ایک شخص بہت زیادہ چوری کرتا تھا۔ کئی لوگوں کا چارہ کاٹا اور کئی لوگوں کا پانی وغیرہ بھی توڑا، بہت سے دوکانداروں سے چیزیں لے کر ان کی قیمت بھی ادا نہ کی اس کے علاوہ کئی لوگوں کا مال ناحق غصب کیا۔ اب وہ توبہ کر چکا ہے کیا ایسے شخص پر کوئی کفارہ ہے؟ اگر اس کے پاس کچھ مال بھی ہے اور جن کی چوری ہوئی ہے، ان کا علم بھی نہیں، مالک تک پہنچنا ناممکن ہے تو اسے کہاں صرف کرے۔
قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ بندے کے لئے توبہ کادروازہ مسلسل کھلا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قوبل کرتا ہے۔فرمایا:
''(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کہہ دو کہ اے میرے بندوں! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے ، اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جائو۔ یقینا اللہ تعالیٰ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے ۔ بے شک وہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔''(الزمر :۵۳)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''جس نے سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے پہلے توبہ کر لی ، اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے۔'' (رواہ مسلم)
دوسری حدیث میں ہے:
''اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک اس کی روح حلقوم تک نہیں پہنچ جاتی۔'' (الترمذی وقال حسن)
ان دلائل سے یہ واضح ہو گیا کہ توبہ کا دروازہ ہر شخص کے لئے کھلا ہے ایسا شخص اگر صدق دل سے توبہ کر لے اور حق داروں کو ان کا حق پہنچانا اس کے لئے ممکن نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دے گا کیونکہ یہ اس کی طاقت میں ہی نہیں
﴿لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ... ٢٨٦﴾...البقرة ''اللہ کسی کو اس کی استطاعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا'' اس کے علاوہ اس کی دلیل بخاری شریف کی حدیث بھی ہے:
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے سو قتل کرنے والے کو اللہ تعالیٰ نے حقوق العباد کے اتنے بڑے جرم کو صرف توبہ صادقہ کی وجہ سے معاف کر دیا ہے تو ایسا شخص جس کا جرم اس سے کم ہے، اللہ تعالیٰ اس کی بھی توبہ قبول کر سکتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امید نہیں ہونا چاہیے۔ ایسے شخص کو دنیا میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کر لینی چاہیں۔ خصوصاً صدقہ زیادہ کرنا چاہیے تا کہ گزشتہ گناہوں کی کچھ نہ کچھ تلافی ہو جائے ۔