سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(20)اللہ تعالی کہاں ہے؟

  • 14805
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 7320

سوال

(20)اللہ تعالی کہاں ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک عالم کہتا ہے کہ جو شخص اللہ تعالی کو بلاکیف مستوی علی العرش مانے وہ کافر ہے حالانکہ اللہ تعالی ہر ایک آدمی کے سینے میں موجود ہے جس طرح حدیث ہے کہ آپﷺنے فرمایا

اللہ تعالی،زمین اورآسمان کی پیمائش مت کریں صرف مسلمان مرد کے دل کی پیمائش کریں۔معلوم ہوا کہ اللہ تعالی  عرش پر نہیں ہے بلکہ ہر ایک آدمی کے سینے میں ہے آیا یہ بات درست ہے یا نہیں؟بینوابلدلیل توجروبالجرالجلیل۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن کریم میں کتنی ہی جگہوں پر اللہ تعالی کا عرش عظیم پر مستوی ہونا ثابت ہے مثلا سورۃ اعراف میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:

﴿ إِنَّ رَ‌بَّكُمُ اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ ﴾  (الاعراف:٥٤)

"بے شک تمھارا رب اللہ ہے،جس نے آسمانوں اورزمین کو چھ دن میں پیدا کیا،پھر عرش پر بلند ہوا۔"

﴿ إِنَّ رَ‌بَّكُمُ اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ ﴾  (یونس:٣)

"بے شک تمھارا رب اللہ ہے،جس نے آسمانوں اورزمین کو چھ دن میں پیدا کیا،پھر عرش پر بلند ہوا۔"

﴿ٱللَّهُ ٱلَّذِى رَ‌فَعَ ٱلسَّمَـٰوَ‌ٰتِ بِغَيْرِ‌ عَمَدٍ تَرَ‌وْنَهَا ۖ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْ‌شِ﴾ (الرعد:٢)

‘‘اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کو بلند کیا بغیر ستونوں کے،جنھیں تم دیکھتے ہو،پھر وہ عرش پر بلند ہوا۔’’

﴿الرَّ‌حْمَـٰنُ عَلَى الْعَرْ‌شِ اسْتَوَىٰ﴾ (طہ:۵)

‘‘وہ بے حد رحم والا عرش پربلند ہوا۔’’

﴿ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَ‌ٰتِ وَٱلْأَرْ‌ضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِى سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْ‌شِ﴾ (الفرقان:٥٩)

‘‘وہ جس نے آسمانوں اورزمین کو اورجو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے ،چھ دنوں میں پیدا کیا ،پھر عرش پر بلند ہوا۔’’

﴿ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَ‌ٰتِ وَٱلْأَرْ‌ضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِى سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْ‌شِ﴾ (السجدہ:٤)

‘‘اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اورزمين اور ان دونوں کے درمیان كی ہرچیز کو چھ دنوں میں پیدا کیا ،پھروہ عرش پر بلند ہوا۔’’

﴿هوالَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ ﴾  (الحديد:٤)

"وہی ہے جس نے آسمانوں اورزمین کو چھ دن میں پیدا کیا،پھروہ عرش پر بلند ہوا۔"

ان تمام آیات میں اللہ تعالی کا عرش عظیم پر مستوی ہونا واضح طور پر ثابت ہے اوراللہ تعالی کا عرش پر استوی اس کی صفت ہے اوراللہ کی صفات کے بارے میں صحابہ رضی اللہ عنہم،تابعین ،تبع تابعین اورسلف صالحین کا یہی مسلک ہے (یہی مسلک اصح اوراسلم ہے )کہ اللہ تعالی کی تمام صفات جو قرآن کریم سے اورصحیح احادیث رسولﷺسے ثابت ہیں ان کو ویسے ہی ماننا ہے جس طرح کتاب وسنت میں وارد ہوئی ہیں۔ان کی لغوی معنی توہمیں معلوم ہے لیکن ان کی کفیت کے بارے میں نہ ہمیں کچھ معلوم ہے اورنہ ہی کوئی ایسا ذریعہ یا وسیلہ ہے جس کی بنا پر ان کی کیفیت معلوم کرسکیں۔یہ مسلم قانون ہے کہ صفات ذات تابع ہوتی ہیں جب کہ اللہ جل وعلی شانہ کی ذات پاک بے مثل ہے تو اس کی صفات بھی بے مثل ہوں گی،خالق اورمخلوق کی صفات میں صرف لفظی اشتراک ہے باقی معنی اورمفہوم کے لحاظ سے مخلوق کی صفات اس بے مثل ذات پاک کی صفات سے کوئی اشتراک نہیں رکھتی مثلا انسان کو بھی سمیع اوربصیر کہا گیا ہے جس طرح سورۃ الدہر کے اندر اللہ تعالی فرماتے ہیں:

﴿إِنَّا خَلَقْنَا ٱلْإِنسَـٰنَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَـٰهُ سَمِيعًۢا بَصِيرً‌ا﴾ (الدھر:٢)

‘‘یعنی انسان کو بھی سننے والااوردیکھنے والابنایاگیا ہے۔’’

اورہاں‘‘سمیع اوربصیر’’اللہ تعالی کی بھی صفات ہیں مگر ان کے بارے میں اللہ تعالی سورہ شوری کے اندرفرماتے ہیں:

﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ﴾ (الشوری: ۱۱)

‘‘کہ اللہ تعالی سننے والااوردیکھنے والاہے لیکن اس کا سننا اوردیکھنا بے مثل ہے۔’’

یعنی سننے اوردیکھنے میں ہماری طرح آنکھوں اورکانوں کا محتاج نہیں ہے ۔یہی حکم اللہ تعالی کی باقی تمام صفات کا ہے ۔مثلا اللہ کا کلام کرنا،اللہ کا غضب اوررضا مندی،بندوں  سے محبت کرنا ان پر  غصہ کرنا۔

ید(ہاتھ)عین(آنکھ)وجہ(چہرا)وغیرہ تمام کو ویسے ہی ماننا ہے جس طرح کتاب وسنت میں وارد ہوا ہے ۔نہ کہ ان کے اندر تاویل کی جائے گی اورنہ ہی ان کا معنی مفہوم ایسا لیاجائے گا جو مخلوق سے مشابہت کی طرف منتج ہو،درحقیقت اللہ تعالی کی صفات بھی متشابہات کے باب سے ہیں۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان متشابہات کے نزول اوربیان کا آخر مقصدکیاہے کہ  ہم انسانوں کو ان کے پورے مفہوم اورکیفیت کاعلم ہی  نہیں؟تواس کا جواب یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی کی معرفت صرف اس کی صفات کے علم سے ہی حاصل ہوسکتی ہے ۔کیونکہ ہم اللہ تعالی کو دیکھ نہیں سکتے ،مثلا کسی ملک کا بادشاہ ہویا دوسری کوئی بڑی ہستی ہو وہاں تک لوگوں کی رسائی  نہ ہو اوراس کے متعلق واقفیت صرف اس کی صفات سے ہوسکتی ہو،یعنی ہمیں علم کے صحیح ذرائع سے معلوم ہوکہ وہ بادشاہ عدل وانصاف والا ہے ،اپنی رعیت پر رحم کرنےوالا ہے ،ان کی تکالیف پر خبر گیری اورمددکرنے والاہے ،وغیرہ وغیرہ تو اس کی ان خوبیوں کی اعلی صفات کی معرفت سے ہمیں اس کے بارے میں کافی حد تک صحیح علم ہوجاتا ہے ،اس لیےوہ عوام جس کو اپنے اس بادشاہ تک رسائی حاصل نہیں ان کے دل میں بھی یہ یقین کامل ہوجاتاہے کہ بادشاہ جب رحم دل اورعدل وانصاف کا علمبردارہے ظلم وزیادتی سے کنارہ کشی کرنےوالا ہے توہماری مشکلات کی اگر اس کو اطلاع ہوگئی توضرور ہماری مددکرے گااورمشکل وقت میں ضرورہمارے کام آئے گا،اس کی ان خوبیوں اورکمالات کومدنظر رکھ کر لوگ اس سے بےپناہ محبت کرنے لگتے ہیں ،اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالی جو کہ پوری مخلوق کا خالق ومالک اورحقیقی بادشاہ ہے جس نے اپنے بندوں کو آزمانے کے  لیے اس دنیا میں مبعوث کیا اوراسی امتحان کی خاطر انہیں حکم کیا کہ وہ ان دیکھے ان  پرایمان لائیں غیب پر ایمان لائیں یہی وجہ ہے کہ اس دنیا فانی کی مخلوق اس فانی دنیا میں اللہ سبحانہ وتعالی کو نہیں دیکھ سکتی اورانسان جس چیز کو نہیں دیکھ سکتا آخر اس کے ساتھ تعلق کس طرح قائم کرسکتا ہے ؟کس چیز کے ساتھ کسی کا تعلق یا تواس کے حسن وجمال خوبیوں اورکمال کے مشاہدے سے پیدا ہوتا ہے یا اس کی صفات حمیدہ اوراس کی بے شمار خوبیوں کے علم حاصل کرنےسے پید اہوتا ہے ،جبکہ ہم اللہ سبحانہ وتعالی کو اس دنیا میں نہیں دیکھ سکتے اس لیے  ان سے تعلق قائم کرنے کی صرف واحد صورت یہی بچتی ہے کہ ہمیں ان کی صفات اوراسمائے حسنی کا علم ہوجائے پھر جب بندے کو یہ علم ہوجاتا ہےکہ ہمارا رب اللہ خالق بھی ہے مالک بھی ہے تمام مخلوق کی پرورش بھی کررہا ہے ان کو رزق  بھی دے رہا ہے ،عدل وانصاف ولا ہے ،کسی پر ذرے برابربھی ظلم نہیں کرتا ،بندوں پر رحم کرتاہے ان سے محبت کرتا ہے اوران کی  فریاد رسی بھی کرتا ہے جب بھی اس کو پکارا جائے توپکار کو سنتا بھی ہے اورقبول بھی کرتا ہے۔گناہوں کو معاف کرنے والا ہے رات کے آخری حصہ میں دنیا آسمان پر نازل ہوکربندوں کو پکارپکارکراپنے گناہوں اورخطاوں کی معافی  طلب کرنے کا کہتا ہے ۔اس کے علاوہ بہت ساری صفات حمیدہ کے علم سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ  وہ بندہ اپناتعلق اللہ تعالی  سے استوارکرلیتا ہے اوردل ہی دل میں اللہ تعالی سے محبت کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ اہل ایمان کے دل میں اللہ تعالی کی اتنی محبت ہوتی ہے کہ دنیا کی کسی چیز سے اتنی محبت نہیں ہوتی ،قرآن کریم سورۃ البقرۃ میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:

﴿وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّهِ﴾ (البقرۃ:١٦٥)

‘‘اورجوایماندارلوگ ہیں وہ توسب سے بڑھ کراللہ سے محبت کرتے ہیں۔’’

اہل ایمان کی اللہ تعالی  سے بےانتہامحبت ہے اوریہ اتنی بڑی محبت یہ تعلق ورشتہ صرف اللہ تعالی کی صفات کے علم کا نتیجہ ہے۔

سورۃ ذاریات میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:

﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ﴾ (الذاریات:۵۶)

‘‘کہ میں نے جنوں اورانسانوں کو محض اپنی عبادت  کے لیے پیدا کیا ہے۔’’

اورظاہر ہے کہ کسی کی عبادت اس کی معرفت کے بغیر تصورمیں نہیں آسکتی،تواگربندوں کو رب کی صفات کا علم نہ ہوتا تواس کی عبادت کس طرح کرسکتے تھے۔جہمیہ وغیرہ نے اللہ تعالی کی صفات کا انکار کیا ہے درپردہ گویا اللہ سبحانہ وتعالی معاذاللہ کوئی چیز ہی نہیں ہے۔یاکوئی مستقل ہستی نہیں ہے کیونکہ انسان جو مشاہدات اس دنیا میں کرتا ہے جن کا تعلق چاہےجمادات یا نباتات کی اقسام سے ہویا حیوانات ک باب سے حیوانات سے مرادجاندارچیزیں ہیں۔ان تمام کی کچھ نہ کچھ صفات ہیں موجودات میں سے کوئی بھی چیزصفات سے عاری نہیں ہے پھر اگر اللہ تعالی کی کوئی صفت ہی نہیں ہے تو اس کا یہ مطلب ہواکہ (معاذاللہ)اللہ تعالی ایک موہوم چیز ہے،جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے،اوراس سے بڑھ کر کوئی دوسرا کفریہ عقیدہ نہیں ہوسکتا۔دوسرے الفاظوں میں یوں سمجھیں کہ جو کوئی اللہ تعالی کی صفات کاانکاری ہے وہ گویا اللہ تعالی کے وجودکا انکاری ہے۔خلاصہ کلام کل بندوں کو اللہ کی بندگی  کے لیے ضروری ہے کہ ان کے ذہنوں میں اللہ تعالی کی صفات کا علم ہو اوراس علم کے ذریعے ان کے دل اوردماٖغ میں اللہ تعالی  کے متعلق صحیح یقین اورتصورقائم ہوسکے کہ میری یہ عبادت اس ذات پاک جل وعلی کے یے ہے جس کی یہ یہ صفات ہیں اوراس سے یہ یقین قائم ہوگا کہ میں کسی موہوم چیز کی بندگی نہیں کررہا بلکہ ایک ایسی ہستی کی بندگی کررہا ہوں جو خود بھی موجود ہے اوردوسری مخلوق کو بھی قائم رکھے ہوئے ہے جو کہ ان ان صفات کمال سے متصف ہے ،اورصفات دوقسم کی ہیں۔

(1)صفات ثبویہ                       (2)صفات سلبیہ

ان دونوں صفات کا علم ہونا ضروری ہے تاکہ انسان کے دل میں اللہ تعالی کے بارے میں صحیح تصور قائم ہوسکے ،صفات ثبویہ سے مراد وہ صفات ہیں جو کسی ہستی میں موجود ہوں،مثلااللہ تعالی کا غفور،رحیم ،شکور،ودود،عادل ہونا اس قسم کی تمام صفات ثبویہ ہیں۔اوروہ صفات جن کا تعلق عیوب ،نقائص۔عجزوکمزوری،ظلم وناانصافی وغیرہم سے ہواس طرح کی صفات جس میں پائی جائیں وہ اس کے عیوب میں شمار ہوں گی،لہذا جس طرح صفات جلال وکمال کی اثبات اللہ تعالی کے لیے ضروری ہے اس طرح ذات جل وعلی سے ان تمام صفات کی نفی بھی  ضروری ہے جو نقص وعیوب پر دلالت کرنے والی ہوں ۔اس کی صفات جلال وجمال کے خلاف ہوں ،ایسی صفات کو صفات سلبیہ کہا جاتا ہے مثلا سورۃ اخلاص میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:

﴿وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ﴾ (الاخلاص:۴)

‘‘یعنی اس کا کوئی ثانی یا برابری والا نہیں ہے۔’’

یعنی اللہ تعالی کی ذات ان تمام نقائص اوعیوب سے پاک ہے جومخلوق کے اندر موجود ہیں جس طرح سورہ شوری میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:

﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ﴾ (الشوری: ۱۱)

‘‘اس جیسی کوئی چیز نہیں ہے وہ سنتا اوردیکھتا ہے ۔’’

لیکن اس کا سننا اوردیکھنا مخلوق کی طرح نہیں ہے بلکہ اس کا سمیع اوربصیر ہونا بے مثل ہے ۔اسی طرح کتاب وسنت میں ہر اس صفت کی نفی کی گئی ہے جس میں ذرہ برابر نقص یاعیب کی بوآتی ہو۔اب خلاصہ کلام یہ ہوا کہ اللہ نے اپنے بندوں کو اپنی عبادت کے  لیے پیداکیا ہے ۔اورعبادت صحیح نمونے پر اس وقت ہوسکے گی جب معبودکادل میں صحیح تصورقائم ہویہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی اوراس کے حبیب کبریانے اللہ تعالی کی ان تمام صفات کا ذکر کیا ہےجن کی معرفت سے اللہ کے بارے میں جتنا علم ہوسکے وہ ہوجائے ۔اب آپ کو معلوم ہوچکا ہوگا کہ متشابہات جن میں اللہ تعالی کی صفات بھی شامل ہیں ان کو اللہ نے کیوں بیان فرمایاہے مثلا بندوں کو یہ بتایا کہ اللہ تعالی سمیع اوربصیر ہے ،اس لیے کہ بندے یہ جان لیں ان کارب ہرحال میں دیکھ رہا ہے اورہماری تمام دعائیں سن رہا ہے اوروہ مشکل کشاجل وعلی اپنے فضل وکرم سے ان کی دعاکوقبول کرے اوراس مشکل سے اس کو نجات دلائے ۔اسی لیےانہیں بتایاگیا کہ

 اللہ تعالی غفار،غفوروغیرہ ہے اس لیے اگربندوں سے خطائیں اورغلطیاں ہوں تو وہ مایوس بالکل نہ ہوں بلکہ ان کے دلوں میں وہ یقین اورامید باقی رہے کہ ہمارا مالک وحدہ لاشریک لہ ہے بہرحال بخشنے والااوربےحد مہربان ہے ۔اس لیے ہم اگر اس کی طرف رجوع کریں گے اورتوبہ تائب ہوں گے تووہ ضرور ہمیں اپنی مغفرت اوررحمت واسعہ سے نوازے گا۔

اسی طرح دوسری صفات ثبوتیہ کو سمجھنا چاہئے۔کتاب وسنت میں ہمیں چند کلمات سکھائے گئے ہیں۔جو اللہ تعالی کی صفات کے متعلق ہمیں کافی اورشافی علم عطاکرتے ہیں جن کے پڑھنے کی فضیلت وارد ہوئی ہے وہ کلمات یہ  ہیں۔‘‘سبحان اللہ’’اس کلمہ میں اللہ تعالی سے ہر عیب ونقص اورخامی کی نفی کی گئی ہے۔یعنی یہ لفظ صفات سلبیہ کی طرف اشارہ کررہا ہے مگر کسی عیب کی صرف نفی اس کی معرفت کے  لیے کامل نہیں ہوئی۔مثلا جس طرح کہاجائے کہ فلاںشخص یا بادشاہ اندھا نہیں ہے یالنگڑانہیں ہے۔کانہ یا بدصورت نہیں ہے وغیرہ وغیرہ لیکن عیوب کی نفی کے باوجود سننے والے کے دل میں ابھی تک تشنگی باقی رہتی ہے لیکن جب اس صٖفات کو ثبوتیہ کا علم ہوجائے توپھروہ مطمئن ہوجاتا ہے اوریہ سمجھ لیتا ہے کہ مجھے اس ہستی کے بارے میں کماحقہ معرفت حاصل ہوگئی ہے اس لیے سبحان اللہ کے بعد الحمدللہ کا کلمہ سکھایاکہ وہ تمام عیوب سے پاک ہونے کے ساتھ ساتھ  ایسی صفات حمیدہ اورکمالات کا صاحب ہے کہ جس کی وجہ سے وہ واقعتااورحقیقتاہرچیز کی  حمدوثنا وتعریف کا اہل ہے اس کےبعد تیسراکلمہ اللہ اکبر’’کا سکھایاگیاہےکہ انسان کو صفات سلبیہ اورثبوتیہ کے علم حاصل ہونے کے باوجود اس کو یہ بھی معلوم ہوجائے کہ وہ خیالات ،تصورات اوروہم گمان سے بھی بڑا ہے۔اس لیے کہا گیا کہ اللہ ہر چیز سے بڑا ہے ۔تاکہ انسان کے دل میں اللہ تعالی کی عظمت اورکبریائی کا ایمان وایقان مزید پختہ ہوجائے کیونکہ کلمہ‘‘لا الہ الا اللہ’’کے اندر یہ درس ہے کہ اللہ تعالی کی ذات وصفات محامدات وکمالات میں دوسری کوئی ہستی شامل شریک نہیں ہے بلکہ وہ اکیلا ہی معبود برحق ہے اس کے علاوہ کوئی بھی معبود برحق نہیں ہے باقی سارے اس کی  مخلوقات میں سے ہیں جن کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے ۔جب معلوم ہوا اللہ تعالی  سے تعلق پیداکرنے کے لیے اس کی صفات کا علم ضروری ہے اب ہم اصل بات کی طرف آتے ہیں کہ اللہ تعالی کا عرش عظیم پر مستوی ہونا بھی اس کی صفات میں سے ایک صفت ہے جس سے بندوں کو آگاہ کرنا اس لیے ضروری تھا تاکہ ان کو اس بات کا علم ہوسکے کہ اللہ تبارک وتعالی اس کائنات کو پیدا کرنے کے بعد ان سے لاتعلق نہیں ہوا ہے بلکہ جس طرح کوئی بادشاہ تخت بادشاہی پر بیٹھ کر اپنی حکومت چلاتا ہے اس طرح اللہ تعالی اپنے عرش عظیم پر مستوی ہوکراس کائنات کے کارخانے کو چلارہا ہے اوردنیا کی ہرچیز پر اس کی نظر ہے ۔آسمان وزمین کو اسی نے تھام ہوا ہے ۔جس طرح سورت فاطر میں فرماتے ہیں:

﴿إِنَّ ٱللَّهَ يُمْسِكُ ٱلسَّمَـٰوَ‌ٰتِ وَٱلْأَرْ‌ضَ أَن تَزُولَا﴾ (فاطر:٤١)

‘‘اللہ تعالی نے آسمان وزمین کو روکا ہوا ہے تاکہ اپنی جگہ سے ہل نہ سکیں۔’’

اسی طرح سورہ ملک میں فرماتے ہیں:

﴿أَوَلَمْ يَرَ‌وْا۟ إِلَى ٱلطَّيْرِ‌ فَوْقَهُمْ صَـٰٓفَّـٰتٍ وَيَقْبِضْنَ ۚ مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلَّا ٱلرَّ‌حْمَـٰنُ ۚ إِنَّهُۥ بِكُلِّ شَىْءٍۭ بَصِيرٌ‌﴾ (ملك:١٩)

‘‘یعنی کیا یہ انسان نہیں دیکھتے کہ آسمان وزمین کے بیچ میں جوپرندے صفیں بناکراڑتے ہیں اورپھر اپنے پروں  کو بند بھی کرتے ہیں ان پرندوں کو فضا کے اندرصرف رحمن ہی نے روکا ہوا ہےبےشک وہ وہی ہرچیز کودیکھنے والاہے۔’’

یہ صرف پرندوں کی مثال نہیں ہے بلکہ اس کی ہر چھوٹی بڑی اورجانداراوربے جان چیزپرنظر ہے کوئی لمحہ بھی ایسا نہیں کہ وہ اپنی مخلوق سے غافل رہتا ہو،نہ اس کو نیندآتی ہے اورنہ ہی اونگھ اوراپنے عرش سے ہی پورے کائنات کا نظام چلارہا ہے اوران کے تمام امورمیں تدبیرکررہا ہے ۔جس طرح سورہ الم سجدہ میں فرماتے ہیں:

﴿يُدَبِّرُ‌ ٱلْأَمْرَ‌ مِنَ ٱلسَّمَآءِ إِلَى ٱلْأَرْ‌ضِ﴾ (الم سجدۃ:٥)

یعنی ان کافروں سے تمام باتوں کے ساتھ یہ بھی پوچھوگے کہ اس کائنات کو کون چلارہا ہے۔’’

توجوجواب دیں وہ جواب بھی مذکورہے۔

﴿فَسَيَقُولُونَ اللَّـهُ﴾ (یونس:۳۱)

‘‘یعنی وہ جواب دیں گے کہ یہ کام اللہ تعالی ہی کرتا ہے۔’’

سلف صالحین کا یہ عقیدہ ہے جو کہ صحیح اوراسلم بھی ہے کہ اللہ تبارک وتعالی اپنے عرش عظیم پرمستوی ہوکر پوری کائنا ت کوچلارہا ہے اگروہ ساتوں آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پرمستوی ہے لیکن اس کا علم اورقدرت ہر جگہ موجودہے اورمخلوق کے ذرے ذرے کو بھی جانتا ہے۔

﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا ٱلْإِنسَـٰنَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِۦ نَفْسُهُ﴾ (ق:١٦)

‘‘یعنی ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اوراس کے دل میں جوخیالات اٹھتے ہیں ان سے بھی ہم واقف ہیں۔’’

﴿إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ‌﴾ (الملك:١٣)

‘‘بے شک وہ سینے کے رازوں کو بھی جانتا ہے۔’’

سورہ آل عمران میں فرماتے ہیں:

﴿إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَخْفَىٰ عَلَيْهِ شَىْءٌ فِى ٱلْأَرْ‌ضِ وَلَا فِى ٱلسَّمَآءِ﴾ (آل عمران:٥)

‘‘بے شک اللہ تعالی سے کوئی بھی چیز چاہے وہ آسمان ہویا زمین میں مخفی نہیں ہے۔’’

یعنی کے اللہ تعالی کے عرش پر مستوی ہونے کے باوجود اس کا علم وقدرت ہرجگہ موجودہے ،کوئی بھی چیز اس کی قدرت سے باہر نہیں ہوسکتی ۔البتہ یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ اللہ تعالی کی تمام صفتیں بے مثل ہیں۔یعنی عرش پر مستوی ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ جس طرح دنیا کےبادشاہ کسی بنائے ہوئے تخت پربیٹھ کربادشاہی چلاتے ہیں عین اسی طرح اللہ کے لیے بھی کوئی تخت ہے جس پر وہ بیٹھ کروہ بادشاہی چلاتا ہے۔اس طرح ہرگز نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالی کے عرش کے  متعلق یا اس کی کیفیت کے متعلق ہمیں کوئی بھی علم نہیں ہے صرف اتنا علم ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے لیے عرش عظیم کو پیدا کیا جس کے لیے ضروری تھا وہ اس کی شایان شان وعظمت وکبریائی کے مطابق ہو باقی اس پر اس کی ستوی کیفیت یہ بے مثل ہے کیونکہ  یہ اللہ کی صفت ہے اورذات اورصفات کے  اعتبار سے کوئی بھی اللہ کے مثل یا نظیر نہیں بن سکتا۔

خلاصہ کلام کے اللہ تعالی کا ساتویں آسمان کے اوپرعرش عظیم پرمستوی ہونا بے مثل ہےجس کی کوئی بھی کیفیت بیان نہیں کی جاسکتی ہاں اس کی قدرت وعلم ہرجگہ موجود ہے اس کےبرخلاف جہمیہ،معتزلہ،خوارج اوراشاعرہ یا متکلمین میں سے جوان کے خیالات سے متاثرہوتے ہیں انہوں نے استوی میں تاویل کی ہے اوراسے مجاز قراردیا ہے ان کا کہنا ہے کہ استوی علی العرش کا مطلب ہے کہ اللہ تعالی عرش پر غالب ہوایاعرش اس کے قبضے وقدرت میں ہے۔جس کی  دلیل پر وہ ایک شعر بھی پیش کرتے ہیں کہ

‘‘استواء بشرعلى العراقى من غير سيف اودم مهراق.’’

یہاں پراستواء بمعنی استولاع ہے۔یعنی غالب ہوا،شعرکی معنی ہے بشرغالب ہواعراقی پر بغیر تلوارچلائے ہوئے اوربغیر خون بہائے۔اس کا جواب یہ ہے کہ استوای کا لفظ کبھی تو بغیرصلہ کے استعمال ہوتا ہے جس طرح قرآن کریم میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:

﴿وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُۥ وَٱسْتَوَىٰٓ﴾ (قصص:١٤)

‘‘اورجب وہ پہنچاطاقت کو اورطاقت تام کو۔’’

کبھی یہ‘‘الی’’اور‘‘علی’’کےصلہ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔‘‘الی’’کی مثال

قرآن کریم میں:

(١): ﴿هُوَ ٱلَّذِى خَلَقَ لَكُم مَّا فِى ٱلْأَرْ‌ضِ جَمِيعًا ثُمَّ ٱسْتَوَىٰٓ إِلَى ٱلسَّمَآءِ﴾ (البقرۃ: ۲۹)
(٢): ﴿ثُمَّ ٱسْتَوَىٰٓ إِلَى ٱلسَّمَآءِ وَهِىَ دُخَانٌ﴾ (حم السجدة:١١)

سلف کا اجماع ہےکہ یہاں پر اس کی معنی علووارتفاع ہے اور‘‘علی’’کے صلہ کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔

مثال نمبر١: ﴿لِتَسْتَوُۥا۟ عَلَىٰ ظُهُورِ‌هِ﴾ (الزخرف:١٣)

‘‘تاکہ تم ان جانوروں کی پیٹھ پر بیٹھ کر(سواری کرو)۔’’

مثال نمبر٢: ﴿وَٱسْتَوَتْ عَلَى ٱلْجُودِىِّ﴾ (هود:٤٤)

‘‘يعنی نوح کی کشتی جودی پہاڑ پر آکرکھڑی ہوئی ۔’’

اس طرح کی کئی مثالیں قرآن مجید میں موجود ہیں ان تمام سے علو،ارتفاع اعتدال یعنی بلند ہونا ،برابرہوکر بیٹھنا مرادہے جس پر اہل لغت کا اجماع ہے جب استوی کا صلہ ‘‘علی’’آئے توہرجگہ پر معنی بلند نہ ہونا مرادہوگی جس طرح استوی علی العرش میں ہے۔تو استوی کو اپنے معنی سے کیوں محروم کیا جارہا ہے؟مجاز والی بات قطعا درست نہیں ہے۔اس لیے کہ مجازوہاں پرمرادلیا جاتا ہےجہاں پر حقیقت متعذرہ ہو،یہاں حقیقی معنی ہرگزمتعذرہ نہیں ہے۔

باقی رہا یہ سوال کہ حقیقی معنی میں مخلوقات کے ساتھ مشابہت لازم آتی ہے تویہ درست نہیں ہےاس لیے کہ‘‘استوی علی العرش’’اللہ کی صفت ہے اوراللہ تعالی کی صفت ویسے ہی بے مثل ہیں جیسے اس کی ذات بے مثل ہے اورمجازی معنی مرادلینے کی دوسری صورت اس وقت پیش آئے گی جب مجازی معنی والے الفاظ دوسری جگہوں پر زیادہ آئے ہوں ایک یا دوجگہوں پرایک لفظ آیا ہوجس کے حقیقی معنی ان زیادہ الفاظ کے مخالف ہوپھر ان متعددمواضع کو  مد نظر رکھ کرایک جگہ پر واردلفظ کوبھی ان پر محمول کیا ہے لیکن یہاں پر ایسی کوئی بات نہیں ہے۔استوی کی معنی استعلاء یا غلبہ اس کی  حقیقی معنی نہیں ہے بلکہ معنی ہے لہذا ‘‘استوی علی العرش’’کواس مجاز معنی پر محصول کرنے کی ضرورت اس وقت پیش آتی جب قرآن کریم میں متعددباراستولاع علی العرش’’کے الفاظ آتے  ہیں اورپھر ایک دوجگہوں پر ‘‘استوی علی العرش’’کے الفاظ آتے توپھر ہم اس کی  معنی‘‘استولاع علی العرش’’کرنے کے مجاز ہوتے لیکن قرآن کریم میں‘‘استولاع علی العرش’’کے الفاظ ایک بار بھی استعمال نہیں ہوئے ہیں۔اس کے برعکس‘‘استوی علی العرش’’کے الفاظ ایک دوکیا بلکہ سات آیات میں واردہوئے ہیں جن کی تفصیل ہم گزشتہ اوراق میں کرچکے ہیں۔لہذا‘‘استوی علی العرش’’کی معنی ‘‘استوی لاع’’کرنا اصولابھی غلط ہے اوردوسرااستعلاع اورغلبہ کا مطلب یہ ہے کہ جو چیز پہلے قبضہ میں نہیں تھی اس پرغلبہ حاصل کرکے اپنے قبضہ میں کیا جس طرح مذکورہ شعرکا مطلب وہ حضرات اس طرح کرتےہیں کہ بشرکے قبضہ سے عراق پہلے باہرتھاپھر اس پر غلبہ حاصل کرکے اس پر قبضہ کرلیا۔اس طرح کے معنی  اللہ تعالی کے قبضے اورقدرت سے ایک لمحہ بھی باہر نہ تھی نہ ہے اورنہ ہی کبھی ہوسکے گی اس لیےاستعلاءاورغلبہ کا مطلب یہاں پر سراسربے معنی ہے اوردوسری بات کہ عرش توزمین وآسمان کی پیدائش سے بھی پہلے سے موجودتھاجس طرح اللہ تعالی فرماتے ہیں:

﴿وَهُوَ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَ‌ٰتِ وَٱلْأَرْ‌ضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍ وَكَانَ عَرْ‌شُهُۥ عَلَى ٱلْمَآءِ﴾ (ھود:٧)

‘‘اوراللہ تعالی وہ ذات ہے جس نے چھ دنوں میں زمین وآسمان کو پیدا کیا اس حال میں کہ اس کا عرش پانی پر تھا۔’’

عربی گرامرکا قاعدہ ہے کہ کسی جملہ میں جو حکم ہے وہ اگر جملہ حالیہ کے واوکے ساتھ مقیدہےتووہ جملہ حالیہ اس حکم یاخبر سے پہلے ہی ہوتا ہے ۔مثلا کہاجائے‘‘جاءزيدوهوراكب’’یعنی زید آیا اس حال میں کہ وہ سوارتھا۔’’اس کامطلب یہ ہے کہ زید کے آنے سےپہلے ہی اس کے ہونے کی اس جملہ میں دلالت ہے،اس طرح اس آیت کریمہ کا بھی یہی مطلب ہے کہ زمین وآسمان کی پیدائش سے پہلے ہی عرش پیدا ہوچکا تھا۔اس وقت عرش پانی پرتھااگرعرش پہلے سےموجود تھا تواللہ تعالی نے یوں کیسے فرمادیا  کہ:

﴿هوالَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ﴾  (الحديد:٤)

"وه ذات جس نے آسمان وزمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا،پھرعرش پر مستوی ہوا۔"

وغيرهامن الايةکیونکہ‘‘ثم تراخي’’اورترتیب کے لیے آتا ہے ۔اگریہاں پراستوای سے مراداستعلاع لیا جائے گاتومعنی یہ ہوگا کہ زمین وآسمان کی پیدائش کے بعدعرش پر غلبہ حاصل ہوا۔حالانکہ قرآنی نص اوربخاری وغیرہ کی صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عرش،زمین وآسمان سے پہلے پیدا ہوچکاتھا،جس پر  پہلے ہی اللہ تعالی کو غلبہ اورقبضہ حاصل تھاتواگراستعلاع کے معنی کروگے تومطلب یہ ہوگا کہ زمین وآسمان کے بعد اس پر غلبہ حاصل ہواہے یہ صریح تناقض ہے جس سے اللہ کا کلام پاک ہے ۔اللہ تعالی فرماتے ہیں:

﴿وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ‌ ٱللَّهِ لَوَجَدُوا۟ فِيهِ ٱخْتِلَـٰفًا كَثِيرً‌ۭا﴾ (النساء:٨٢)

‘‘یعنی اگر قرآن مجید اللہ کی کلام نہ ہوتی تواس میں بہت زیادہ اختلاف وتناقض دیکھنے میں آتا۔’’

لیکن اگر اس کا معنی یہ کیا جائے کہ زمین وآسمان کےپیداکرنے کے بعد اللہ تعالی عرش پر مستوی ہوا تواس معنی سے کوئی خرابی نہیں آتی ،یعنی عرش عظیم کی تخلیق توپہلے ہی ہوچکی تھی مگر اس پر استواء زمین وآسمان کی تخلیق کے بعد ہوا۔اس میں کوئی خرابی نہیں ہے۔اورتناقض وتعارض کا شائبہ ہی ہے ۔‘‘فليتامل متاملون’’باقی جو شعر پیش کیا گیا ہے اولا تواس کےقائل کا کوئی پتہ نہیں ہے اورنہ ہی وہ عربوں کے کسی دیوان میں ملتا ہے اس کے باوجود اس شعر میں ایک آدمی کا عراق پر غلبہ کاذکر ہے اوریہ اس لیے بات صحیح ہوسکتی ہے کہ کوئی ملک کسی کے قبضہ میں نہ ہوپھر اس پر غلبہ حاصل کرکے قبضہ میں لے آتا ہے ۔لیکن اللہ تعالی کےبارے میں یہ معنی قطعا درست نہیں ہوسکتے ۔کیونکہ اس کی قدرت سے کوئی بھی چیز پہلے یا بعدمیں باہر نہیں ہوسکتی ،اس لیے اللہ کا عرش پر مستوی ہونا اس معنی کا ہرگز متحمل نہیں ہوسکتا کہ عرش اس کے قبضہ میں نہیں تھا پھر اس پرغلبہ حاصل ہوا۔لہذا ‘‘اللہ تعالی کا عرش پرمستوی ہونا ’’کی صحیح معنی وہی ہے جولغت عرب کی روء سے متباورہے جس کی مثال پہلے ذکر کرچکے ہیں وہی معنی ہے جس کو صحابہ،تابعین ،تبع تابعین اورسلف صالحین نے ان الفاظ سے سمجھی ہے۔

علاوہ ازیں ہم کہتے ہیں کہ پیش کردہ شعرمیں استوی بمعنی استعلاء کے نہیں ہے بلکہ اس کی وہی اصلی معنی ہوگی وہ اس طرح کہہ بشر جو کہ عبدالملک بن مروان کے بھائی تھے اوروہ عراق کےامیرتھے۔سابقہ امراءبادشاہوں اورحاکموں کا یہ دستورتھا کہ جب وہ کسی ملک کی باشاہی کےلیے آتے تووہ اپنے تخت شاہی کے اوپر آکربیٹھتے تھے ۔اسی طرح یہ بشربھی عراق کا امیر بننےکے بعد اپنے تخت پر مستوی  ہوکربیٹھ گیا اوراس میں کوئی خرابی نہیں ہے اس لفظ کو اپنی اصلی اورحقیقی معنی سے خارج کرنے کی کوئی ضرورت ہی  نہیں رہتی بہرحال یہ شعرہرگزحجت نہیں ہے کہ‘‘ثم استوی علی العرش’’کے معنی استعلاع یا غلبہ ہے جب کہ اس جگہ  حقیقی معنی متعذرہ نہیں ہے توپھر مجازی معنی کی طرف جانا اصولا غلط ہے قرآن کریم میں کتنے ہی مقامات ہیں جن  سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی تمام مخلوق سے بلند ہے اورانسانی فطرت بھی یہی بتلاتی ہے مثلا جب بندہ دعامانگتا ہے  تواپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھاتا ہے بنی کریمﷺدعائے استسقاء کےاندرہاتھوں کو اتنا بلند اٹھاتے تھے  کہ بغلوں کی سفیدی نظر آتی تھی اگراللہ تعالی ہر جگہ موجود ہوتے توپھر ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھانے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی بلکہ وہ  کام ہی فضول بن جاتا ،اس طرح صحیح حدیث کے اندر آتا ہے کہ ایک شخص اپنی لونڈی کونبی کریمﷺکے پاس لے کرآیا جوکہ رقبہ مومنہ کو آزادکرنا چاہتا تھا آپ نے اس لونڈی سےسوال کیا‘‘اين الله’’اللہ کہاں ہے؟توانہوں نے آسمان کی طرف اشارہ کیا،پھرآپﷺنے پوچھاکہ میں کون ہوں؟توانہوں نے آپ کی طرف اشارہ کیا کہ آپ اللہ کے رسول ہوتوآپﷺنےفرمایاکہ اس کو آزادکردویہ مومنہ ہے،اگراللہ تعالی آسمان کے اوپر نہ ہوتے توآپﷺباندی کے اشارہ کو کس طرح بحال رکھتے اورکس طرح اس کومومنہ قراردیتے؟اللہ کے رسول سے بڑھ کرکس کو اللہ کے بارے میں معرفت ہوسکتی ہے۔حجۃ الوداع والی حدیث توبالکل مشہورہےجس میں آپﷺنے لوگوں کو چند باتیں پوچھنے اورسمجھانے کے بعد ان سے سوال کیا کہ کیا میں نے اللہ کا پیغام پہنچادیا؟توسب نے جواب دیا یہ ہاں!آپ نے اللہ کا پیغام ہم تک پہنچادیا۔اس پر آپ نے اپنی انگلی مبارک آسمان کی طرف اٹھاکرفرمایا۔‘‘اللهم اشهد’’اے اللہ اس بات پر گواہ رہنا کہ میں نے تیرا پیغام تیرے بندوں تک پہنچادیا ہے ۔اگراللہ کے لیے علونہ ہوتا بلکہ وہی ہرجگہ بذات خود موجود ہوتاتوآپ اپنی انگلی آسمان کی طرف نہ اٹھاتے۔اسی طرح احادیث صحیحہ میں رات کے آخری حصہ میں دنیائے آسمان پر اللہ تعالی کے نزول کا ذکرموجود ہے اگر اللہ تعالی ساتوں آسمانوں سے اوپر عرش عظیم پرنہ ہوتے تونزول کوئی معنی نہیں رکھتا۔باقی ان صفات کی کیفیت کےبارے میں کوئی علم ہے اورنہ ہی ہوسکتا ہے اس لیے اس میں تاویلات وغیرہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔قرآن کریم اعلان کرتا ہے :

﴿وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِۦ عِلْمٌ﴾ (بنی اسرائيل:٣٦)

‘‘ایسی بات کے پیچھے مت پڑو جس کا آپ کو علم نہیں ہے۔’’

کتاب وسنت میں جو اللہ تعالی کی صفات واردہیں ان پر اسی طرح ایمان لانا ہے جس طرح واردہوئی ہیں۔باقی کیفیات کا علم اللہ تعالی کے سپرد کرناہے۔باقی قرآن میں یہ جوکہا گیا ہے:

﴿وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ﴾ (الحدید: ۴)

اوراسی طرح سوره مجادلہ ميں ہے:

﴿أَلَمْ تَرَ‌ أَنَّ اللَّـهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْ‌ضِ ۖ مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَ‌ابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَىٰ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْثَرَ‌ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا------الاية﴾ (المجادلہ:۷)

ان آیات میں اللہ تعالی کا ہمارے ساتھ ہونے کا یہ مطلب ہے کہ وہ علم اورقدرت کےلحاظ سے ہمارے ساتھ ہے ،یعنی وہ ہم سے علو شان کے لحاظ سے بہت بلند اورعرش عظیم پرہونے کے باوجود ہماری ہرنقل وحرکت کا علم رکھتا ہے ۔خود اسی سورہ مجادلہ کے بارے میں ام المومنین  عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں اپنے  گھر میں بیٹھی ہوئی تھی ،بی بی صاحبہ کا گھرمسجدسےمتصل تھا کہتی ہیں کہ میں سنتی ہوں کہ عورت آپﷺسےاتنی ہلکی آواز میں گفتگوکررہی تھی کہ میں نہ سمجھ سکی کہ وہ کیا کہہ رہی ہے لیکن پاک ہے وہ ذات مبارکہ جو ہر وقت دنیاکی آوازوں کو سنتی ہے اس نے ساتوں آسمانوں سے اوپر اپنے عرش عظیم پر اس عورت کامحاورہ سن لیا۔اورفوراوحی بازل کرکے اس عورت کے مسئلہ کو حل کیا اوراس کی شکایت کودورکیا ۔جیسا کہ سورت کی ابتداان الفاظ سے ہوتی ہے۔

﴿قَدْ سَمِعَ ٱللَّهُ قَوْلَ ٱلَّتِى تُجَـٰدِلُكَ فِى زَوْجِهَا وَتَشْتَكِىٓ إِلَى ٱللَّهِ وَٱللَّهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَ‌كُمَآ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ سَمِيعٌۢ بَصِيرٌ‌﴾ (المجادلة:١)

‘‘بے شک اللہ تعالی نے سن لیا اس عورت کا قول جواپنے خاوند کے بارے میں شکایت کررہی تھی اللہ تعالی آپ دونوں کی گفتگوکوسن رہا ہے  بے شک اللہ تعالی سننے والااوردیکھنے والاہے۔’’

بہر حال اللہ تعالی کی معیت کا مطلب جو ہم نے لیا ہے وہی متفقہ طورپرسلف صالحین سے منقول ہے باقی اللہ تعالی ہر جگہ باعتبارذات موجودہونے کا عقیدہ یا حلولیین،زندقین کاہے یا متاخرین،متکلمین اورآج کل کے دیوبندی حضرات کا ہے جو کہ سلف صالحین کےعقیدے کے برخلاف ہے ۔قرآن کریم میں تحویل قبلہ کے بارے میں ہے:

﴿قَدْ نَرَ‌ىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِى ٱلسَّمَآءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْ‌ضَىٰهَا﴾ (البقرة:١٤٤)

‘‘بے شک ہم آپ کے باربارچہرہ آسمان کی طرف کرنے کو دیکھ رہے ہیں پھر ہم ضروراس قبلہ کی طرف منہ کرنے کا حکم کریں گے جس کو آپ پسند کرتے ہیں۔’’

بنیﷺباربارآسمان کی طرف کیوں دیکھتے تھے ؟اس کا صاف جواب یہ ہے کہ چونکہ وحی آسمان سے نازل ہوتی تھی آپ اس شوق میں بارباراوپر دیکھتے کہ کب وحی نازل ہوتی ہے کعبۃ اللہ کی طرف منہ کرنے کا حکم کی ،اوروحی کا اوپر سے نازل ہونا اس حقیقت پرواضح دلالت کرتا ہےکہ اللہ تعالی ساتوں آسمانوں سے اوپر ہے اوروہیں سے وحی کو نازل کرتا ہے توخود قرآن سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالی آسمانوں سے اوپر سےاسی طرح اللہ تعالی  فرماتے ہیں:

﴿بَل رَّ‌فَعَهُ ٱللَّهُ إِلَيْهِ﴾ (النساء: ۰ ١٥)

‘‘کہ اللہ تعالی نے عیسی کو اپنی طرف اٹھالیا۔’’

احادیث صحیحہ جو کہ تواترکی حدتک پہنچ چکی ہیں ان میں اس کی تفسیراس طرح ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت عیسی علیہ السلام کو زندہ آسمان کی طرف اٹھالیا اگر اللہ تعالی آسمانوں سے اوپر نہ ہوتے تویوں کس طرح فرماتے ہیں کہ اللہ نے ان کو اپنی طرف اٹھالیا،آخرمیں اتنا عرض کریں کہ جو لوگ اللہ تعالی کے ہرجگہ حاضر ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں یا اس کے قائل ہیں توان کے اس قول سے یہ بات لازم آئے گی کہ نعوذباللہ،اللہ تعالی ،بیت الخلاء،گندی جگہیں،بداخلاقی کے محلات اورشراب وزناکے اڈوں میں موجود ہیں۔اورپھر اس کے نتیجہ میں جو خرابی لازم آئے گی اس کی سنگینی کوئی بھی عقلمند انسان بےخبر نہیں رہ سکتا۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاسےایک روایت مردی ہے جو کہ مسند احمد ،ابن ماجہ،نسائی،ابن ابی حاتم اورابن جریرکی تفاسیراورعثمان بن سعید داری اپن کتاب‘‘الردعلي بتر المريس’’میں لائے ہیں جس کو امام بخاری اپنی صحیح کے اندرکتاب التوحید کے عنوان کے ساتھ تعلیقاجزم کے صیغہ سے ذکر فرمایاہے۔یہاں پر ہم امام احمد کے الفاظ نقل کرتے ہیں:

((عن عائشة رضي الله عنها قالت الحمدلله الذي وسع سمعة الاصوات لقدجاءت المجادلة الي النبيﷺتكلمة وانا في ناحية البيت مااسمع ماتقول فانزل الله عزوجل﴿قَدْ سَمِعَ ٱللَّهُ قَوْلَ ٱلَّتِى تُجَـٰدِلُكَ فِى زَوْجِهَا﴾.))مسند احمد’رقم الحديث٢٤١٩٥’ابن ماجه في المعجمه المقدمة’رقم١٨٨.

‘‘تعریف اس پاک ذات کی جس کا سمع تمام آوازوں سے کشادہ ہے البتہ تحقیق ایک عورت آئی جو  کہ نبیﷺکے مجادلہ کرنے والی تھی اورآپﷺکےساتھ محو گفتگوتھی اس حال میں کہ میں گھر کے اندرموجودہونے کے باوجود نہ سمجھ سکی کہ وہ کیا کہنا چاہتی ہے پھر اللہ تعالی نے ﴿قَدْ سَمِعَ ٱللَّهُ﴾والی آيات نازل فرمائیں۔’’

اورابن ابی حاتم کی تفسیر میں اس طرح کے الفاظ ہیں:

((تبارك الذى اوعى سمعه كل شئي انى لاسمع كلام خولة بنت ثعلبة ويخفي على بعضه وهى تشتكي زوجهاإلى رسول اللهﷺإلى اخره.))

‘‘یعنی برکت والی ہے وہ ذات جس کا کان ہر چیز کو سمجھتا ہے بیشک میں خولہ بن ثعلبہ کا کلام سن رہی تھی اورکچھ میرے اوپر مخفی رہا اوروہ نبیﷺکے پاس اپنےخاوند کی شکایت کررہی تھی۔’’

امام دارمی اپنی کتاب‘‘الردعلي بترالمريس’’میں صحیح سند کے ساتھ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت لائے ہیں کہ :

((قبض رسول اللهﷺقال ابوبكررضي الله عنه أيها الناس ان كان محمد الهكم الذى تعبدون فإنه قدمات وإن كان الهكم الله الذي في السمآءفان الهكم لم يمت.))

‘‘جب نبیﷺنے اس دنیاسےرخصت فرمائی تواس وقت سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ نے فرمایا:اے انسانو!اگرتمہارے معبودمحمدﷺتھے توبیشک وہ فوت ہوچکےاگرتمہارامعبوداللہ ہےجو کہ آسمان میں ہے تووہ فوت نہیں ہواہے۔’’

امام دارمی اسی کتاب کے اندرحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے روایت نقل کرتے ہیں کہ:

‘‘عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ان کی وفات کے وقت آئےتو انہوں نے اس وقت بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں چند باتیں کیں ان میں سے یہ بات بھی تھی کہ :

((وانزل الله براءتك من فوق سبع السموت وجاءبه الروح الامين.))

‘‘یعنی اللہ تعالی نے تیری براءت ساتوں آسمانوں کے اوپر سے نازل فرمائی جس کو روح الامین جبرئیل علیہ السلام لے کرآئے۔’’

اسی کتاب میں امام دارمی صحیح سند کے ساتھ عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت  لائے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:

((مابين السماء الدنيا والتي تليها مسبرة خمس مائة وبين كل سماءمسيرة خمس ماة عام وبين السماء السابعة وبين الكرسي خمسة مائة عام والعرش علي الماء والله ترفوق العرش وهويعلم ماانتم عليه.))(بحواله الدر امنثورجلد١’ص٩٢)

‘‘آسمان دنیا اورجو اس کے ساتھ متصل ہے ان کے درمیان پانچ سوسال کی مسافت کا فاصلہ ہے اورہر دوسرے آسمان کے درمیان پانچ سوسال کی مسافت ہے اورساتویں آسمان اورکرسی کے بیچ میں سوسال کی مسافت کا فاصلہ ہےاوراللہ تعالی کا عرش پانی پر ہے۔’’

اسی طرح ایک اورواقعہ ہے جس میں ایک شخص نے کہا اے ابوعبداللہ ،اللہ رحمن عرش پرمستوی ہے اس کے استوی کی کیفیت کیا ہے پھر امام نے سرجھکایااوران کو پسینہ آنا شروع ہوگیا پھر سراوپر اٹھایااورکہنے لگے(یقینا)اللہ رحمن اپنے عرش پر مستوی ہے جس طرح اپنی ذات پاک وصف بیان فرمائی ہے اس طرح کہنا ہی نہیں ہے اورکیفیت نامعلوم ہے توبراآدمی اورصاحب البدعۃ دکھائی دیتا ہے اس کو یہاں سے نکال دوامام عثمان بن سعید دارمی اپنی کتاب ‘‘الردعلي الجهميه’’میں سورہ مجادلہ کی آیت کریمہ﴿مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَ‌ابِعُهُمْ﴾ (المجادله:۷)کےمتعلق وضاحت کرتے  ہیں:

((انمايعني انه حاضر كل نجوي ومع كل احد من فوق العرش بعلمه لان علمه بهم محيط وبصره فيه فافض لايحجه شئي عن عليه وبصره ولايتوارون منه بشئ وهوبكماله فوق العرش.))

‘‘یعنی اس آیت سے مقصود یہ ہے کہ بیشک اللہ تعالی اپنے عرش کے اوپر اپنے علم سے ہر سرگوشی اورہر ایک کے ساتھ ہے ،کیونکہ اس کے علم نے تمام چیزوں کو گھیراہواہےکوئی بھی چیز اس کے علم اوران کو دیکھنے سے روک نہیں سکتی اورنہ ہی انسان اس سے چھپ سکتے ہیں وہ اپنے کمال قدرت سے عرش کے اوپر ہے۔’’

امام دارمی کی اس عبارت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کے بارے میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ وہ حاظر ناظر ہے لیکن اپنے علم اورقدرت کے لحاظ سے نہ کہ اسی طرح جس طرح بدعتی لوگ کہتے ہیں کہ وہ بذات خود ہر جگہ موجود ہوتا ہے ۔اس کی تردید ہم پہلے کرچکے ہیں۔امام حاکم نیساپوری  اپنی کتاب معرفۃ علوم الحدیث صفحہ نمبر٨٤پر اپنے سند سے امام ابوبکر محمد بن اسحاق بن خزیمہ صاحب الصحیح سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:

((من لم يقربان الله تعالي علي عرشه قداستوي فوق سبع السموت فهوكافربربه يستتاب فان تاب وان لاضرب عنقه والقي علي بعض مذابل حيث لايتاذي المسلون والمعاهدون بنتن ريح جيفته وكان ماله فيئالايرثه احدمن المسلمين اذالمسلم لايرث الكافر كماقالﷺ.))
‘‘یعنی جس آدمی نے یہ اقرارنہ کیا کہ بیشک اللہ تعالی ساتوں آسمانوں سےاوپراپنے عرش پر مستوی ہے تو وہ اپنے رب کے ساتھ کفرکرنے والاہے اس سےتوبہ کروائی جائے گی پھر اگر توبہ کی توفبہا وگرنہ اس کی گردن ماردی جائے گی اوراس کو اٹھا رگندگی کے ایسے ڈھیرپرپھینکاجائے گا جس سے مسلمانوں یا ذمی کواس کی بدبوتکلیف نہ پہنچائےاوراس کا مال فی بن جائے گا کوئی مسلمان اس کے مال کا وارث نہیں بنے گا کیونکہ مسلمان کافر کا وارث نہیں بنتاجس طرح نبیﷺکا فرمان مبارک ہے ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ راشدیہ

صفحہ نمبر 126

محدث فتویٰ

تبصرے