سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(181) قوالی اور عرسوں کا کھانا

  • 14779
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 3429

سوال

(181) قوالی اور عرسوں کا کھانا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اسلام میں قوالی کی کیا اہمیت ہے ؟ آج کل لوگ اسے عبادت سمجھ کر سنتے ہیں بلکہ بڑے بڑے عرسوں اور میلوں پر اسپیشل قوال بلائے جاتے ہیں اور وہ سر ، ساز کے ساتھ قوالیاں گاتے ہیں۔ قرآن و سنت کی رو سے اس کی وضاحت فرمائیں۔ نیز یہ بھی بتائیں کہ ان میلوں پر جو دیگیں پکا کر تقسیم کی جاتی ہیں ، ان کا طعام و نذر کھانی جائز و درست ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

موجودہ دور میں قوالی کا سلسلہ بہت وسیع ہوتا جا رہا ہے اکثر گاڑیوں ، بسوں وغیرہ میں صبح ہوتے ہی ڈرائیور حضرات قوالی کا سماع کرتے ہیں۔ بعض دفعہ یوں بھی ہوا کہ اگر کوئی ڈرائیور گاڑی چلاتے وقت گانے لگا دے اور اس کو منع کیاء جائے تو وہ گانوں کی کیسٹ بند کر کے قوالی لگا دیتے ہیں۔ جب اس سے روکا جائے تو کہتے ہیں مولوی صاحب  ہم نے گانے تو بند کر دیئے ہیں یہ تو قوالی ہے جو اسلام میں جائز ہے۔ حالانکہ قوالی گانے سے بھی بڑھ کر جرم ہے۔ اولاً اس لئے کہ قوالیوں میں شرکیہ باتیں بہت زیادہ ہوتی ہیں پیروں اور فقیروں کے متعلق ایسی ایسی لغو باتیں بیان کی جاتی ہیں جو سراسر شریعت اسلامیہ سے متصادم اور روح اسلام کے خلاف ہوتی ہیں اور اللہ وحدہ لا شریک کے ساتھ مخلوق کو برابر سمجھنا سب سے بڑا گناہ ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں رسول مکرم   صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

(( أكبر الكبائر الإشراك بالله.))( كتاب المرتدين وغيره)

            ''تمام کبیرہ گناہوں سے بڑا گناہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک ہے۔''(کتاب المریدین وغیرہ)

            ثانیاً، ان تمام قوالیوں میں ڈھول ، سارنگی، مزامیر اور آلاتِ لہو و لعب وغیرہ بجائے جاتے ہیں جو شرعاً بالکل حرام ہیں۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَـٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ ﴿٦﴾ وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِ آيَاتُنَا وَلَّىٰ مُسْتَكْبِرًا كَأَن لَّمْ يَسْمَعْهَا كَأَنَّ فِي أُذُنَيْهِ وَقْرًا ۖ فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٧﴾...لقمان

            ''اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو گانے بجانے کے آلات خریدتے ہیں۔ اس لئے کہ سمجھ بوجھ کے بغیر اللہ تعالیٰ کی راہ سے (لوگوں کو) بہکا دیں۔ اور اس کو ہنسی مذاق بنادیں۔ ایسے لوگوں کے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہو گا۔ اور جب (ان لوگوں میں سے )کسی کو ہماری آیتیں سنائی جاتی ہیں تو وہ اکڑتا ہوا پیٹھ موڑ کر چل دیتا ہے ۔ گویا اس نے اس کو سناہی نہیں۔ گویا کہ اس کے دونوں کانوں میں بوجھ ہے ۔ ایسے شخص کو دردناک عذاب کی بشارت دے دیجئے۔''(لقمان ۶'۷)

            سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ اس آیت کریمہ میں (لھو الحدیث)سے کیا مراد ہے؟ تو انہوں نے فرمایا:

(( ألغناء و الله لا إله إلا هو يرددها ثلاث مرات.))

            ''اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اس سے مراد گانا ہے۔ آپ نے اس بات کو تین مرتبہ دہرایا۔''  (تفسیر ابنِ کثیر ۴۸۶/۳)

            یہی تفسیر سیدنا عبداللہ بن عباس ، جابر ، عکرمہ رضی اللہ عنہم ، سعید بن جبیر ، مجاہد مکحول، عمرو بن شعیب اور علی بن ہذیمہ رحمة اللہ علیہم سے مروی ہے۔  (ملاحظہ ہو تفسیر ابنِ کثیر)

            امام حسن بصری رحمة اللہ علیہ نے فرمایا:

(( نزلت هذه الأية – فى الغناء المزامير.))

            ''یہ آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ گانا بجانا اور اس کے آلات خریدنا بالکل ناجائز اور حرام ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی راہ سے گمراہی کا باعث ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ جو لوگ گانے بجانے اور ان کے آلات خریدتے ہیں اور سنتے ہین ، ان پر اگر اللہ تعالیٰ کا قرآن پڑھا جائے تو وہ اس سے اعراض کرتے اور منہ موڑتے ہیں اور ایسے کردار کا مظاہرہ کرتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن انہوں نے سنا ہی نہیں۔ بعینہ یہی کیفیت اکثر آج کل گاڑیوں کے ڈرائیوروں میں پائی جاتی ہے ۔ اگر انہوں نے تلاوت کی کیسٹ لگانے کے لئے کہا جائے تو طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں اور اگر گانے بجانے اور قوالی کی کیسٹ کے متعلق کہیں تو فوراً لگا لیتے ہیں۔ گویا کلام باری تعالیٰ سے چڑ اور شیطانی عمل سے محبت ہے۔ باجوں اور آلاتِ لہو و لعب کے متعلق رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:

(( ليكونن فى أمتى  أقوام يستحلون الحر و الحرير و الخمر و المعازف.))

            ''ضرور میری اُمت میں ایسے لوگ ہوں گے جو عورتوں کی شرمگاہ ، ریشمی کپڑے اور شراب اور باجے حلال ٹھہرائیں گے۔''  (ملاحظہ ہو صحیح بخاری وغیرہ)

            اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس طرح زنا و شراب حرام ہیں اسی طرح باجے گاجے بھی حرام ہیں ۔ اس مسئلہ کی تفصیل میں جائے بغیر بریلوی حضرات کے امام مولوی احمد رضا خان بریلوی کے ایک فتوے کے اقتبا سات پیش کرتا ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ اپنے امام کے فتوے کو پڑھ کر ہی راہِ راست پر آجائیں۔ احمد رضا خان کی کتاب احکام شریعت ص۶۰ حصہ اوّل پر ایک سائل کا سوال یوں درج ہے:

            کہ آج میں جس وقت آپ سے رخصت ہوا اور واسطے نماز مغرب کے مسجد میں گیا، بعد نماز مغرب میرے ایک دوست نے کہا کہ چلو ایک جگہ عرس ہے، میں چلا گیا۔ وہاں جا کر کیا دیکھتا ہوں۔ بہت سے لوگ جمع ہیں اور قوالی اس طریقے سے ہو رہی ہے کہ ایک ڈھول دو سارنگی بج رہی ہیں اور چند قوال پیران پیر دستگیر کی شان میں اشعار کہہ رہے ہیں اور رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کی نعت کے اشعار اور اولیاء اللہ کی شان میں اشعار گا رہے ہیں اور ڈھول سارنگیاں بج رہی ہیں ۔ یہ باجے شریعت میں قطعی حرام ہیں کیا اس فعل سے رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  اور اولیاء اللہ خوش ہوتے ہوں گے؟ اور یہ حاضرین جلسہ گناہ گار ہوئے یا نہیں اور ایسی قوالی جائز ہے یا نہیں اور اگر جائز ہے تو کس طرح؟

            احمد رضا خان اس سائل کا جواب یوں تحریر کرتے ہیں:

            الجواب:  ایسی قوالی حرام ہے ۔ حاضرین سب گناہگار ہیں اور ان سب کا گناہ ایسا عرس کرنے والوں اور قوالوں پر ہے اور قوالوں کا بھی گناہ اس عرس کرنے والے پر،بغیر اس کے کہ عرس کرنے والے کے ماتھے قوالوں کا گناہ جانے سے قوالوں پر گناہ کی کچھ کمی آئے یا اس کے اور قوالوں کے ذمہ حاضرین کا وبال پڑنے سے حاضرین کے گناہ میں کچھ کمی تخفیف ہو نہیں بلکہ حاضری میں ہر ایک پر اپنا پورا گناہ اور قوالوں پر اپنا گناہ الگ اور سب حاضرین کے برابر جدا اور ایسا عرس کرنے والے پر اپنا گناہ الگ اور قوالوں کے برابر جدا اور سب حاضرین کے برابر علیحدہ۔ وجہ یہ کہ حاضرین کو عرس کرنے والے نے بلایا ان کے لئے اس گناہ کا سامان پھیلایا اور قوالوں نے انہیں سنایا۔ اگر وہ سامان نہ کرتا، یہ ڈھول سارنگی نہ سناتے تو حاضرین اس گناہ میں کیوں پڑتے۔ اس لئے ان سب کا گناہ ان دونوں پر ہوا۔ پھر قوالوں کے اس گناہ کا باعث وہ عرس کرنے والا ہوا۔ وہ نہ کرتا نہ بلاتا تو یہ کیونکر آتے بجاتے۔ لہٰذا قوالوں کا بھی گناہ اس بلانے والے پر ہوا۔

اس کے بعد آگے ص۶۴،۶۵ پر رقم طراز ہیں:

            سید الاولیاء شریف میں ہے ایک آدمی نے سلطان المشائد کی خدمت میں عرض کیا کہ ان ایام میں بعض آستانہ دار درویشوں نے ایسے مجمع میں جہاں چنگ و رباب اور دیگر مزامیر تھے رقص کیا، فرمایا انہوں نے اچھا کام نہیں کیا۔ جو چیز شرع میں ناجائز ہے، ناپسندیدہ ہے، اس کے بعد ایک نے کہا جب یہ جماعت اس مقام سے باہر آئی لوگوں نے ان سے کہا، تم نے یہ کیا کیا۔ وہاں تو مزامیر تھے۔ تم نے سماع کس طرح سنا اور رقص کیا۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہم اس طرح سماع میں مستغرق تھے کہ ہمیں معلوم ہی نہیں ہوا کہ یہاں مزامیر ہیں یا نہیں۔ سلطان المشائخ نے فرمایایہ جواب کچھ نہیں۔ اس طرح تو تمام گناہوں کے متعلق کہہ سکتے ہیں۔

            مسلمانوں!کیسا صاف ارشاد ہے کہ مزامیر ناجائز ہیں اور اس عذر کا کہ ہمیں استغراق کے باعث مزامیر کی خبر نہ ہوئی ، کیا مسکت جواب عطا فرمایا کہ ایسا حیلہ ہر گناہ میں چل سکتا ہے۔ شراب پئے اور کہہ دے شدت استغراق کے باعث ہمیں خبر نہ ہوئی کہ شراب ہے یا پانی، زنا کرے اور کہہ دے کہ غلبہ حال کے سبب ہمیں تمیز نہ ہوئی کہ جروا ہے یا بیگانی۔

            مولوی احمد رضا خان کی مذکورہ بالا عبارت سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ قوالی سننا، سنانا، عرسوں اور میلوں پر اس کا انعقاد کروانا حرام و ناجائز ہے۔ کیونکہ اس میں گانے بجانے کے آلات ڈھول ، سارنگی وغیرہ بجائے جاتے ہیں جن کی شریعت اسلامیہ میں قطعاً کوئی گنجائش نہیں ۔

            ہاں اگر ایسے اشعار ہوں جو کتاب و سنت کے مطابق ہوں اور مذکورہ خرابیوں سے پاک ہوں تو انہیں پڑھنا جائز و درست ہے جیسا کہ سیدنا احسان رضی اللہ عنہ شاعر رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  اشعار کہا کرتے تھے۔ باقی رہا اہل قبور کے لئے نذر و منت کی پکائی ہوئی دیگیں یا مردوں پر چرھائے ہوئے چڑھاوے تو یاد رہے کہ سنن ابو دؤود میں حدیث ہے:

(( عن  ثَابِتُ بْنُ الضَّحَّاكِ، قَالَ: نَذَرَ رَجُلٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَةَ فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنِّي نَذَرْتُ أَنْ أَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَةَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَلْ كَانَ فِيهَا وَثَنٌ مِنْ أَوْثَانِ الْجَاهِلِيَّةِ يُعْبَدُ؟» قَالُوا: لَا، قَالَ: «هَلْ كَانَ فِيهَا عِيدٌ مِنْ أَعْيَادِهِمْ؟»، قَالُوا: لَا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَوْفِ بِنَذْرِكَ، فَإِنَّهُ لَا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ، وَلَا فِيمَا لَا يَمْلِكُ ابْنُ آدَمَ.))

            ''ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، ایک شخص نے (زمانہ جاہلیت میں) نذر مانی تھی کہ بوانہ مقام میں اونٹ ذبح کروں گا۔ اس نے رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  سے پوچھا، آپ   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا وہاں جاہلیت میں کسی بت کی پرستش ہوتی تھی؟ لوگوں نے جواب دیا نہیں۔ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے پھر فرمایاوہاں تہوار یا میلہ لگتا تھا؟ انہوں نے کہا نہیں۔ پھر آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا اپنی نذر پوری کر۔ بلاشبہ جو نذر اللہ جل و علا کی نافرمانی میں ہو، وہ پوری نہیں کی جائے گی اور نہ اس نذر کا پورا کرنا انسان پر واجب ہے جو اس کی وسعت سے باہر ہے۔''

            اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نذر و نیاز اللہ کے نام کی دینی چاہیے۔ دوسری بات کہ کسی ایسی جگہ پر اللہ کے نام کی نذر پورا کرنا جائز نہیں جہاں کسی صنم کی پوجا کی جاتی رہی ہو اگرچہ وہ اب باقی نہ رہا ہو۔''

            اسی طرح وہاں بھی اللہ کے نام کی نذر پوری نہیں کی جائے گی جہاں اہل کفر و شرک کا کوئی میلہ یا تہوار منایا جاتا ہو۔ لہٰذا ایسے مقامات جہاں عرس و میلے لگائے جاتے ہیں۔ وہاں پر اللہ کے نام کی نذر و نیاز دینا یا کھانا بھی درست نہیں ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

تبصرے