سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(12)کیا زمین گھومتی ہے

  • 14797
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 5531

سوال

(12)کیا زمین گھومتی ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سائنس کہتی ہے زمین چلتی ہےسورج اورچاندایک جگہ کھڑے ہیں چلتے نہیں ہیں جس طرح ریل گاڑی (ٹرین)میں سفرکرتےہوئےنظرآتاہےکہ درخت اوردوسری نظر آنے والی چیزیں چل رہی ہوتی ہیں حالانکہ وہ ایک جگہ کھڑے ہوتے ہیں چلتی ٹرین ہےبعینہ اسی طرح چلتی زمین ہے اوردیکھنے میں یوں آتا ہے کہ سورج اورچاندچل رہے ہیں۔

حالانکہ قرآن کریم میں ہے چاند اورسورج اپنے مستقرکی طرف چلتے ہیں اورپہاڑوں کو اللہ نےزمین کی میخیں بنایاہے۔اب یہاں پر قرآن اورسائنس کا ٹکراوہےلہذا اس کی وضاحت کی جائے؟اوراس بات کی بھی وضاحت کی جائے کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کاتخت جوہوا میں چلتا تھاوہ بھی سائنس کا کرشمہ تھانہ کہ معجزہ اوراسی طرح نبی کریمﷺکامعراج بھی ایک سائنس کا کرشمہ تھا اس کے متعلق واضح بیان کریں کہ واقعی یہ واقعات معجزات میں سے تھے یا سائنس کا کوئی کرشمہ تھا۔اطمینان بخش جواب مطلوب ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وباللہ التوفیق وبیدہ ازمۃ التحقیق کہ زمین کے متعلق سائنسدانوں کا یہ کہنا کہ زمین چلتی ہےاس کے متعلق انہوں نے کوئی واضح اورٹھوس ثبوت ابھی تک پیش نہیں کیا ہے اوراگر دلیل مل بھی جائے اورماناجائے کہ زمین چلتی ہے تویہ بات قرآن وحدیث کے برخلاف نہیں ہوگی کیونکہ کتاب وسنت میں اس طرح کہیں بھی نہیں ہے کہ زمین ساکن ہے۔دونوں ماخذاس کے متعلق خاموش ہیں تو پھر اگرسائنس نے کوئی چیزثابت کی تو اس سے اسلام یاقرآن وحدیث کو کون سا نقصان پہنچے گا؟باقی رہی یہ بات کہ سائنس دان کہتے  ہیں کہ سورج چاندنہیں چلتے تویہ خبر تم نے کسی جاہل سے سنی ہوگی قدیم خواہ جدید سائنسدان چاند کے چلنے کے انکاری نہیں ہیں بلکہ ایک معمولی جاگرافی دان بھی جانتاہے کہ چاند زمین کے چاروں طرف (ان کے کہنے کہ مطابق)چلتا ہے ۔لہذا یہ بات قابل سماعت نہیں ہے البتہ سورج کے متعلق پہلے سائنسٹ چلنے کے انکاری تھے لیکن اس ٢۰ویں صدی کے سائنسدان توسورج کے متعلق بھی جانتے ہیں کہ وہ چلتا ہے لیکن اپنے اردگرداوراپنے ہی مدارمیں۔اورپھر زمین چاند کے اردگردچلتی ہےآپ کسی اچھے سائنسدان سے معلوم کریں تووہ بھی  اسی بات کا اقرارکرے گاجو قرآن حکیم نے فرمائی ہے۔یعنی اپنے مستقرکی طرف چلتا رہتا ہے یعنی اس آخری نقطے کی طرف جب وہاں پہنچے گاتواس کی حرکت ختم ہوجائے گی اوروہ فنا ہوجائے گاآخراس میں سائنس اورقرآن کو کون ساٹکراوہے؟

اگربالفرض سائنس والے سورج کی حرکت کے منکر ہی ہیں تو کیا حرج ہوگا،جو لوگ گرگٹ کی طرح بارباررنگ بدلتے رہتے ہیں ان کی بات کو کیا اصدق القائلین،علیم،خبیراورعالم الغیب والشہادۃ کی بتائی ہوئی حقیقت کے مقابلے میں پیش کیا جاسکتا ہے؟یہ طرز عمل عقل کا دیوالہ نہیں ہے؟ کتاب اللہ کی بتائی ہوئی حقیقت سوفیصد سچ ہے۔باقی دنیا والوں کی باتیں توہردوسری تیسری سال بدلتی رہتی ہیں۔

ایسے متبدل اومتغیرنظریہ کو کتاب اللہ جیسی مضبوط اورحق کتاب کے مقابلہ میں وہی پیش کرسکتا ہے جویا توبےعقل ہویا حلاوت ایمان سے عاری ہو۔بہر حال قرآن کریم کی صداقت ایک ثابت شدہ اورطے شدہ حقیقت ہے جس کی حقیقت کو دنیا کی کوئی ہستی ردنہیں کرسکتی اس کےہوتے ہوئے بھی سائنس اس معاملہ میں مخالف ہی ہیں توسوال کس چیز کا؟باقی رہی بات پہاڑوں کو میخیں بنانے والی تووہ اس طرح ہے جس طرح کشتی کوکیلوں سےمضبوط کیا گیا ہے اوروہ عمیق پانی کے دریاوں اورسمندروں میں چلتی رہتی ہے ،پھر اگر کوئی کہے کہ بڑی بڑی کیلوں کوکشتی کے لیے میخیں بنایا گیا ہے توکیا اس کا یہ مطلب ہوگاکہ کشتی پانی میں کھڑی ہے ؟ہرگز نہیں!بعینہ اسی طرح زمین بھی غیر متناہی فضامیں اللہ تعالی کی قدرت سے لٹکی ہوئی ہے جس طرح اس آیت میں اس کی طرف اشارہ ہے۔

﴿إِنَّ ٱللَّهَ يُمْسِكُ ٱلسَّمَـٰوَ‌ٰتِ وَٱلْأَرْ‌ضَ أَن تَزُولَا﴾ (فاطر:٤١)

’’بے شک اللہ تعالی نے آسمانوں اورزمینوں کو تھاماہواہے کہ وہ ادھر اورادھرنہ ہوجائیں۔‘‘

باقی اس پر پہاڑزمین کے مختلف اوراق اورطبقات کے لیے کیل کی طرح ہیں یا یوں کہیں کہ جس طرح کشتی خالی ہوجاتی ہے تواوپر نیچے ہوتی رہتی ہے پھر جب اس کے اوپر وزن رکھا جائے گاتووہ کافی متوازن ہوجائے گی اورطوفانی حالت کے علاوہ میں اتنا اوپر نیچے نہیں ہوگی اسی طرح  یہ پہاڑ بھی رب کریم نے زمین پروزن کے طورپر رکھیں ہیں تاکہ اس کی  حرکت متوازن رہے ۔(سائنسدانوں کے کہنے کے موجب)سائنس کے مطابق زمین کشش ثقل کی وجہ سے سورج کے چاروں طرف گھومتی ہے یہ بھی قدرت کی طرف سے ایک انتظام ہے تاکہ پہاڑوں کے بوجھ تلے متوازن رہے اورکشش ثقل کی وجہ سے سورج کی طرف کھینچ کر پاش پاش نہ ہوجائے۔

اس کی مثال سومنات کے مندر والے بت کی ہے کہ جب سلطان محمودغزنوی رحمۃ اللہ علیہ نےوہاں پر ایک جگہ بت دیکھاجو بغیر رسی اورکنڈی کے اپنی جگہ کھڑا تھا۔پھر کسی جاننے والے نےان کو بتایا کہ اس بت کے چاروں طرف اوپر نیچے مقناطیسی سسٹم ہے  جس کی کشش چاروں طرف برابر ہے۔ لہذا یہی وجہ ہے کہ بغیر کسی سپورٹ کے بیچ میں لٹکا ہوا ہے اس کاثبوت یہ کہ جب اس کی ایک سائیڈ والی دیوارکو گرایاگیا تو وہ بت جاکردوسری طرف گراکیونکہ کشش اب غیر متوازن ہوگئی بس اسی طرح ذہن نشین کریں کہ زمین کو سورج کشش کررہا ہے لیکن وہ پہاڑ کے بوجھ کے تلے اپنے ہی مدارپر چلتی رہتی ہے اوراس طرح نہیں ہوتا کہ اس مدارسے نکل کراورجاکر سورج سے ٹکرائے بلکہ ایک مقررفاصلہ پر سورج کے اردگردچلتی رہتی ہے اوراس مقررہ مدارسےایک انچ بھی آگے نہیں بڑھتی اس حقیقت کو میخوں سے تعبیر کیاگیا ہے۔

جواپنی کم فہمی کی وجہ سے اس پر اعتراض کیا جاتا ہے ۔استعارہ اورمجاز ہر زبان میں استعمال کیا جاتا ےہے مثلا کہا جاتا ہے کہ فلاں اپنی بات پر پہاڑ بن کرکھڑا ہے۔اس کا مطلب یہی ہے کہ جس طرح پہاڑ مضبوط کھڑا ہے اسی طرح فلاں آدمی اپنی بات یا مئوقف پرمضبوطی سے ڈٹا ہوا ہے اوراس محاورہ پر کوئی معترض نہیں ہے پھر قرآن کریم پر اعتراض کرتےہوئے ان کو شرم نہیں آتی آخرقرآن کریم بھی اگرچہ اللہ تعالی کا کلام ہے لیکن ہے تو اسی زبان  میں جس میں انسان بات کرتے ہیں۔

لہذا اس کو بھی وہ محاورات اورہی زبان استعمال کرنی تھی جو زبان مروجہ تھی اس لیےمیخوں والے محاورے میں بھی کوئی قباحت نہیں۔اعتراض محض غفلت اورعجلت کے سبب ہے جس طرح سندھی میں کہاوت ہے۔

’’تکڑ کم شیطان جو‘‘ یعنی عجلت(جلدبازی)شیطان کی طرف سے ہے۔

اورکچھ پڑھے لکھے آدمیوں کو یہ اعتراض کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا تخت سائنس کا کرشمہ تھایہ واضح قرآن کی  تکذیب ہے۔یقینا سائنس نے بڑے کرشمہ کر دکھائے ہیں لیکن سلیمان علیہ السلام کے دورمیں سائنس کا کوئی وجود نہیں تھا،یہ محض معجزہ ہی تھا اللہ تعالی اپنے نبی کی ہدایت کے لیے ان کو عطاکیا تھا۔معجزہ نام ہی اسی چیز کا ہے جوبنااسباب عادیہ وجود میں آئے۔مثلا آج کل لوگ ہوائی جہاز کی وجہ سے فضا میں سفر کررہے ہیں لیکن سلیمان علیہ السلام کامعجزہ اس طرح نہیں تھا بلکہ وہ خاص معجزہ تھا۔جو اللہ تعالی کی طرف سے ان کو عطا کیا گیا۔

کیونکہ اس وقت نہ ہوائی  جہاز تھا اورنہ ہی سائنس کا ہنر اورسائنس کی ایجادات ۔لہذا بغیراسباب کے اللہ تبارک وتعالی کی قدرت سے وجود میں آنے والاکام معجزہ ہوتا ہے۔

دوسری مثال مثلا انسان کے نطفے سے اولاد پیدا ہوتی رہتی ہے لیکن ا س کو کوئی معجزہ نہیں کہتایعنی اولاد پیدا ہوتے وقت کوئی یہ نہیں کہتا کہ میں نے یہ بیٹا اپنے کرشمہ  سے پیدا کیا ہے کیونکہ اس طرح اولاد کا پیدا ہونا اسباب کے ماتحت ہے جو اللہ تبارک وتعالی نے پیدا کردیئے ہیں۔

تاہم اگر اللہ کی مرضی نہ ہوگی تواولاد بھی پیدا نہیں ہوگی لیکن اُدھر اللہ تعالی نے حضرت عیسی علیہ السلام کو بغیر والد کے پید اکیا ان کا یہ تولد مبارک بنا اسباب کے معجزہ تھا اوریہ محض اللہ تبارک وتعالی کی قدرت سے ہوا نہ کہ کسی سبب یا ہنر یا سائنس کی زورپر بس اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے بھی اللہ تعالی نے محض اپنی قدرت کا ملہ سے ہوا کوان کے تابع کردیا جس کی وجہ سے ان کا تخت اس میں چلتا تھااسی طرح رسول اللہﷺکا معراج بھی رب کریم کی قدرت کی ایک نشانی تھی بذات خود کسی کے بس کی بات نہیں کہ وہ اتنی بلندی پرپہنچ سکےلیکن یہ کام مالک الملک کا تھا جو قادرمطلق ہے۔‘‘إنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِير’’

لہذا یہ بھی معجزہ تھا ۔ان باتوں کو سائنس کا کرشمہ قراردینے والے گمراہی کے عمیق کھائی میں گررہے ہیں۔اللہ تعالی سب مسلمانوں کو ہدایت نصیب فرمائیں۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ راشدیہ

صفحہ نمبر 97

محدث فتویٰ

تبصرے