سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(160) لہسن کھانا کیسا ہے؟

  • 14760
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2524

سوال

(160) لہسن کھانا کیسا ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بخاری شریف میں ہے:

((نَهَى يَوْمَ خَيْبَرَ عَنْ أَكْلِ الثُّومِ، وَعَنْ لُحُومِ الحُمُرِ الأَهْلِيَّةِ.))

            ''کہ نبی اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم  نے خیبر کے دن پالتو گدھوں کے گوشت اور لہسن کھانے سے منع کر دیا۔ ''  (بخاری)

            اس حدیث کے مطابق میں نے لہسن تقریباً آدھا ایکڑ کاشت کیا تھا لیکن جب یہ مسئلہ پڑھا تو سب ضائع کر دیا۔ مگر علماء کہتے ہیں کہ کچا لہسن کھانا مکروہ ہے میری سمجھ کے موافق تو دونوں ایک ہی زمرے میں آتے ہیں۔ کیونکہ کچے لہسن والے الفاظ حدیث میں موجود نہیں، اگر اس بارے میں کوئی واضح ثبوت ہے تو آگاہ کریں۔ نہایت مشکور ہوں گا۔ 

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حدیث میں ہے:  رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مہمان بنے ( ہجرت کے وقت) تو اپنا بچا ہوا کھانا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو بھیج دیتے۔ ایک مرتبہ سارا کھانا واپس کر دیا اور اس میںسے کچھ بھی نہ کھایا۔۔۔ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے پوچھا تو آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  فرمانے لگے ''اس میں لہسن ہے''۔ تو ابو ایوب فوراً بولے کہ ( يا رسول الله صلى الله عليه  وسلم أحرام هو؟)''اے اللہ کے رسول   صلی اللہ علیہ وسلم  کیا یہ حرام ہے؟'' تو آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

(( لا و لكنى أكرهه من أجل  ريحه.))

            ''نہیں حرام نہیں بلکہ میں اس کی بو کی وجہ سے اسے ناپسند کرتا ہوں۔''  (صحیح سنن الرمذی للالبانی ج۲، ص۱۶۰کتاب الا طعمہ، باب ماجاء فی الرخصہ فی اکل الثوم مطبوخا)

            دوسری روایت میں یہ لفظ ہیں کہ نبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو کہا:

(( كلوه  فإنى لست كأحد كم إنى  أخاف  أن أوذى  صاحبى.))

            ''کہ تم اسے کھالو میں تم جیسا نہیں ہوں (یعنی میرے پاس جبریل وحی دینے کے لئے آتا ہے ) میں ڈرتا ہوں کہ میں اپنے ساتھی کو تکلیف نہ دے بیٹھوں۔''(قال الالبانی حسن)

            ان احادیث سے یہ بات واضح ہو گئی کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے حرام نہیں قرار دیا بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کھانے کے لئے بھی کہا۔ اور اپنے لئے صرف اس لئے نا پسند کیا کہ اس میں بو ہے اور امت کو بھی روک دیا کہ کچا لہسن کھا کر مسجد میں نہ آئیں ، کیونکہ فرشتے بھی با جماعت نماز کے لئے حاضر ہوتے ہیں تو انہیں ان کی بو سے تکلیف ہوتی ہے۔ یا نماز کے وقت سے اتنی دیر پہلے کھا لے کہ نماز کے وقت تک اس کی بو جاتی رہے جیسا کہ ابو داؤد کی حدیث میں ہے:

(( من أكل  من هذه الشجرة فلا يقربنا  حتى  يذهب ريحها أو ريحه.))

            ''کہ جو اس درخت (لہسن) سے کھالے وہ اس وقت تک ہمارے پاس نہ آئے جب تک اس کی بو ختم نہیں ہو جاتی۔'' (صحیح سنن ابی دائود کتاب الاطعمہ باب فی اکل الثوم)

دوسری حدیث کے الفاظ یہ ہیں:

(( من أكلها  فلا يقربن  مسجدنا  وقال إن كنتم لا بد أكليهما  فأميتوها طبخا.))

''کہ جوشخص ان دونوں (لہسن اور پیاز ) کو کھالے وہ ہماری مسجد کے قریب تک نہ آئے اور کہا اگر تم اس کو ضروری کھانا چاہتے ہو تو پکا کر ان کی بو کو ختم کر لو۔''  (قال الالبانی صحیح)

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بھی روایت ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:

(( و نهى  عن أكل الثوم إلا مطبوخا.))

            ''کہ نبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم  نے لہسن کھانے سے منع کر دیا سوائے پکے ہوئے کے۔''

            ان سب احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ بخاری شریف کی حدیث میں جو ممانعت ہے، وہ اس کے حرام ہونے کی وجہ سے نہیں ، صرف بو کی وجہ سے ہے اور اگر بو پکا کر ختم ہو جائے تو اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔ اور عام آدمی ایسے وقت میں استعمال کر سکتا ہے کہ نماز کا وقت ابھی دور ہو اور نماز کے وقت تک اس کی بو ختم ہو سکتی ہو۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

تبصرے