سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(25)کیا جہنم خالی کردی جائے گی؟

  • 14810
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 3595

سوال

(25)کیا جہنم خالی کردی جائے گی؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک مولوی صاحب کہتے ہیں کہ اللہ تعالی کی رحمت بڑی وسیع ہے اورشفاعت بھی لازمی امر ہے اوربالآخر اللہ تعالی اپنے رحم وکرم کے ساتھ جنت کوبھر کرجہنم کو خالی فرمادے گا اورجہنم کو بند کردیا جائے گانیز قیامت کے دن شرابی اورزانی وغیرہ کی شفاعت بھی ہوگی کیا یہ درست ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جہنم کے متعلق سلف وخلف کا اختلاف ہے کہ وہمیشہ رہےگی یا بالآخرختم ہوجائے گی یعنی بہت طویل عرصہ کے بعد بالآخر بندکردی جائے گی اورپھرسب کے سب جنت میں چلے جائیں گے لیکن کتاب وسنت کے نصوص سے اس بندہ حقیر راقم الحروف کو یہی بات اوران علماء کا موقف صحیح نظرآتا ہےجو یہ کہتے ہیں کہ جہنم بھی ہمیشہ رہےگی ویسے اللہ تعالی مالک ہے اگر کافر کوبھی معاف کردے توہمیں پوچھنے کا کوئی حق نہیں وہ مالک العلام ہے اورحکیم وحلیم ہے اس کا کوئی بھی حکم حکمتوں سے خالی نہیں ہمیں کیا حق حاصل ہے  کہ اس کے کسی کام پر صرف کوئی سوال ہی کریں مگر احادیث وآیات یہی بتاتی ہیں کہ کافرلوگ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے یعنی ان کا خروج کبھی نہیں ہوگا۔باقی سورہ ہود کی اس آیت سےجو استدلال کرتے ہیں یعنی:

﴿فَأَمَّا ٱلَّذِينَ شَقُوا۟ فَفِى ٱلنَّارِ‌ لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌ‌ۭ وَشَهِيقٌ ﴿١٠٦﴾ خَـٰلِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ ٱلسَّمَـٰوَ‌ٰتُ وَٱلْأَرْ‌ضُ إِلَّا مَا شَآءَ رَ‌بُّكَ ۚ إِنَّ رَ‌بَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِ‌يدُ ﴿١٠٧﴾ (ھود:١۰٦’١۰٧)

یعنی جہنمیوں کا جہنم میں رہنا آسمانوں اورزمینوں کے باقی رہنے تک بیان کیا گیا ہے توجب آسمان وزمین فانی ہیں لہذا جہنم بھی فانی ہے یعنی ان کے بقول جتنا وقت آسمان وزمین اس میں رہے ہوں گے اتنا وقت وہ جہنمی جہنم میں رہیں گے پھر اس طویل عرصہ کے بعد جہنم بھی ختم ہوجائے گی اورجہنمی اس سے نکل جائیں گے لیکن یہ استدلال اس لیے درست نہیں کہ ان آسمانوں اورزمینوں سے مرادآخرت والے آسمان وزمینیں ہیں نہ کہ اس دنیا والے کیونکہ سورہ ابراہیم میں اللہ کا فرمان ہے کہ:

﴿يَوْمَ تُبَدَّلُ ٱلْأَرْ‌ضُ غَيْرَ‌ ٱلْأَرْ‌ضِ وَٱلسَّمَـٰوَ‌ٰتُ﴾ (ابراھیم:٤٨)

‘‘یعنی قیامت کے دن آسمان اورزمینیں دوسری شکل وصورت اختیارکریں گے۔’’

ظاہر ہے کہ آسمان اورزمین نہ دنیا کے ہیں اورنہ ہی آخرت کے کیونکہ آخرت والےآسمان اورزمینیں باقی رہیں گے تب تک وہ جہنم میں رہیں گے اس کا مطلب دوسرے الفاظ میں یہ ہوا کہ نہ ہی آخرت والے زمین وآسمان فناہوں گے اورنہ  ہی جہنمی جہنم سےنکلیں گےلہذا اس آیت میں جہنم کے فنا ہونے کی کوئی بھی  دلیل نہیں باقی‘‘الاماشاءربك’’کےالفاظ تواس غلط فہمی کو دورکرنے کے لیے آئے ہیں کہ کوئی ناسمجھ یہ ناسمجھے کہ آخرت کی اشیاء کوبقاء اس لیے حاصل ہےکہ ان کے فنا پر اللہ تعالی کو قدرت حاصل نہیں تواللہ تعالی نے یہ غلط فہمی اس طرح دورفرمائی کہ آخرت کے عالم اوراس میں جو کچھ ہے اسے بقاء اس لیے حاصل ہے کہ اللہ تعالی نے اس طرح چاہاہے ورنہ اگر اللہ تعالی چاہتا توآخرت کے عالم کوبھی فناکردیتایعنی اس میں غیر محدودقدرت کااظہار ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہی اہل جنت کے لیے بھی واردہوئے ہیں۔یعنی

﴿وَأَمَّا ٱلَّذِينَ سُعِدُوا۟ فَفِى ٱلْجَنَّةِ خَـٰلِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ ٱلسَّمَـٰوَ‌ٰتُ وَٱلْأَرْ‌ضُ إِلَّا مَا شَآءَ رَ‌بُّكَ ۖ عَطَآءً غَيْرَ‌ مَجْذُوذ﴾ (ھود:٨ ۰ ١)

یعنی جہنم خواہ جنت کا بقاء اللہ تعالی کی مشیت پر منحصر ہے اگرچاہے توان کو بھی فناکرسکتاہےمگرفنانہ ہوں کیونکہ دوسرے مقامات پر رب تعالی نے اپنی اٹل مشیت بیان فرمادی ہے کہ وہ فنا نہ ہوں گے اورجنتی خواہ جہنمی ان میں ہمیشہ رہیں گے اسی طرح سورۃ انعام میں بھی یہ الفاظ ہیں:

﴿قَالَ ٱلنَّارُ‌ مَثْوَىٰكُمْ خَـٰلِدِينَ فِيهَآ إِلَّا مَا شَآءَ ٱللَّهُ ۗ إِنَّ رَ‌بَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ﴾ (الانعام:١٢٨)

اس کے متعلق بھی وہی گزارش کی جاسکتی ہے۔بہرحال جہنم کی فناء پر کوئی قاطع دلیل نہیں بلکہ خلودودوام کی طرف مشیر دلائل موجود ہیں اگر ان پر کوئی قناعت نہیں کرتا توزیادہ سے زیادہ اس کے متعلق توقف کرے یہ سمجھے کہ جیسا اللہ تعالی نے چاہاویسے ہی ہوگاہمیں کیامجال کہ اس کی مرضی میں دخل اندازی کریں ۔باقی اس یقین کے لیے کوئی ٹھوس دلیل نہیں کہ یقینا جہنم فناہوگی باقی شفاعت کے لازمی امرہونے کا مطلب اگریہ ہے کہ آخرت میں شفاعت واقع ہوگی تویہ بات درست ہے مگر اللہ تعالی کی اجازت سے:

﴿مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ﴾ (البقرۃ:۲۵۵)

اوروہ بھی ان کے لیے جوکافرومشرک نہیں ہیں مشرکین اورکفارکے لیے کوئی شفارش نہیں کرے گا اوراگر شفاعت کے لازمی امرہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے اوپر یہ کام لازمی ہے کہ جو بھی شفاعت کرے اللہ تعالی اسے ردنہ کرسکے تویہ معنی قطعا غلط ہے رب تعالی کے اوپر کوئی بھی زوریاجبرنہیں کرسکتا وہ خود صاحب اختیار ہے بندوں کو کیا مجال ہے کہ اس سے انسانوں کی طرح زبردستی کرسکیں اس طرح کی بات قطعا غلط ہے باقی رہا یہ مسئلہ کہ جہنم سے زانی ،شرابی اوربے نمازی نکلیں گے یا نہیں ان کی شفاعت ہوگی یا نہیں یہ مسئلہ تفصیل طلب ہے یہاں پر اللہ تعالی کی توفیق سے اپنی سمجھ کے مطابق اس پر کچھ روشنی ڈالتا ہوں ۔پھراگروہ صواب ہوئی تویہ اللہ تعالی کا فضل وکرم ہے ورنہ اگرکوئی خطا واقع ہوئی تو‘‘فمني ومن نفسي’’معلوم ہونا چاہیے کہ زانی وشرابی کے متعلق مختلف احادیث مروی ہیں اورہیں بھی وہ سب کی سب صحیح کچھ میں یہ بیان ہوا ہے:

((ولا يزنى الزانى حين يزنى وهو مومن ولا يشرب الخمرحين يشرب وهومومن.)) صحيح بخارى:كتاب المظالم’باب النهى بغير اذن صاحب’رقم الحديث’٢٤٧٥.

نیزدیگراحادیث میں ہے کہ آخری نجات پانے والاشخص موحد ہوگا اوریہ صراحت بیان ہوئی ہے کہ وہ بالآخر جنت میں داخل ہوگا:

((وان زنى وان سرق.))

یعنی اگرچہ اس نے زنا کیا ہویا چوری کی ہو ۔اورسیدنا ابوذررضی اللہ عنہ(جو اس حدیث کےراوی ہیں)کے تین مرتبہ پوچھنے پر کہ‘‘وان زني وان سرق’’آبﷺنے تینوں مرتبہ جواب دیا‘‘وان زني وان سرق’’ایسی مختلف فیہ احادیث کے متعلق محدثین رحمہم اللہ کایہ اصول ہے کہ اگران دونوں احادیث میں جمع وتطبیق ممکن ہوتوان دونوں میں جمع وتطبیق پیش کی  جائے گی۔لہذا ان دونوں قسم کی احادیث میں جمع اس طرح کی جائے گی ‘‘اس تطبیق کی مئویددیگراحادیث بھی ہیں جو بالکل صحیح ہیں۔’’کہ جن احادیث میں یہ بیان ہے کہ زانی اورشرابی یا چورمومن نہیں،ان کا مطلب ہے کہ کامل مومن نہیں اورجن میں ان کی نجات کاذکرہے اورجنتی ہونے کا بیان ہے ان کا مطلب یہ ہے کہ ابتداء اللہ تعالی  نے انہیں معاف نہ فرمایاتوبالآخر گناہوں کی سزاپاکربعدمیں جہنم سےنکلیں گے اورجنت میں داخل ہوجائیں گے جیساکہ کئی صحیح احادیث میں بیان ہواہے کہ کچھ کو اللہ تعالی ویسے ہی معاف فرمادے گا(گناہوں کی سزاپانے کے بغیر ہی)توکچھ کو سزابھی ملے گی اس کے بعد کچھ شفاعت کے ساتھ اورکچھ

ویسے ہی سزاپانے کے بعدپھر اللہ تعالی کے فضل وکرم سےجہنم سےنکلیں گے۔

علاوہ ازیں اس مطلب کی صحیح حدیث مئویدہےجوسیدناعبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری میں مروی ہے کہ آپﷺنے فرمایاکہ تم مجھ سے شرک نہ کرنے زنا نہ کرنےچوری نہ کرنے وغیرہ وغیرہ پر بیعت کرو،پھراگرجوشخص اپنی بیعت پرقائم رہا اس کا اجراللہ تعالی کے سپرد ہے لیکن اگر کسی سے کوئی گناہ سرزدہوگیایعنی ایسا کام کیا کہ حد کو پہنچ گیا(مثلاچوری،زنا)پھراس کے متعلق دنیا میں معلوم ہوجانے پر اس پر حد جاری ہوگئی تووہ گناہ اس سے اترگیا یعنی حد اس کے لیے کفارہ بن گئی۔(اس سے ظاہر ہے کہ چوریا زانی سے ایمان نہیں ہے بلکہ گنہگارہے کیونکہ حد تومسلمان پر ہی نافذ ہوتی ہے اوراس کے لیے ہی کفارہ بن سکتی ہے نہ کہ کافرکے لیے اوراس سے بھی زیادہ صریح اس حدیث کا اگلا حصہ ہے کہ آپﷺنے فرمایاکہ‘‘اوراگروہ گناہ اس سے سرزدہوگئےمگراللہ تعالی نے اسے چھپایایعنی اس پر حد نافذ نہ ہوئی توپھر وہ معاملہ اللہ تعالی کے سپرد ہے اگر چاہے تواسے معاف کردےاورچاہے تواسے سزادے۔اس سے واضح ہواکہ زانی یاچوربےا یمان نہیں ہے کیونکہ بے ایمان (کافر)کی مغفرت ہی پیدا نہیں ہوتا حالانکہ یہ صحیح حدیث بتاتی ہے کہ اس کی مغفرت اللہ تعالی مشیت مبارک پر منحصر ہے ،یعنی اگرچاہے اسے معاف کردے اگرچاہے اسے سزادےاورحدیث کا سیاق وسباق خود اس بات پر دال ہے کہ وہ سزا پاکرمغفرت  سے مشرف ہوگا کیونکہ وہ صر فایک گناہ ہے ۔بہرحال اس میں شک نہیں ہے کہ یہ کبیرہ گناہ ہیں جن کامرتکب جہنم  کابھی مستحق ہے ۔بہرحال گناہ ہی کفر پابےایمانی نہیں‘‘ہاں جو شخص ان گناہوں کو حلال سمجھے تووہ بلاشک کافر ہے ۔’’اوربیشماراحادیث میں یہ بیان ہوا ہے کہ جن گناہوں کی وجہ کوئی شخص جہنم میں داخل ہوگا وہ بالآخرسزاپاکرپھراس سے شفاعت کی وجہ سےیا پھر اللہ تعالی کے فضل وکرم سے باہر نکل آئے گااورامت اہل سنت کا‘‘خوارج اورمعتزلہ’’کے علاوہ اس پر اجماع ہے کہ کبیرہ کا مرتکب ایسا کافر نہیں کہ اس کا جہنم سے نکلنا نہ ہوسکے اگرچہ کچھ مقامات پرایسے گناہوں پر کفر کے لفظ کا اطلاق ہوا ہے لیکن اس سےمحدثین رحمہم اللہ مثلا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کفردون کفرمرادلیتے ہیں نہ  کہ وہ کفر جو ایمان کے مدمقابل ہےجیسا کہ حدیث شریف میں کفرکااطلاق احسان فراموشی پرکیا گیا ہے ایک مرتبہ رسول کریمﷺنے عورتوں سےخطاب کرتے ہوئے فرمایاکہ تم جہنم میں زیادہ تعدادمیں جاوگی انہوں نے سبب پوچھاتوآپ نے فرمایاکہ‘‘تکفرن’’تم کفرکرتی ہوانہوں  نےپھردریافت کیا کہ کیا ہم اللہ سے کفر کرتی ہیں آپﷺنے فرمایاکہ مردوں یعنی اپنے شوہروں کی احسان فرموشی کرتی ہو۔اب دیکھیں اس مقام پر آپ نے مطلق کفرکالفظ ارشادفرمایالیکن پھر پوچھنے کے بعد فرمایاکہ اس سے مراد کفر اللہ تعالی کے ساتھ نہیں ہ ےاسی طرح بھگوڑے غلام پر بھی کافرکے لفظ کا اطلاق ہواہے۔(صحیح مسلم)

حالانکہ غلام کا بھاگ جاناگناہ اپنی جگہ پر ہے لیکن اللہ تعالی کے ساتھ کفرتونہیں اسی طرح صحیح حدیث میں واردہواہ ےکہ :

((سباب المسلم فسوق وقتاله كفر.))

‘‘مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اوراس کے ساتھ قتال (لڑنا )کفرہے۔’’

حالانکہ قرآن  حکیم نے مسلمانوں میں سے دوجماعتوں کو مومن کے لفظ سے ملقب کیا ہے:

﴿وَإِن طَآئِفَتَانِ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ ٱقْتَتَلُوا۟ فَأَصْلِحُوا۟ بَيْنَهُمَا﴾ (الحجرات:٩)

یعنی قتال کی وجہ سے مومن سے ایمان خارج نہیں ہوجاتاتوپھر آپﷺکے فرمان‘‘مومن سے قتال کفرہے۔’’کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ کام کفریہ ہے یا کفردون کفرہےجس طرح اعمال صالحہ ایمان کے حصے ہیں مگر بعض اعمال کی اہمیت بتانے کے لیے ان پر ایمان کااطلاق ہوتا ہے یا مثلا سورۃ الفاتحہ کی اہمیت کی خاطر حدیث شریف میں اسے صلاۃ کہا گیا ہے حالانکہ صرف سوررۃ الفاتحہ ہی تونمازنہیں بلکہ اس کے علاوہ،قیام،رکوع،سجدہ وغیرہ اس کےارکان ہیں اسی طرح گناہ بھی کفرکےاجزاء ہیں لہذا ان کے اوپربسااوقات کفرکا اطلاق ہوتاہے توپھرصرف اسی ایک جگہ پر واردلفظ کفرکودیکھ کراوردیگرتمام دلائل کونظر اندازکردیا جائےیادیگر جملہ احادیث صحیحہ کو ترک کرکے اس کے مرتکب کو کافرقراردےدیاجائے بلکہ اسے کافرکہنا خطرناک ہے کیونکہ یہ بھی توآپﷺکا ہی ارشاد ہےکہ:

((ايماامريءقال لاخيه ياكافرفقدباءبهااحدهماان كان كما قال والا رجعت عليه))  صحيح مسلم:كتاب الايمان’باب بيان حال ايمان من قال لاخيه المسلم ياكافر:رقم الحديث:٢١٥.

‘‘یعنی جوشخص اپنے بھائی کو کافرکےلقب سے پکارتا ہے توپھر ان دونوں میں سے ایک ضرورکافرہوگا۔’’

اس کی صورت اس طرح ہے کہ مثلا کوئی شخص کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے اوردوسراشخص اسے دیکھ کر کافر کہہ دیتا ہے یا ویسے ہی اسے کافر کہہ کر پکاراتواب اگرواقعتاوہ کفرکامرتکب ہواہےتووہی کافررہے گا ورنہ کہنے والاکافربن جائے گا۔

آپﷺنے فرمایا((لاخيه))یعنی اپنے بھائی کویہ لفظ بتاتاہے کہ وہ جس کو کافر کےلقب سے پکاررہا ہے وہ مسلمان ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس حدیث میں جوکفرکا لفظ استعمال ہوا ہے وہ اس لیے کہ اس کہنے والے نے اس کے متعلق کافرکالفظ بولاہے جسے مسلمان سمجھ کر بھی کافرکہہ دیاتب کافر ہوگیا یعنی اس طرح کہنا بھی ٖغلط ہے کیونکہ اس صورت میں آپ یہ نہ فرماتے کہ‘‘فقد باء بها اهدهما’’بلکہ اس طرح فرماتے کہ ‘‘فقد باء بها قائله’’مگراس جگہ پر دونوں میں سے لاعلی التعیین کفرمیں مبتلا ہونے والاکہا گیا ہے وہ اس لیے کہ ایسی صورت ہوکہ جسے کافرکہا گیا ہے اس سے کوئی ایسا گناہ صادرہوگیا ہویا اس نےایسا نمونہ اختیارکیا ہو کہ اسےدیکھ کردوسراشخص اس کو کافرکہہ دےپھر اس صورت میں اگرواقعتااس نے وہ گناہ سمجھ کرکیا یا العیاذباللہ مرتدہوگیا ہے توکافر کا اطلاق کرنے والاچھوٹ جائے گااوروہ ویسے کافر رہے گا مگر اگرمعاملہ اس کے برعکس ہے یعنی وہ گناہ کا مستعمل نہیں اورنہ ہی نعوذباللہ مرتدہوا ہے توپھرقائل اپنا خیر طلب کرے،اس حدیث کا صحیح مطلب یہ ہے

کہ مسلمان کو ایسی فتوی بازی میں سخت احتیاط برتنی چاہیے اورجلد  بازی سے ہرگز ہرگز کام نہ لے کیونکہ معاملہ نہایت خطرناک ہے اگر ہم کسی شخص کو مسلمان جاننے میں غلطی کے مرتکب ہوئے اورہم نے جلد بازی سے کام لیتے ہوئے اس پر کفر کی فتوی تھوپ دیا اوراس کے ساتھ کفارکامعاملہ اختیارکیا تو اس سے سخت خطرہ درپیش ہے اوروہ حکم الٹا ہمارے اوپر ‘‘العیاذباللہ’’آجائے گا۔

علاوہ ازیں خود قرآن میں سورہ نساء میں دوجگہوں پر تصریح واردہوئی ہے کہ شرک کےعلاوہ دیگر تمام گناہ اللہ تعالی مشیت پر منحصر ہیں اگرچاہے معاف کردے:

﴿إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ‌ أَن يُشْرَ‌كَ بِهِ وَيَغْفِرُ‌ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ﴾ (النساء:۴۸)

‘‘بے شک اللہ تعالیٰ نہیں معاف کرے گا یہ کہ اس کے ساتھ شرک یا جائے اس کے علاوہ جسے چاہے معاف کردے ۔’’

نیزیہ بھی ظاہر ہے کہ یہ مغفرت یاعدم مغفرت آخرت سے متعلق ہے نہ کہ دنیا سےمتعلق کیونکہ دنیا میں تو(یعنی زندگی میں)اگرایک مشرک بھی توبہ تائب ہوکراورصدق دل سے مسلمان ہوجائے تواس کی مغفرت ہوجائے گی ۔مطلب کہ یہ آیت کریمہ بتارہی ہےکہ  آخرت میں شرک کے علاوہ دیگر گناہ اللہ تعالی اگرمعاف کرنا چاہیں تومعاف کرسکتے ہیں اوراس کی مئویدوہ حدیث بھی ہے جوترمذی شریف میں سیدناانس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اوراس پرامام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے حسن صحیح کا حکم لگایا ہے اس میں یہ الفاظ بھی واردہوئے ہیں:

((ياابن آدم انك لواتيتنى بقراب الارض خطاياثم لقيتنى لاتشرك بى شيئا لا تيتك بقرابها مغفرة.))

اس حديث میں تصریح ہے کہ یہ دیگر تمام گناہوں کی مغفرت (شرک کے علاوہ)والی بات آخرت کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اوریہ بھی ظاہر ہے کہ یہ مغفرت انہیں حاصل ہوگی جنہوں نے بالفعل دنیا میں توبہ نہیں کی ہوگی کیونکہ اگرانہوں نے دنیا میں صدق دل سے توبہ کی ہوگی توان کی مغفرت تودنیا میں ہی ہوگئی کیونکہ یہ اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ جوبھی صدق دل  سے توبہ کرے گا میں اسے معاف کردوں گا مگر جو اللہ تعالی کی مشیت پرمنحصر گناہ ہوں گے اوروہ گناہ ہوں گے جن کی وہ توبہ نہ کرسکا ہوگا۔

خلاصہ کلام!جب سارے گناہ شرک کے علاوہ اللہ تعالی چاہے تومعاف کرسکتا ہے تو کہاجاسکتا ہے کہ ان گناہوں کے مرتکبین کافر نہیں ہوئے تھے کیونکہ کافر کی مغفرت آخرت میں نہیں ہوگی ،پھرجب وہ کافر ہی نہ رہا جہنم میں‘‘یعنی جب اللہ تعالی اسے اپنے گناہوں کےسبب جہنم میں بھیج دے۔’’ہمیشہ نہیں رہے گا بلکہ مقدرسزاکے بعد بالآخر جہنم سےنکلے گاکیونکہ ابدی خلودکفارکے لیے ہے اگرچہ کتاب وسنت میں کچھ گنہگاروں کی سزاجہنم سے نکلنے کاذکر بھی ہے اوریہ سب احادیث صحیح ہیں الغرض زانی اورشراب نوش وٖغیرہما اگرابتداء اللہ تعالی کی مغفرت ان کے نصیب میں نہ آسکی توبھی سزاپاکربالآخر جہنم سے نکلیں گے باقی رہابے نمازی تواس کے متعلق امت میں بہت اختلاف ہے خود جماعت اہلحدیث کے اکابرین میں بھی اختلاف ہے کچھ مولانا حصاروی جیسے تواسے کافر بے ایمان اوردوزخ میں ابدی خلودکامستحق قراردیتے ہیں اورکچھ بزرگ اسے ایسا کافرقرارنہیں دیتے بلکہ اس کے متعلق جو کفرکے الفاظ کا اطلاق ہوا ہے ان سے کفر دون کفر مرادلیتے ہیں۔اس راقم الحروف بندہ عیب دارگنہگار کے ذہن میں ان دونوں صورتوں کے علاوہ ایک اورصورت آئی ہے۔

بہرحال یہاں پر میں وہ تفصیل کے ساتھ عرض کرنا چاہتا ہوں بغورمالاحظہ فرمائیں!

اگر صحیح نظر آئے تو فبہاورنہ جوبات زیادہ صحیح ودرست ہواسے اختیارکیجئے ۔‘‘اللهم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعه.’’

پہلے یہ حقیقت ذہن نشین کرنی چاہیے کہ کچھ باتوں میں شریعت مطہرہ دنیا وآخرت کےمعاملات میں فرق کیا ہے ۔مثلا کوئی شخص ہے جو اگرچہ مومن ہے مگر کفاراسے زبردستی باندھ کرمسلمانوں کے مقابلہ میں لے کرآئے ہیں(یعنی مسلمانو ں اورکفارکے درمیان جنگ جاری ہواورکفارنے ایک مسلمان کو زبردستی لاکرمسلمانوں کے مقابلہ میں لاکھڑاکردیا۔)تواس صورت میں وہ جبرالایاہوامسلمان عنداللہ اگرچہ مسلمان ومومن ہے مگراس بات کا علم مسلمانوں (جنگ میں شریک)کونہیں آخر اتفاقا وہ مسلمان جو جبراکفارکے ساتھ ہےمسلمانوں کی زد میں آجاتا ہے ۔اوراس مسلمان کے متعلق دیگر مسلمان اس کو جو بظاہر کافرمعلوم ہورہا ہے چوٹ لگاکرماردیتے ہیں تو اس صورت میں مسلمانوں کے اوپر کوئی گناہ نہیں کیونکہ انہوں نے اس کو مسلمان نہیں بلکہ کافر سمجھ کرماراہے یعنی دنیا میں تو وہ اس حالت کی وجہ سے کافر سمجھاگیااوراس کے اوپر کفارکے احکام جاری ہوگئے لیکن آخرت میں اس کا معاملہ بالکل برعکس ہے یعنی چونکہ اللہ تعالی کو یہ علم تھا کہ وہ مسلمان ہے مگر مجبوراظلم کی وجہ سے کفارکےساتھ شامل ہوگیا ہے اس لیے رب کریم اس کا ایمان واسلام ضائع نہیں فرمائے گا۔

اوروہ جنت میں داخل ہوگاکیونکہ آخرت میں ہر کسی کے ساتھ وہی معاملہ ہوگا جس کا وہ ظاہرا وباطنا اورحقیقتا واقعتا مستحق ہے صرف ظاہر ہی پر فیصلہ نہ ہوگا اورچونکہ وہ مسلمان دنیامیں سچا ومخلص مومن تھا لیکن اس کا ایمان مجبورااورظلم کی وجہ سے ظاہر نہ ہوسکالیکن اس کاایمان اس مالک العلام ذات سے تومخفی نہ تھا جو عالم الغیب والشہادۃ ہے اورعلیم بذات الصدورہے بہرحال وہ مسلمان ظاہراتوکفارکےساتھ ہونے کی وجہ سے کافرسمجھا گیا اوراس پرانہی کے احکام لاگوہوئے لیکن آخرت میں اس کی کیفیت ظاہر ہوجائے گی اوروہ اس سچےایمان کی بدولت جنت میں داخل ہوگا۔

دوسری مثال حدیث شریف میں وارد ہوئی ہے کہ آپﷺنے فرمایاآخری زمانہ میں ایک لشکرکعبۃ اللہ شریف کو شہید کرنے کے لیے آئے گاپھر جب وہ قریب ہوں گے توسارے کے سارے زمین میں دھنس جائیں گے تب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا (جو اس حدیث کی راویہ ہیں)نے عرض کیا اے اللہ کے رسول سب کے س کیونکر دھنس جائیں گے حالانکہ ان میں کچھ توواقعتا کعبۃ اللہ شریف کوشہید کرنے کی نیت سےآئے ہوں گے مگر کچھ تومجبوری کی وجہ سے یا کرایہ پر آئے ہوں گے یا راستے میں اتفاقامل گئے ہوں گے پھر سب کے ساتھ یہی معاملہ (زمین میں دھنس جانا)کس طرح ہوگآپﷺنے جوابا فرمایافی الحال توسب کےسب زمین میں دھنس جائیں گے مگر قیامت کے دن اللہ تعالی کسی کو اپنی نیت کے مطابق اٹھائے گایعنی جس کی نیت بری ہوگی وہ وہاں بھی سزاپائے گا یعنی کفارکے ساتھ جاکرملے گاباقی جن کی یہ نیت نہ ہوگی وہ بری نیت لےکر آئے ہی نہیں ہوں گے توان کے ساتھ یہ معاملہ نہ ہوگابلکہ اخروی عذاب سے نجات پائیں گے۔

اس سے معلوم ہوا کہ دنیا میں جو احکامات کچھ معاملات میں انسانوں پر جاری ہوتے ہیں۔آخرت میں ان معاملات کے احکامات دنیا سے بالکل مختلف ہوں گے کیونکہ وہاں توفیصلہ صحیح اوراصل واقعہ کے مطابق ہوں گے اوردنیا میں صرف ظاہر پرہی حکم لگایا جاتا ہے اس سے یہ بھی سمجھ میں آیا کہ جب کسی عذاب یا کسی معاملہ میں ایک پوری جماعت (دنیا میں)گرفتارہوئی تواس سے یہی اندازہ لگانا صحیح نہیں ہوگا کہ وہ عذاب میں مبتلا انسان سارے کےسارے مجرم تھے بلکہ ممکن ہے ان میں سے کچھ ان گناہوں کے مرتکب نہ ہوں اگرچہ ظاہرایہی اندازہ لگایا جائے گا کہ وہ سب ایک ہی بات میں یعنی سب کے سب مجرم ہیں جیسا کہ کعبۃ اللہ شریف کو شہید کرنے والے جب غرق ہوئے تودیکھنے والے یہی اندازہ لگائیں گےکہ وہ سب نیت بد سے آئے تھے سب کے سب بے ایمان تھے۔

حالانکہ ارشادگرامی کے مطابق آخرت میں ان کے درمیان تفریق کی جائےگی کیونکہ آخرت میں اصل معاملہ اپنی اصلی اورصحیح صورت میں جاکرظاہر ہوگا جوکہ دنیا میں اہل دنیاسے اوجھل تھا۔اسی طرح منافقین کا معاملہ بھی یہی ہے یعنی مسلمان انہیں مسلمانوں والے کام کرتے دیکھ کر مسلمان سمجھتے ہیں اوران کے ساتھ مسلمانوں کا ساسلوک اوراسی طرح کامعاملہ کرتے ہیں لیکن آخرت میں وہ منافقین مسلمانوں سے قطعی طورپرالگ ہوجائیں گےجس طرح سورۃ حدید میں ارشاد ہے:

﴿يَوْمَ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِينَ آمَنُوا انظُرُ‌ونَا نَقْتَبِسْ مِن نُّورِ‌كُمْ قِيلَ ارْ‌جِعُوا وَرَ‌اءَكُمْ فَالْتَمِسُوا نُورً‌ا فَضُرِ‌بَ بَيْنَهُم بِسُورٍ‌ لَّهُ بَابٌ بَاطِنُهُ فِيهِ الرَّ‌حْمَةُ وَظَاهِرُ‌هُ مِن قِبَلِهِ الْعَذَابُ ﴿١٣﴾ يُنَادُونَهُمْ أَلَمْ نَكُن مَّعَكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ وَلَـٰكِنَّكُمْ فَتَنتُمْ أَنفُسَكُمْ وَتَرَ‌بَّصْتُمْ وَارْ‌تَبْتُمْ وَغَرَّ‌تْكُمُ الْأَمَانِيُّ حَتَّىٰ جَاءَ أَمْرُ‌ اللَّـهِ وَغَرَّ‌كُم بِاللَّـهِ الْغَرُ‌ورُ﴾ (الحدید:۱۳۔١٤)

حالانکہ دنیامیں مسلمانوں نے انہیں مسلمان سمجھ کران کے ساتھ وہی مسلمانوں والاسلوک اختیارکیا خود سیدنا وامامنامحمدرسول اللہﷺسے رب کریم نے فرمایاکہ:

﴿وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ ٱلْأَعْرَ‌ابِ مُنَـٰفِقُونَ ۖ وَمِنْ أَهْلِ ٱلْمَدِينَةِ ۖ مَرَ‌دُوا۟ عَلَى ٱلنِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ ۖ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ﴾ (التوبه:١ ۰ ١)

‘‘اورتمہارے گردوپیش جو دیہاتی ہیں(ان میں)منافق ہیں اورمدینہ والوں میں سے بھی جو نفاق پر اڑے ہوئے ہیں آپ انھیں نہیں جانتے ہم انھیں جانتے ہیں۔’’

اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ کچھ منافقین ایسے بھی  تھے جوسب کام مسلمانوں جیسےکرتے تھے نمازیں بھی پڑھتے تھے اوردیگر کام بھی کرتے تھے اس لیے خود اللہ تعالی کے رسول اللہﷺبھی انہیں پہچان نہ سکے صرف اللہ تعالی کو ہی ان کے نفاق کا علم تھا۔اسی وجہ سےوہ دنیا میں مسلمان بنے رہے اوراہل دنیا نے ان کے ساتھ مسلمانوں کا سامعاملہ کای انہیں رشتے دیے ان پر نماز جنازہ اداکر،ان کو مسلمانوں کے قبرستانون میں دفن کیا گیا کہ لیکن آگے چل کروہ مسلمانوں سے بالکل الگ ہوجائیں گے اوراسی لیے مومنین سے کہیں گے کہ ہماری طرف دیکھیں تاکہ ہم تمہاری روشنی سے کچھ حصہ حاصل کریں اس طویل کلام کا مطلب یہ ہے  کہ کچھ معاملات میں خصوصا ایمانی اورقلبی حالات کے معاملات میں دنیا اورآخرت میں فرق کیا گیا ہے یعنی یہ ضروری نہیں  ہے کہ ایک شخص کو ہم سچامومن سمجھیں اورواقعتا وہ سچامومن ہی ہو بلکہ ممکن ہے کہ وہ آخرت میں چل کر اپنی چھپی ہوئی منافقت کی وجہ مومنین سےالگ کفار کے ساتھ جاکرمل جائے بلکہ ان سے بھی نچلے طبقے میں:

﴿إِنَّ ٱلْمُنَـٰفِقِينَ فِى ٱلدَّرْ‌كِ ٱلْأَسْفَلِ مِنَ ٱلنَّارِ‌ وَلَن تَجِدَ لَهُمْ نَصِيرً‌ا﴾ (النساء:١٤٥)

‘‘بے شک منافق جہنم کے سب سے نچلے درجےمیں ہوں گےاورنہ کوئی آپ ان کا مددگارپائیں گے۔’’

اورجسے ہم کافرسمجھیں اس کے متعلق یہ ضروری نہیں کہ وہ واقعتا کافرہوبلکہ ممکن ہےآخرت میں اس کا شمارمومنین کا ملین میں ہواورجنت میں اعلی درجہ پر فائز ہوجائے یہ سب اس لیے ہےکہ انسانوں کو صر ف ظاہر پر چلنے کا مکلف بنایاگیا ہے ہم(یعنی انسان)صرف ظاہر پر فیصلہ کرنے اوراس کے مطا بق احکام لاگو کرنے کے مجاز ہیں اندرونی معاملہ اس کا کیاہے؟اس کے متعلق ہمیں شریعت نے کسی بھی تکلیف کا پابند نہیں بنایاکیونکہ اس طرح کےمعاملات ہم نہیں جان سکتے اورنہ ہی کوئی ایساکوئی وسیلہ وذریعہ یا آلہ ہمیں ملا ہوا ہے جس کےذریعہ کسی کے اندرونی کیفیت معلوم کرسکیں اندرکا علم صرف اللہ تعالی ہی کو ہے یہ اللہ جل وعلاکی ہی خصوصی صفت ہےجس میں اس کا کوئی بھی شریک وسہیم نہیں حتی کہ ملک مقرب اورنبی مرسل بھی نہیں،اس حقیقت کوذہن نشین کرنے کے بعد اب اصل مسئلہ کو لیا جاتاہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ترک نمازنہایت  کبیرہ گناہ ہے اورانسان کو جہنم کا مستحق بناتاہےاورانسان اللہ کے نزدیک سخت مغضوب بن جاتا ہے اوراس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس کام(ترک نماز)پر صحیح احادیث میں کفرکااطلاق ہوا ہے لیکن ان کے علاوہ کئی دیگر احادیث میں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ (اوروہ احادیث سنداومتنابالکل صحیح ہیں)اللہ تعالی قیامت کےدن فرمائے گا کہ جاواورجاکرجہنم سے ایسے لوگوں کو نکال لاوجن کے دل میں سے گندم کےدانے کے برابر ایمان ہو،جس کے دل میں جوکے دانے کےبرابر ایمان ہو جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہو جس کے دل میں ذرہ برابرایمان ہو اورکچھ دیگر احادیث میں یہ بھی ہے کہ آخر ایسے انسانوں کو بھی جہنم سے نکالنے کاحکم ہوگا جنہوں نے کبھی بھی نیک عمل نہیں کیا ہوگاصرف ایمان کا ذرہ ہوگا جس کی وجہ سے اسے جہنم سے نکالاجائے گاباقی وہی جاکررہیں گے جنہیں کتا ب اللہ نے (جہنم سے نکلنے سے)روکاہوگایعنی مشرکین وکفارباقی سب بالآخر نکالے جائیں گے۔اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ ترک نماز اگرواقعتا کفرہےجس کے لیے ابدی خلودفی جہنم ہے تومذکورہ جہنمیوں کو کیونکر جہنم سےنکالاگیا؟کیونکہ بے نمازی بھی قطعا ان میں داخل ہیں اس لیے کہ نماز بھی ایک عمل ہے حالانکہ حدیث میں صراحتا مذکورہےجیسا کہ عرض کیا گیا کہ انہوں نے کوئی بھی نیک کام نہیں کیا ہوگا کیا نماز سے بڑھ کربھی کوئی نیک عمل ہوسکتا ہے ؟جب آپﷺنے فرمایاکہ انہوں نے کوئی بھی نیک عمل نہیں کیاہوگاتواس میں نماز بھی داخل تصورکی جائے گی ۔اسی طرح جن کے متعلق یہ کہاگیا کہ جہنم سےوہ بھی نکالے جائیں گے جن کے دل میں جویارائی کے دانے یا ذرہ برابرایمان ہوگا اس سے بھی ظاہرہے کہ وہ نماز میں ناقص ہوں گے ورنہ جو نماز کا پابند ہے اس کا ایمان بہت زیادہ کیاجائے گا کیونکہ نماز کو ایمان پکاراگیا ہے:

﴿وَمَا كَانَ ٱللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَـٰنَكُمْ﴾ (البقرۃ:١٤٣)

‘‘اوراللہ تعالی ایسا نہیں ہے کہ تمھارے ایمان کو ضائع کردے۔’’

پھرجوشخص یہ کہتا ہے کہ بے نمازی شخص ابدی خلود فی جہنم کا مستحق ہے اوروہ پکا کافر ہےوہ گویا یہ کہتا ہے کہ نمازی شخص کا ایمان بالکل کمزورہے حتی کہ اس کے اوپر ذرہ برابریاجوکےبقدرکا اطلاق ہوسکتا ہے ہاں یہ بات درست ہے کہ کچھ دیگر گناہوں کی وجہ سے خود نمازی لوگوں کو بھی جہنم کی سزاملے گی ۔(العیاذباللہ)لیکن اس کے متعلق حدیث شریف کا یہ کہنا کہ اس کے دل میں ذرہ برابرایمان ہو کس طرح درست ہوسکتا ہے اوریہ کہنا بھی درست نہیں ہوسکتا کہ انہوں نے کوئی نیک کام کیا ہی نہ ہوحالانکہ ان بزرگوں کے بقول نماز جیسا نیک عمل ایمان میں نہایت اعلی درجہ رکھتا ہے وہ تواس کے اندر ضرورہوگا ورنہ ان کے خیال کے مطابق وہ جہنم سے نہیں نکل سکتا،پھرایسے عظیم عمل والے کے متعلق حدیث کہتی ہے کہ انہوں نے کوئی نیک کام کیا ہی نہیں ہوگا کس طرح درست ہوسکتا ہے۔

ان کے علاوہ دیگر کئی احادیث موجود ہیں جن سے بھی واضح ہوتا ہے کہ کتنے ہی انسانوں کو اللہ تعالی قیامت کے دن معاف فرمادے گا۔حالانکہ موحد ہونے کے علاوہ انہوں نے کوئی نیک عمل کیا ہی نہیں ہوگا مگر ان تمام احادیث پر ایک مومن کو ایمان لانا ہے کسی کوترک نہیں کرنا یہ بھی سچ اوروہ بھی سچ ہے ۔ہمارافرض ہے کہ شارع علیہ السلام کی ہربات پر آمناوصدقنا،سمعناواطعناکہیں۔بہرحال مجموعی طورپرکتنی ہی احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ ایسے سنگین گناہوں (مثلاترک نماز)کے مرتکبین کی بھی بالآخر نجات ہوجائے گی۔

اگرکوئی سورہ مدثرکی یہ آیت پیش کرے گاکہ:

﴿فَمَا تَنفَعُهُمْ شَفَـٰعَةُ ٱلشَّـٰفِعِينَ﴾ (المدثر:٤٨)

‘‘میں ان کو سفارشیوں کی سفارش فائدہ نہیں پہنچائے گی۔’’

اوراس آیت سے چند آیات پہلے یہ الفاظ ہیں کہ :

﴿يَتَسَآءَلُونَ ﴿٤٠﴾ عَنِ ٱلْمُجْرِ‌مِينَ ﴿٤١﴾ مَا سَلَكَكُمْ فِى سَقَرَ‌ ﴿٤٢﴾ قَالُوا۟ لَمْ نَكُ مِنَ ٱلْمُصَلِّينَ ﴿٤٣﴾ (المدثر: ٤٠تا۴۳)

‘یعنی جہنمی کہیں گے کہ ہمیں جہنم اس وجہ سے جانا پڑا ہےکہ ہم بے نمازی تھے،پھر ان کو کوئی شفاعت بھی فائدہ نہیں پہنچاسکے گی۔’’

اس کا جواب یہ ہے کہ اس سورہ مبارکہ میں ہے کہ جہنمی کہیں گے:

﴿لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ﴾ (المدثر:۴۳)

‘‘کہ ہم نمازی نہیں تھے۔’’

کے ساتھ کچھ اورکام اورغلط اعتقادبیان کریں گے جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ:

﴿وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ ٱلدِّينِ﴾ (المدثر:۴٦)

‘‘یعنی ہم دنیا میں قیامت کے دن(انصاف کے دن)کونہیں مانتے تھے۔’’

اورظاہرہے کہ قیامت کے دن پرایمان نہ رکھنا کفر ہے لہذا ایسے لوگوں کو شفاعت واقعتا کچھ فائدہ نہیں دے گی بلکہ ایسے لوگ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے اس میں توکوئی اختلاف ہی نہیں۔ان آیات سے مجموعی طورپر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ترک نماز جہنم میں جانے کا سبب ہے تویہ بات تومسلم ہے کہ بے نمازی جہنم میں جائیں گے باقی رہا جانے کے بعد نکلیں گےیہ الگ بات ہے،اس کی طرف ان آیات میں کچھ تعرض نہیں۔یہ مسئلہ دوسرے مقامات سےمعلوم ہوتا ہے۔جیساکہ احادیث میں بیان ہوا ہے یعنی اپنی سزاپانے کے بعدنکالے جائیں گے باقی رہا یہ سوال کہ بے نمازیوں کے مطالق کفر کا اطلاق ہوا ہے اورانتہائی شدیدوعیدیں وارد ہوئی ہیں ان کا کیا مطلب ہے ؟اس کے متعلق گزرش ہے کہ ایمان چونکہ دل کا فعل ہےاوراعتقادی معاملہ ہے جس کا اللہ تعالی کے علاوہ کسی کو علم نہیں ہوسکتا اسی وجہ سے ہمارے لیےکفراورایمان یا کافراورمومن کے امتیاز کے لیے علامت طورنماز کومقررکیاگیا ہے یعنی اگرکوئی نماز پڑھتا ہے توہم اسے مسلمان سمجھیں گے اوراپنی مسلم برادری میں اسے شامل رکھیں گے اوراس کے ساتھ عام مسلمانوں جیسا سلوک ومعاملہ کریں گےمگر جب نماز کا تارک ہے تو وہ ہماری اس برادری سے خارج ہے اورہم اس کے ساتھ مسلمانوں کا سابرتاوسلوک نہیں کریں گے۔

چونکہ تارک نماز میں یہ احتمالات ہوسکتے ہیں کہ ترک نماز یا توسستی وغفلت کی بناء پر کررہا ہے اگرچہ دل میں اسے براتصورکرتا ہے اوراسے گناہ سمجھتا ہے اورنماز کی فرضیت اوراسلام کے اہم رکن ہونے کا بھی قائل ہے اسی طرح اس کے متعلق یہ احتمال بھی ہوسکتا ہےکہ وہ شخص سرے سے نماز کی فرضیت کا ہی قائل نہیں اورترک نماز کو حلال جانتا ہے اس لیےنماز کو محض غفلت کی وجہ سے نہیں بلکہ اسے فرض نہ سمجھنے کی وجہ سے چھوڑتا ہے لہذا آخرت میں ان دونوں احتمالات میں سے جو بھی احتمال ہوگا اس کے ساتھ آخرت میں اسی طرح کاسلوک کیا جائے گا۔

پہلی قسم ایمان سے خارج نہیں اوروہ اس سنگین جرم کی سزاپانے کے بعد نجات پائے گالیکن دوسرا توکافر ہے لہذا اس کے لیے ابدی خلودفی جہنم ہے ۔مگر ہمیں وہی حکم کیا گیا ہے کہ ہم اس کے ساتھ (بے نمازی کے ساتھ)مسلمانوں والا سلوک نہ کریں وہ اس لیے کہ ایسےشخص کے متعلق ہمارے پاس کوئی اورثبوت نہیں جس کے ذریعے ہم اسے مسلم یا مومن قراردیں مذکورہ بالادونوں احتمالات اس کے اندرموجود ہیں۔لیکن اگرکوئی شخص ہمیں یہ کہے کہ میں نماز کو فرض سمجھتا ہوں مگر غفلت اورسستی کی وجہ سے ادانہیں کرتا پھر بھی ہم اس کی بات پر اعتمادکیسے کریں کیونکہ اس کے اس طرح کہنے میں بھی جھوٹ اورمنافقت کا احتمال ہے یعنی ممکن ہے کہ وہ محض اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنےکے لیے جھوٹ بول رہا ہوورنہ اس کے دل کی کیفیت کچھ اورہواوردل کی صحیح کیفیت اوراس میں ایمان ہے یا نہیں وہ اللہ تعالی ہی جانتاہے ہمیں کیا علم۔

اس لیے ہمارے لیے اسلام ااورایمان کی ظاہری علامت نماز ہی کو بنایاگیا ہے کیونکہ ہم توصرف ظاہر پر ہی حکم لگاسکتے ہیں،پھر اگر کوئی نماز پڑھتا ہے ہم اسے مسلمان کہیں گےاگر چہ وہ اندرونی کیفیت میں کافر ہو۔اس کے متعلق فیصلہ اللہ تعالی ہی فرمائے گااورجوتارک  نماز ہے اسے ہم مسلمان نہیں سمجھیں گے باقی اگراس کے اندرایمان موجودہوگا تواس کے ساتھ آخرت میں رب تعالی خود ہی فیصلہ فرمائے گاکیونکہ وہاں پر (قیامت کے دن)فیصلہ اصل حقیقت کی بنا ءپر ہوگا نہ کہ ظاہرکے اعتبارسےیہی وجہ ہے سیدنا محمد رسول اللہﷺکسی شہر یا گاوں پر حملہ کرنے سے پہلے کچھ وقت وہاں رہتے تھے اگراذان کی آواز آتی تھی توحملہ کا پروگرام منسوخ کیا جاتا تھا کیونکہ یہ مسلمانوں کا گاوں ہے مگر جب اذان نہیں آتی تھی توپھر حملہ کا حکم فرماتے تھے کیونکہ وہ مسلمانوں کا گاوں ہی نہیں ۔

مطلب کے بے نمازی پر کفر کا اطلاق یاترک نماز پر کفر کا اطلاق اس معنی میں ہے کہ نمازایمان اورکفر میں امتیاز کرے کے لیے ایک حسی علامت ہے جو اس دنیا میں ہمیں سمجھائی گئی ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ ضروری نہیں کہ ہم جسے ترک نماز کی وجہ سے مسلمان نہ سمجھیں وہ عنداللہ بھی واقعتا مومن نہیں بلکہ ممکن ہے کہ وہ رب تعالی کے نزدیک صاحب ایمان ہوچکاہے وہ ایمان ذرہ برابر ہی کیوں نہ ہو وہ ایمان آخرت میں ظاہر ہوگا اس دنیا میں تو ہم اسےمسلمان نہیں سمجھیں گے اسی وجہ سے بے نمازی کی نماز جنازہ بھی ادا نہیں کی جائے گی کیونکہ  ہمارے لیے اس دنیا میں مومن اورکافرکی پہچان کے لیے علامت نمازہی کو قراردیا گیا ہےیعنی ایسے شخص کو جو کافر قراردیا گیا ہے وہ اس دنیا کے  اعتبار سے ہے اوراس دنیا کے احکامات کے اجراء کے لیے نہ کہ اصلا وواقعتاوہ ضروربالضرورکافر ہے ۔اگرابتدامیں ذکر کی گئی حقیقت کو یادکریں گے اوردنیا اورآخرت کے معاملات میں تفریق کو دوبارہ ذہن میں لائیں تومیری یہ بات آپ کو باآسانی سمجھ میں آسکتی ہے ۔

خلاصہ کلام!کہ بے نمازی ہماری اسلامی برادری سے خارج ہے کیونکہ اس کے اندرایمان اوراسلام کی ظاہر ی علامت (نماز)موجود نہیں جو اس کے مسلمان ہونے کے لیے مقررکی گئی تھی باقی اس کے دل میں ایمان ہے یا نہیں یہ اللہ تعالی جانتا ہے اگرایمان اس کے دل میں ہوگا تورب کریم خود ہی اس کے ساتھ معاملہ فرمائے گاچاہے اسے ویسے معاف کردے یاچاہے سزادےکرپھر معاف کرے وہ خود مختارہے ہمیں وہاں پوچھنے کی بھی اجازت نہیں:

﴿ لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ﴾ (الانبیاء:٢٣)

‘‘اس سے نہیں پوچھاجاتاجووہ کرتا ہےلیکن ان سے پوچھاجائے گا۔’’

بہرحال مجھے یہی بات سمجھ میں آئی ہے اس کے مطابق کسی بھی حدیث کو ترک کرنا لازم نہیں آتابلکہ سب پر عمل ہوجاتا ہے مزید حقیقت کا علم اللہ تعالی جانتا ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ راشدیہ

صفحہ نمبر 185

محدث فتویٰ

تبصرے