی ہے اس کی صورت اس طرح ہےکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ الگ آتی ہیں۔جس طرح اللہ تعالی سورت انعام میں فرماتے ہیں:

﴿إِنَّ مَا تُوعَدُونَ لَءَاتٍ﴾ (الانعام:١٣٤)

‘‘بےشک وہ چیز جس کا تمہارے ساتھ وعدہ کیاگیاہےوہ ضرورآنی ہے۔’’

اسی طرح قرآن کریم میں دوسری کئی ایک مثال دیکھی جاسکتی ہیں۔

خلاصہ کلام:۔۔۔۔۔۔کہ جب انماحصر کل کلمہ ہوتا ہے تووہاں پر ‘‘ان’’اور‘‘ما’’دونوں بالکل متصل آتے ہیں یعنی دونوں مل کرایک کلمہ بن جاتے ہیں لیکن ماموصولہ کی صورت میں دونوں علیحدہ کتابت کی جاتی ہیں۔باقی رہا مسئلہ‘‘ما’’نافیہ کا تو اس پر ان داخل ہی نہیں ہوتااوراس کو ماکونافیہ قراردینے سے عبارت کے معنی بالکل غلط بن جاتے ہیں کچھ حضرات اپنے گمراہی والے عقیدہ پر دلیل کے طورپر مصنف عبدالرزاق کی طرف منسوب وہ روایت پیش کرتے ہیں جوجابر

رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے جو اس طرح ہے:

((قال قلت يارسول الله بأبى انت وامى اخبرنى ان اول شى خلق الله قبل الاشياء قال ياجابران الله تعالى خلق قبل الاشياء نور نبيك من نوره۔۔۔۔۔۔الخ.)) (روایت کافی لمبی ہے)

ان الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ سیدنا جابررضی اللہ عنہ بے عرض کیا اے اللہ کے رسول میرے والدین آپ پر قربان ہوں مجھے خبردیں سب سے پہلی چیز کے بارے میں جو سب سے پہلےاللہ نے پید اکی آپﷺنے فرمایااےجابربیشک اللہ تعالی نے تمام اشیاء سے پہلے تیرےنبی کا نوراپنے نورسےپیداکیا۔ان حضرات کا کہنا ہے کہ اس روایت میں صراحت ہے تمام مخلوق کی پیدائش سے قبل اللہ نے اپنے نورسےنبیﷺکا نورپیداکیااورپھر تمام اشیاء کواس نورسےپیداکیا۔(جس طرح آگے روایت میں بیان ہوتا ہے )افسوس اس بات پر ہےکہ یہ حضرات اپنے ضلالت سےپر عقیدے کو ثابت کرنے کے لیے اللہ کے رسول ﷺپرافتراء بازی سے بھی نہیں ڈرتے اورانہیں اس خوش آمدیدکابھی ڈرنہیں جواحادیث صحیحہ میں واردہے کہ:

((من كذب على متعمدا فليتبوا مقعده من النار.))  ابوداود’كتاب العلم باب التشديد فى الكذب على رسول اللهﷺ’رقم  الحديث:٣٦٥١.

‘‘جوشخص جان بوجھ کر مجھ پر افتراء باندھتا ہے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنالے۔’’

حقیقت یہ ہے کہ اس روایت کی اصل سند بھی موجود نہیں ہے ۔ایسی بے سند روایت کولے کراس سے اہم عقیدہ کے اثبات کاکام اس آدمی کے علاوہ اورکوئی نہیں کرسکتا جو خود بھی گمراہ ہے اوردوسروں کوبھی گمراہ کرنا چاہتا ہے ۔اعاذنااللہ’’باقی روایت کی نسبت جومصنف عبدالرزاق کی طرف کی جاتی ہے تویہ درست نہیں ہے مصنف عبدالرزاق مطبوعہ کامل طبع ہند الحمدللہ ہمارے کتب خانہ میں موجود ہے جس کا تتبع کرکے ہرمنصب مزاج معلوم کرسکتا ہے کہ اس موضوع روایت کا اس کتاب میں نام ونشان بھی نہیں ہے پتہ نہیں ان حضرات نے اس بے سند روایت کی نسبت کس بل بوتے پر اس کتاب کی طرف کی ہے شاید ان کا یہی خیال ہوگا کہ مذکورہ کتاب نہ توچھپ کر منظر عام پر آئے گی اورنہ ہی ہمارے افتراء کی کلی کھلے گی مگر اللہ کے فضل وکرم سے یہ کتاب چھپ کر منظر عام پر آگئی جس سےہرآدمی کوبرائے راست استفادہ کرنے کا موقع میسر ہوگیا ۔اوراس کتاب کا ناقص قلمی نسخہ بھی ہمارےکتب خانہ میں موجود ہے مگر اس میں اس روایت کا پتہ نہیں پڑتا کچھ حضرات ہمارے پاس آئے انہوں نے اس قلمی نسخہ کو آگے پیچھے کیا تاکہ وہ خود ساختہ روایت ان کو مل جائے لیکن وہ روایت نہ اس کتاب میں تھی اورنہ ہی ان کو مل سکی ۔

خلاصہ کلام کہ اس روایت کی نسبت مصنف عبدالرزاق کی طرف درست نہیں ہے دوسری کسی کتاب میں اس کی سند نہیں ہے چہ جائے کہ وہ موضوع ہوپھر ایسی بے سند روایات سے

عقیدے کا اثبات کس طرح ممکن ہے جب کہ خود کے ہاں معمولی ضعف والی روایت بھی عقائدکے باب میں مقبول نہیں ہے توموضوع اوربے سند روایت اس باب میں کس طرح مقبول ہوگی۔اس سےہرذی عقل اورانصاف والاآدمی معلوم کرلے گاکہ اصل حقیقت کیا ہے۔

ضمیمہ

اوراسی طرح نبیﷺکا اللہ تعالی کے نورسےپیداہونے کے بارے میں دوسری روایت موضوعہ بھی ملی ہے جو کہ حافظ ذہبی اپنی کتاب میزان الاعتدال جلد١’صفحہ١٦٦طبع جدید میں شیخ ابونعیم اصفہان کی امالی سے اس سند سے ذکر کی ہے۔

((حدثنا محمدبن محمد بن عمروبن زيد املاء حدثنا احمدبن يوسف المجبجى حدثنا ابوشعيب صالح بن زيادالسوسى حدثنا الهيثم بن جميل حدثنا ابومعشرعن القبرى عن ابى هريرة رضى الله عنه قال قال رسول اللهﷺخلقنى الله من نوره وخلق ابابكرمن نورى وخلق عمرمن نورى وخلق امتى من نورعمروعمرسراج اهل الجنة.))

‘‘سيدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایاکہ مجھے اللہ تعالی نے اپنے نورسےپیداکیا پھرمیرے نورسےابوبکرکوپیداکیا،اورپھرحضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے نورسےحضرت عمررضی اللہ عنہ کوپیداکیا پھر پوری امت سیدنا عمررضی اللہ عنہ کے نورسےپیداکیا اورحضرت عمررضی اللہ عنہ پوری امت کا چراغ ہے۔’’

علامہ ذہبی فرماتے ہیں کہ ابونعیم اس روایت کے بارے میں قرم طرازہیں:

‘‘کہ یہ روایت باطل ہے کتاب اللہ کے مخالف ہے اوراس میں راوی ابومعشرجس کو جھوٹا کہا ہے اورصحیحین  اس کی روایت اپنی کتاب میں نہیں لائے ہیں اوردوسراراوی ابوشعیب  سوسی جوکہ متروک ہے جس کے ترک پر تمام محدثین متفق ہیں اوراسی طرح  ہیثم بھی جس کی کوئی بھی روایت صحیحین میں نہیں لائی گئی ہےاس کے بعد امام ذہبی فرماتے ہیں کہ میرے پاس اس روایت موضوع کی آفت(قہر)احمدبن یوسف منجبی ہیں کیونکہ وہ غیرمعروف مجہول آدمی ہےاوروہی یہ جھوٹی خبرلائےہیں۔’’

یہ حضرات اس طرح کی موضوع اورواہیہ روایت کاسہارالیتےہیں ورنہ ان کےدامن میں کوئی صحیح روایت ہےہی نہیں اورایک دن اللہ تعالیٰ کی عدالت میں انہیں اپنی افتراءپردرازیں سےجوابدہ ہوناپڑےگا۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ راشدیہ

صفحہ نمبر 211

محدث فتویٰ

تبصرے