سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(165) مصافحہ ایک ہاتھ سے یا دونوں ہاتھوں سے؟

  • 14765
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2077

سوال

(165) مصافحہ ایک ہاتھ سے یا دونوں ہاتھوں سے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں رواج ہے کہ لوگ ملاقات کے وقت دو ہاتھ سے مصافحہ کرتے ہیں۔ ہمیں ایک دوست نے بتایا کہ مصافحہ ایک ہاتھ سے کرنا چاہیے یہی سنت ہے۔ لہٰذا آپ ہماری کتاب و سنت کی ر و سے راہنمائی کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایک مسلمان جب دوسرے مسلمان سے ملاقات کرے تو ان دونوں کو آپس میں دائیں ہاتھ سے مصافحہ کرنا چاہیے اس سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ حدیث میں ہے:

((عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا مِنْ مُسْلِمَيْنِ يَلْتَقِيَانِ فَيَتَصَافَحَانِ، إِلَّا غُفِرَ لَهُمَا قَبْلَ أَنْ يَتَفَرَّقَا.))

''براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے کہا، رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب دو مسلمان آپس میں ملتے ہیں ، مصافحہ کرتے ہیں تو جدا ہونے سے قبل ان کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔''  (ابنِ ماجہ۱۲۲۰/۲(۳۷۰۳)، ترمذی(۲۷۲۷)ابو داؤد۳۵۴/۴(۵۲۱۲)، مسند احمد ۴/۲۸۹،۳۰۳)

لہٰذا جو عمل اتنی اہمیت کا حامل ہو اور اتنے فضائل والا ہو، اس کو صحیح سنت کے مطابق ادا کریں گے تو یہ اجر ملے گا۔ اگر خلاف سنت عمل کریں گے تو اجر برباد ہو گا۔ مصافحہ کا مسنون طریقہ یہی ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان سے ملاقات کرتے وقت دائیں ہاتھ کے ساتھ مصافحہ کرے۔ نبی اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہی معمول تھا۔ اس ضمن میں بہت سی احادیث ہیں چند ایک ملاحظہ فرمائیں:

((عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: لَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا جُنُبٌ، فَأَخَذَ بِيَدِي، فَمَشَيْتُ مَعَهُ حَتَّى قَعَدَ، فَانْسَلَلْتُ.))

 ''ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے میرے ساتھ ملاقات کی اور میں جنبی تھا۔ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے میرا ہاتھ پکڑا (ایک نسخہ میں ہے کہ میرا دایاں ہاتھ پکڑا) پھر میں آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ چلا یہاں تک کہ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  بیٹھ گئے پس میں کھسک گیا۔''  (الحدیث بخاری۱/۴۲)

 ۲)        امام طحاوی نے شرح معانی الاثار۱۶/۱ پر یہ الفاظ ذکر کئے ہیں:

((  لقيت النبى  صلى الله عليه وسلم  و أنا  جنب فمد يده إلى  فقبضت  يدى عنه  وقلت  إنى  جنب فقال  سبحان الله  إن المسلم لا بنجس.))

 ''میں نے نبی اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم  سے حالتِ جنابت میں ملاقات کی۔ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے میری طرف اپنا ہاتھ بڑھایا۔ میں نے اپنا ہاتھ سمیٹ لیا اور کہا میں جنبی ہوں ۔ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا (سبحان اللہ) مسلم نجس نہیں ہوتا۔''

 یہ حدیث ایک ہاتھ کے مصافحہ پر نص قطعی ہے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے ملاقات کے وقت مصافحہ کے لئے اپنا ایک ہاتھ آگے بڑھایا اور صحابی رسول سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی اپنا ایک ہاتھ جو مصافحہ کے لئے بڑھانا تھا پیچھے کھینچا اور عذر پیش کیا کہ میں جنبی ہوں آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا سبحان اللہ مسلم نجس نہیں ہوتا۔

(( عن عبد الله بن بسر يقول ترون كفى هذا فأشهد  غنى  وضعتها  على كف محمد  صلى الله عليه وسلم .))

  ''عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں تم لوگ میری اس ہتھیلی کو دیکھتے ہو میں نے اس ہتھیلی کو محمد   صلی اللہ علیہ وسلم  کی ہتھیلی پر رکھا ہے۔''مسند احمد۴/۸۹، موارد الظلمآن (۹۴۰)

((عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ الرَّجُلُ مِنَّا يَلْقَى أَخَاهُ أَوْ صَدِيقَهُ أَيَنْحَنِي لَهُ؟ قَالَ: «لَا»، قَالَ: أَفَيَلْتَزِمُهُ وَيُقَبِّلُهُ؟ قَالَ: «لَا»، قَالَ: أَفَيَأْخُذُ بِيَدِهِ وَيُصَافِحُهُ؟ قَالَ: «نَعَمْ»: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ»))

''انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے اللہ کے رسول   صلی اللہ علیہ وسلم  ہم میں سے کوئی آدمی اپنے بھائی یا دوست سے ملاقات کرے ۔ کیا س کے لئے جھکے؟ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا! نہیں۔ اس نے کہا ، کیا اس سے چمٹ جائے؟ اور اس کو بوسہ دے؟ فرمایا نہیں پھر اُس نے کہا، کیا اس کا ہاتھ پکڑے اور مصافحہ کرے؟ فرمایا! ہاں۔ امام ترمذی نے فرمایا، یہ حدیث حسن ہے۔''   (ترمذی ۷۰/۵(۲۷۲۸)، ابن ماجہ۱۲۲۰/۲(۳۷۰۲)

علامہ البانی نے متعدد طرق کی بنا پر اس حدیث کو سلسلة الادیث الصحیحہ ٨٨١ پر درج کیا ہے۔ تا ہم حدیث سے معانقے کی ممانعت نہیں نکلتی جو کہ چمٹ کر ملنے سے مختلف ہے۔

((عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ نَبِيِّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَا مِنْ مُسْلِمَيْنِ الْتَقَيَا، فَأَخَذَ أَحَدُهُمَا بِيَدِ صَاحِبِهِ، إِلَّا كَانَ حَقًّا عَلَى اللهِ أَنْ يَحْضُرَ دُعَاءَهُمَا، وَلَا يُفَرِّقَ بَيْنَ أَيْدِيهِمَا حَتَّى يَغْفِرَ لَهُمَا.))

 ''انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جب دو مسلمان آپس میں ملتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنے ساتھی کا ہاتھ پکڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ ان کی دعائوں میں موجود رہے اور ان کے ہاتھ علیحدہ ہونے سے پہلے ان کو ۔۔۔بخش دے۔''       (مسند احمد۱۴۲/۳، کشف الاستارص۴۱۹)

  مذکورہ بالا پانچ احادیث سے معلوم ہوا کہ مصافحہ ایک ہاتھ کے ساتھ کرنا سنت ہے ۔ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  اسی کی تعلیم دیتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اسی سنت پر عامل تھے۔ ویسے مصافحہ کے معنی میں بھی یہ بات شامل ہے کہ ہتھیلی کو ہتھیلی کے ساتھ ملایا جائے جیسا کہ امام بن اثیر جزری النہایہ فی غریب الحدیث والا ثر ص ٤٣/٣ پر رقم طراز ہیں:

" ومنه  حديث المصافحة  عند اللقاء وهى  مفاعلة  من الصاق صفح الكف بالكف."

 ''صفح لفظ سے ملاقات کے بعد مصافحہ کی حدیث بھی ہے مصافحہ باب مفاعلہ سے بطن ہتھیلی کو  بطن ہتھیلی سے ملانا ہے۔''

  مصافحہ کا یہی معنی لغت کی کتب قاموس تاج العروس وغیرہ میں منقول ہے۔ لہٰذا مصافحہ کی جو تعریف ہے وہ بھی اہل حدیث کے مصافحہ پر پوری طرح صادق آتی ہے اور جو مصافحہ احناف کے ہاں رائج ہے، اس پر یہ تعریف صادق نہیں آتی۔ بعض لوگ دونوں ہاتھوں کے ساتھ مصافحہ کرنے کی یہ حدیث پیش کرتے ہیں:

(( عن ابن مسعود  يقول علمتنى  النبى صلى الله عليه وسلم  التشهد  وكفى  بين كفيه.))

 ''ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھے تشہد سکھایا کہ میرا ہاتھ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  کے دونوں ہاتھوں کے بیچ میں تھا۔''  (بخاری۹۲۶/۲)

 ۱)         اس حدیث کا ملاقات کے وقت مصافحہ سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس حدیث میں اس بات کا ذکر ہے کہ نبی اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم  عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو تشہد سکھا رہے تھے اور تعلیم کے وقت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک ہاتھ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کے دو ہاتھوں کے درمیان تھا۔ اگر اس مصافحہ ملاقات پر محمول کریں تو اس کی صورت یہ بنے گی کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے دو ہاتھوں میں ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک ہاتھ تھا یعنی تین ہاتھ کا مصافحہ ۔جس طرح کسی اہل حدیث کا حنفی حضرات سے مصافحہ ہو تو حنفی کے دو ہاتھ ہوتے ہیں اور اہل حدیث کا ایک ہاتھ اور حنفی بھائی اس مصافحہ کو نا پسند کرتے ہیں۔ ان مقلدین بھائیوں پر سخت تعجب ہے کہ جو مصافحہ صحیح احادیث سے ثابت ہے وہ انہیں پسند نہیں اور جو مصافحہ یعنی چار ہاتھوں کا ثابت نہیں اس پر اصرار کرتے ہیں۔ اس حدیث سے قطعاً یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کے دو ہاتھ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کے دو ہاتھوں سے ملے ہوئے تھے۔

  اگر بفرضِ محال اس حدیث کو اس بات پر محمول کیا جائے کہ دونوں طرف سے دونوں ہاتھوں کا مصافحہ ہے اور ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کے قول کَفِّی اسم جنس سے ان کی دونوں ہتھیلیاں مراد لی جائیں تو اس صورت میں کَفِّیْ بَیْنَ کَفَّیْہِ کا مطلب یہ ہو گا کہ میری دو ہتھیلیاں نبی   صلی اللہ علیہ وسلم  کی ہتھیلیوں کے درمیان میں تھیں اور جو لوگ دو ہاتھ سے مصافحہ کرتے ہیں ، ان کی یہ صورت نہیں ہوتی۔ لہٰذا اس حدیث سے ان کا استدلال باطل ہے۔

حنفی مذہب کے جید علماء کو یہ بات مسلم ہے کہ نبی   صلی اللہ علیہ وسلم  کا ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کی ہتھیلی کو اپنی دونوں ہتھیلیوں میں پکڑنا مزید اہتمام اور تعلیم کی تاکید کے لئے تھا۔ حنفی مذہب کی فقہ کی مشہور داخل نصاب کتاب ہدایہ۹۳/۱ کتاب الصلوة کے حاشیہ پر لکھا ہے کہ " أخذ ليكون حاضرا فلا يفوته  شيىء " آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کا ہاتھ اس لئے تھاما تھا تا کہ ان کا دماغ حاضر رہے اور کوئی چیز ان سے فوت نہ ہو جائے۔

علامہ زیلعی حنفی ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کے تشہد کی ابنِ عباس رضی اللہ عنہ والے تشہد پر ترجیح ذکر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:

" و منها أنه  قال فيه  علمتنى  التشهد  و كفى  بين كفيه و لم يقل  ذلك  فى غيره فدل  على مزيد الإعتناء و الإهتمام."

''ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کے ابنِ عباس رضی اللہ عنہ والے تشہد پر راجح ہونے کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا، رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھے تشہد سکھایا اور میری ہتھیلی آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  کی ہتھیلیوں کے درمیان میں تھی اور یہ بات ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کے تشہد میں نہیں۔ اس نے مزید توجہ اور اہتمام پر دلالت کی۔''(نصب الرایہ۴۲۱/۱، کتاب الصلوة)

 یہی بات ابنِ ہمام حنفی نے ہدایہ کی شرح فتح القدیر میں لکھی ہے۔ پس ثابت ہوا کہ نبی   صلی اللہ علیہ وسلم  کا ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کو پکڑنا علی سبیل المصافحہ نہیں تھا بلکہ مزید اہتمام و تاکید کے لئے تھا۔

مولوی عبدالحی لکھوی حنفی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں:

ابنِ مسعود والی حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس سے مصافحہ جو ملاقات کے وقت کیا جاتا ہے، مراد نہیں ہے بلکہ یہ ہاتھ میں ہاتھ لینا ویسا ہے جیسا کہ الفتاوی اردو ۱۳۴/۱، کتاب العلم والعلمائ)

 اور کئی احادیث سے ہاتھ میں ہاتھ پکڑ کر تعلیم دینا ثابت ہے۔ ایک حدیث لکھی جاتی ہے:

((عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، أَنَّ رَسُولَ صَلَّى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ بِيَدِهِ، وَقَالَ: «يَا مُعَاذُ، وَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّكَ، وَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّكَ»، فَقَالَ: " أُوصِيكَ يَا مُعَاذُ لَا تَدَعَنَّ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ تَقُولُ: اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ، وَشُكْرِكَ، وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ.))

 ''معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کا ہاتھ پکڑ کر کہا، اے معاذ اللہ کی قسم میں تمہیں دوست رکھتا ہوں میں نے کہا ، اللہ کی قسم میں بھی آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  کو دوست رکھتا ہوں۔ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا، اے معاذ میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ ہر نماز کے بعد یہ دعا پڑھنا نہ چھوڑنا ۔ (اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ، وَشُكْرِكَ، وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ )''

(ابو داؤد (۱۵۲۲)۸۶/۲، نسائی۵۳/۳، عمل الیوم والیلہ (۱۰۹)، الادب المفرد (۶۱۹)، مسند احمد۲۴۴/۵،۲۴۷، ابنِ خزیمہ (۷۵۱)، ابنِ حبان (۲۴۵)، حاکم۲۷۳/۱،۲۷۲/۳)

            اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کے طریقہ تعلیم میں یہ بات بھی شامل ہے کہ مُتَعَلِّمْ کا ہاتھ پکڑ کر اسے سمجھایا جائے تا کہ اس کا دھیان اور توجہ مسئلہ مذکورہ کی طرف ہو۔ حنفی حضرات کی مزید تسلی کے لئے ایک روایت درج کی جاتی ہے ۔ علامہ جلال الدین خوارزمی حنفی ہدایہ کہ شریہ کفایہ میں ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ والی اس حدیث پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

" و تاكيد التعليم فإنه  روى عن محمد بن الحسن أنه قال أخذ أبو  يوسف رحمة الله  عليه  وعلمنى التشهد  و قال  أبو حنيفة  رحمة الله  عليه بيدى فعلمنى التشهد  و قال  ابو حنيفة  رحمة الله  عليه  أخذ حماد  بيدى فعلمنى  التشهد  و قال حماد  اخذ علقمة  بيدى التشهد  وقال  علقمة أخذ ابن  مسعود  بيدى و علمنى  التشهد  و قال  ابن مسعود  أخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم  بيدى  وعلمنى  التشهد و قال رسول الله  صلى الله عليه وسلم   أخذ جبريل عليخ السلام  بيدى  فعلمنى التشهد."

            ''ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث تاکید تعلیم پر محمول ہے۔ اس لئے کہ محمد بن حسن شیبانی سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں امام ابو یوسف رحمة اللہ علیہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے تشہد سکھایا اور ابو یوسف نے کہا امام ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے تشہد سکھایا اور امام ابو حنیفہ نے کہا حماد بن ابی سلیمان رحمة اللہ علیہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے تشہد سکھایا۔ امام حماد کہتے ہیں علقمہ رحمة اللہ علیہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے تشہد سکھایا۔ علقمہ کہتے ہیں ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ نے میرا ہاتھ پکڑ کے مجھے تشہد سکھایا۔ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  فرماتے ہیں جبرائیل نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے تشہد سکھایا۔''  (الکفایہ شرح ہدایہ۲۷۳/۱)

مذکورہ بالا حنفی روایت سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گئی کہ ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کا دو ہاتھوں کے ساتھ مصافحہ کرنے سے تعلق نہیں بلکہ یہ طریقۂ تعلیم پر محمول ہے جو کہ طالب علم کو مزید تاکید سے اہتمام و توجہ دلانے کے لئے کیا جاتا ہے۔ اب تو حنفی حضرات کو اس حدیث سے مروجہ مصافحہ پر استدلال نہیں کرنا چاہیے بلکہ مذکورہ بالا صحیح احادیث کی رو سے دائیں ہاتھ کے ساتھ مصافحہ کرنا چاہیے کیونکہ اللہ کے نبی   صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت یہی ہے اور یہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل تھا۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

تبصرے