سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(13)چاند اورسورج کی جگہ

  • 14798
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 3948

سوال

(13)چاند اورسورج کی جگہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سورج اورچاند آسمان پر ہیں یا اس سے اوپر ہیں تفصیل سےوضاحت کریں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 قرآن کریم کی بہت سی آیات سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ دنیا والے آسمان میں ہیں۔مثلا

﴿وَلَقَدْ زَيَّنَّا ٱلسَّمَآءَ ٱلدُّنْيَا بِمَصَـٰبِيحَ﴾ (الملك:٥)

’’ہم نے آسمان دنیا کوچراغوں سے زینت والابنایا۔‘‘

﴿إِنَّا زَيَّنَّا ٱلسَّمَآءَ ٱلدُّنْيَا بِزِينَةٍ ٱلْكَوَاكِبِ﴾ (الصافات:٦)

’’ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت سے بارونق بنادیا ہے۔‘‘

ان آیات میں صراحتا بیان ہے کہ آسمان دنیا کو چراغوں سے مزین کیاگیا ہے اورایک جگہ اللہ نے فرمایا:

﴿وَجَعَلَ ٱلشَّمْسَ سِرَ‌اجًا﴾ (نوح:١٦)

’’اورسورج کو اللہ تعالی نے چراغ بنایا۔‘‘

مطلب سورج بھی ان چراغوں میں سے ہے ۔جب اللہ  نے یہ فرمایا کہ آسمان دنیا کوچراغوں سے مزین کیاگیا ہے توپھرسورج اورچاند ان چراغوں میں شامل ہوئے۔

اوروہ بھی آسمان دنیا کی زینت ہوئے ۔باقی ایسی کوئی واضح آیت نہیں ہے جو راقم الحروف کی نظروں سے گزری ہو۔واللہ اعلم بالصواب!

باقی آسمان کے متعلق قرآن یاحدیث میں  ایسی کوئی آیت یا حدیث نہیں ہے جس میں بتایاگیا ہوکہ کہ کس سے بنے ہوئے ہیں یا ان کا مادہ کیا ہے؟لہذا اس کے متعلق جو بھی کہاجائے گا وہ صرف قیاس آرائی ہوگی ۔دراصل لغت کی کتابوں میں یہ صراحت ہے کہ ہر وہ چیزجوزمین سے اوپر ہوں اس کو سماء کہا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ بادلوں کو گھر کی چھت کو سماء کہا جاتا ہے جس طرح حافظ ابن حجررحمہ اللہ علیہ بخاری کی شرح فتح الباری ض٢،ص٤١٩میں لکھتے ہیں:

((’’قوله سماء‘‘اي مطر والطلق عليه سماء لكونه ينزل من جهتيه السماء وكل جهته علوشمسي سماء.))

اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین سے اوپر کے تمام عالم کوسماء کہا جاتا ہے اسی طرح لغت کی دوسری کتابوں میں بھی یہی بیان ہے اس حقیقت کو ذہن نشین کرنے کے بعدآپ کو سمجھ آجائے گاکہ کتاب وسنت میں جو سات آسمانوں کا ذکر آتا ہے اس سے مرادعالم بالاکے سات حصے ہیں جن کو درجہ بدرجہ سات طبقوں میں تقسیم کیاگیا ہےجو ایک دوسرےکے اوپر قریب قریب اس طرح ہیں۔

زمین

باقی ہر ایک آسمان کی حد کہاں سے شروع ہوکرکہاں ختم ہوتی ہے ۔اس حقیقت کاادراک صرف اللہ سبحانہ وتعالی کی ذات کو ہے اورقرآن میں جو فرمایاگیا ہے:﴿سَبْعَ سَمَـٰوَ‌ٰتٍ طِبَاقًا﴾اس سے یہ مطلب سمجھنا غلط ہے کہ آسمان کوئی لوہے ،لکڑی ،یاکسی دوسری چیز کا بناہوا ہے جو کو ایک دوسرے پر ترتیب واررکھاگیا ہےکیونکہ ‘‘طبقہ’’کا محسو س چیزکے علاوہ معنوی اورغیر مرئی وغیرہ وغیرہ غیر محسوس چیز پر  بھی اطلاق ہوتا ہے ۔

مثلا کہا جاتا ہے ،مزدورطبقہ ،امیرطبقہ ،یامعاشرتی طبقہ یا سوسائٹی کے طبقات ان تمام الفاظ میں ایک غیر محسوس مرئی چیز بولاگیا ہے جس طرح ظاہر ہے ۔اسی طرح سات آسمانوں کو بھی یوں سمجھو کہ وہ زمین سے اوپر عالم بالاکے سات حصے ہیں۔جو کہ ایک دوسرےکے اوپر ہیں اورایک دوسرے سے کچھ غیرمرئی اورمشاہدہ میں نہ آنے والی حدودکے ساتھ علیحدہ ہیں۔

مثلا جس طرح سمندر کا پانی کڑوا ہے لیکن اس میں بھی چند جزء میٹھے پانی کے ہوتےہیں وہ پانی میں اس طرح ملے ہوئے ہیں کہ ان کے درمیان نظر آنے والی کوئی آڑیاحد نہیں ہے تاہم وہ ایک دوسرے سےعلیحدہ ہیں اسی طرح زمین سے اوپر جولامتناہی اورغیر محدودفضانظرآرہی ہے اس کے بھی سات حصے ہیں جو ایک دوسرے کے اوپرہیں ان کو سات آسمان کہاجاتا ہے جس کی شروع ہونے والی ختم ہونے والی حدود کو اللہ تعالی ہی جانتا ہے اورایک دوسری بات بھی ذہن نشین کرنا ضروری ہےکہ ملاء الاعلی اورجنت وغیرہ ہم سے اوپر عالم بالامیں ہیں۔

گویا ہیں تووہ آسمانوں میں  مگر ہماری نظروں سے مخفی ہیں جس طرح زمین پر اگرچہ فرشتہ ہیں مثلا ہر ایک انسان کے ساتھ دودوفرشتے ہیں جواس کی حفاظت اورنامہ اعمال کو لکھنے کے لیے صبح اورشام کی نمازوں کے وقت تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔پھر اوپر جاکراللہ تعالی کوخبریں دینے والے،جمعہ کے دن مسجد کے دروازوں پر بیٹھ کرآنے والوں کے نام لکھنے والے،مختلف اوقات میں اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل کی خاطر آنے والے مطلب کہ بے شمارفرشتہ زمین پر ہیں مگر ہم ان کو دیکھتے نہیں ہیں۔اسی طرح جنات کا بھی یہاں پر عالم ہے مگر وہ عالم بھی ہماری محسوسات سے ماوراء ہے۔ہم ان سب پرایمان رکھتے ہیں  کہ وہ ہیں مگر ہم ان کو    دیکھ نہیں سکتے۔

اسی طرح عالم بالاکے معاملے کو  سمجھا جائے کہ اس کوبھی ہمارے مشاہدے سے دوررکھاگیا ہے تاکہ ہم اس پر ایمان بالغیب لاسکیں۔اوراس سے آپ کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ قرآن وحدیث میں جو آسمان کے  دروازوں کاذکر آتا ہے اس سے مراد عالم بالاکے وہ دروازےہیں جوہم کتنا بھی اوپرچڑھ جائیں مگر ان کو دیکھ نہیں سکتے ۔کیونکہ وہ ہیں تواگرچہ دورمگروہ بھی غیب کے عالم سے تعلق رکھتے ہیں۔یہی سبب ہے کہ قیامت کے دن یہ غیب غیب نہیں رہے گااورفرشتہ وغیرہ ظاہر ظہورآنکھوں کے سامنے نظر آئیں گے اورآسمان کے دروازے بھی نظر آئیں گے۔

لیکن اس وقت انسانی آنکھوں پر پردہ رکھا گیا ہے تاکہ وہ غیب پرایمان لاسکیں اورمحض اللہ سبحانہ وتعالی اوراس کے  رسولﷺکے ارشادات عالیہ پر یقین کامل رکھ سکیں۔لہذاچونکہ معراج کی رات آپﷺکو ملاءالاعلی کی سیر کروائی گئی۔جنت وجہنم دکھائی گئی انبیاءکرام علیہم السلام سے ملاقات کروائی گئی۔بیت المعموراورسدرۃ  المنتہی اوردوسرےبہت سارے عجائب قدرت کا مشاہد ہ کروایا گیا ۔اس لیے اس بیان میں دروازوں کے کھولنے کاتذکرہ آتا ہےیعنی وہ دروازے کھولے گئے۔جو عالم بالامیں ہماری آنکھوں سے مستورعالم کےدروازے ہیں۔

مطلب یہ کہ آسمان توبرابر سات ہیں مگر وہ سات آسمان دیکھنے میں ایک ہی آسمان نظرآتے ہیں،یعنی وسیع اورغیر متناہی فضا(SPACE)اوردوسرےسات آسمان شرعی وہ ہیں جواس فضا میں ہیں مگرانسانی نظروں سے ان کو مخفی رکھا گیا ہےاوپر جو سورج چاند وغیرہ نظرآرہے ہیں وہ اس کے دروازے نہیں ہیں کیونکہ محسوس اورمرئی چیزیں ہیں ان پر انسانی دسترس ہوسکتی ہے جس طرح تیسرے سوال کے جواب میں عرض رکھوں گابہرحال وہ عام سراسرغیب ہی غیب ہےجس کا اس دنیا میں ماسواءانبیاءکے کسی کو مشاہدہ نہیں کرایاجاتااورہمیں غلطی صرف اس لیے لگی ہے کہ ہم شرعی آسمان اورہم سے اوپر کے عالم بالاکی محسوس چیزوں کوایک ہی سمجھتے  ہیں۔ورنہ اگردونوں کو الگ الگ قراردیا جائےتونہ کوئی شبہ پیدا ہوتا ہے اورنہ  ہی کوئی اعتراض واردہوتا ہے ۔یہ بات ہرکوئی سمجھ سکتا ہے یہ تمام چیزیں جواوپر اورنیچے نظرآتی ہیں ان کا تعلق دنیا سے ہے یہی وجہ ہے کہ سورج ،چاند اورستاروں کو زمین کی روشنی اورانسانوں کی رہنمائی کا ذریعہ بنایاگیا ہے۔

جس طرح قرآن کریم میں ہے:

﴿وَبِٱلنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ﴾ (النحل:١٦)

’’اورستاروں سے بھی لوگ راہ حاصل کرتے ہیں۔‘‘

پھر جو چیزں انسان کی نظر اورمشاہدے میں آتی ہیں وہ غیب کی چیزیں نہیں ہیں کیونکہ غیب کی چیزوں تک انسانی دسترس حاصل نہیں۔

خلاصہ کلام!ان محسوسات اورکائنات کے مشاہدہ میں آنے والی چیزیں اورغیب کی چیزوں میں فرق کرنا ضروری ہے۔(پھرچاہے وہ زمین  پر   ہوں یا عالم بالامیں ہو)محسوسات کو غیب کی چیزوں سے متحد ومتفق قراردیاجائے گاتوکوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔خود لفظ محسوس اورغیب آپس میں مخالف ہیں۔محسوس کو حواس خمسہ(Fivefuisas)سے محسوس کیاجاسکتاہے۔لیکن غیب کی چیزوں کو محسوس کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہےیہاں کسی کو اگر اللہ تعالی اس پر مطلع کردے توالگ بات ہے ورنہ ہمارے پاس اس کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ بس یہی فرق اگرسمجھ میں آجائے توتمام اعتراض ختم ہوجائیں گے۔مختصر الفاظ میں یوں سمجھیں کہ عالم بالامیں جو ہمیں سورج ،چاند اوربہت ساری عجیب چیزیں نظرآتی ہیں وہ ملاءالاعلی نہیں ہیں اورنہ ہی وہ آنکھوں سے مستورعالم بالاحصے ہیں جن کے دروازے معراج کی رات کھولے گئےتھے بس یہی وہ چیز ہے جس کو ذہن نشین کرنے کی ضروت ہے جس پر غوروفکر کرنے سے کافی مشکلات ان شاءاللہ کم ہوجائیں گی۔

اس کے متعلق مزید وضاحت تیسرے سوال کے جواب میں عرض رکھوں گا تاہم ان باتوں کو خوب ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ آنے والے سوالات کے جوابات کو سمجھنے میں آسانی ہوسکے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ راشدیہ

صفحہ نمبر 102

محدث فتویٰ

تبصرے