سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(155) مجاہدین کو قربانی کی کھالیں دینا کیسا ہے؟

  • 14755
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1451

سوال

(155) مجاہدین کو قربانی کی کھالیں دینا کیسا ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قربانی کی کھالوں کا صحیح مصرف کیا ہے؟ بعض علماء کرام اس دور میں اس بار پر بہت زور دے رہے ہیں کہ کھالیں صرف اور صرف مساکین اور محتاجوں کا حق ہے۔ مجاہدین کو قربانی کی کھالیں دینا درست نہیں۔ قرآن و سنت کی روشنی میں اس کی وضاحت کر کے عند اللہ ماجور ہوں۔  


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

زندگی کے تمام مسائل کی طرح قربانی کی کھالوں کے مصرف کے لئے بھی ہمیں قرآن و سنت کو دیکھنا ہو گا اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول   صلی اللہ علیہ وسلم  کا فیصہ معلوم ہو جانے کے بعد ہمیں اس پر کاربند رہنا ہو گا اور یہی مومن کی شان ہے۔ قربانی کی دو قسمیں ہیں ایک وہ جو حج یا عمرہ کے موقع پر حرم میں کی جاتی ہے، دوسری وہ جو عیدالاضحی کے موقع پر تمام دنیا کے مسلمان اپنے اپنے گھر میں کرتے ہیں۔

قرآن مجید میں پہلی قسم کی قربانی کے متعلق فرمایا گیا:

﴿فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ ... ٣٦﴾...الحج

''تم اس میں سے کھائو اور ان کو دو جو مانگتے نہیں اور جو مانگتے ہیں۔''(الحج : ۳۶)

دوسری قسم کی قربانی کے متعلق رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

(( كلوا  و أطعموا و ادخروا))

            ''کھاؤاور کھلاؤ اور ذخیرہ کر لو۔''(بخاری و مسلم بحوالہ نیل الاوطار ، ص۱۲۷، ج۵)

            اس سے معلوم ہوا کہ قربانی کا گوشت خود بھی کھائے اور احباب و اقرباء اور فقراء و مساکین کو بھی دے۔ قربانی کی کھالوں کا مصرف بھی وہی ہے جو قربانی کے گوشت کا ہے یعنی خود بھی استعمال کر سکتاہے احباب و اقرباء کو بھی دے سکتا ہے اور صدقہ بھی کر سکتاہے ۔ اس کی دلیل صحیح مسلم کی حدیث ہے :  اُم المومنین رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں قربانی کے دنوں میں بادیہ والوں کے کچھ گھر مدینہ میں آگئے۔ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ تین دن کے لئے گوشت رکھ کر باقی صدقہ کر دو۔ جب بعد والا سال گیا تو لوگوں نے کہا:  ''لوگ اپنی قربانیوں سے مشکیزے بناتے اور چربی پگھلاتے ہیں ۔'' رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تو بات کیاہے؟ انہوں نے عرض کیا آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے تین دن کے بعد قربانی کے گوشت کھانے سے منع فرما دیا۔ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا میں نے تو تمہیں صرف ان لوگوں کی وجہ سے منع کیا تھا جو باہر سے آ گئے تھے۔ اب کھائو اور ذخیرہ کرو اور صدقہ کرو۔''(صحیح مسلم، کتاب الاضاحی حدیث۱۹۷۱)

            اس سے صاف ظاہر ہے کہ گوشت کی طرح کھال خود بھی استعمال کر سکتا ہے۔ دوستوں ، رشتہ داروں کو بھی دے سکتا ہے اور صدقہ بھی کر سکتاہے ۔ البتہ دوسری احادیث کو مد نظر رکھتے ہوئے گوشت یا کھال فروخت کر کے اس کی رقم استعمال نہیں کر سکتا۔ ہاں اگر کھال صدقہ کر دے اور گوشت کا زیادہ سے زیادہ حصہ بھی صدقہ کر دے تو بہتر ہے کیونکہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے حج کے موقع پر ایسا ہی کیا تھا۔ صحیح بخاری میں علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :

(( إن النبى صلى الله عليه وسلم أمره  أن يقوم  على بدنه  و أن يقسم  بدنه  كلها  لحومها  وجلودها  وجلالها.))

            ''رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں حکم دیا کہ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  کی قربانیوں کی نگرانی کریں اور تمام قربانیوں ک گوشت اور چمڑے اور ان کے جل تقسیم کر دیں۔''(صحیح بخاری۲۳۲، اصح المطابع)

            صحیح مسلم میں یہ لفظ ہیں" و أن أتصدق بلحمها ''مجھے حکم دیا کہ میں ان کا گوشت اور چمڑے اور جل صدقہ کر دوں۔''

            جو لوگ کہتے ہیں کہ کھالیں صرف فقراء و مساکین کا حق ہے ان پر لازم ہے کہ مذکورہ بالا احادیث کے مقابلے میں ایسی حدیث پیش کریں کہ جس میں نبی   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہو کہ کھالیں صرف فقراء و مساکین کا حق ہے اور ایسی حدیث وہ کبھی بھی پیش نہیں کر سکتے۔ ہمارے جن مہربانوں نے فتویٰ دیا ہے کہ مجاہدین کے لئے کھالیں جائز نہیں اور جن لوگوں نے انہیں کھالیں دی ہیں، ان کی قربانیاں ضائع ہو گئیں انہیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔ کیونکہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ قربانی کی کھالیں صرف فقراء و مساکین کا حق ہے تب بھی ان کے سب سے زیادہ مستحق مجاہدین فی سبیل اللہ ہیں جنہوں نے اپنی زندگی اللہ کی راہ میں وقف کر دی ہے اور جہاد میں مصروفیت کی وجہ سے کاروبار نہیں کر سکتے۔ خود اللہ نے صدقات کا مصرف یہ لوگ قرار دیئے ہیں:

﴿لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُم بِسِيمَاهُمْ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا ...ٌ ٢٧٣﴾...البقرة

            ''صدقات ان فقراء کے لئے ہیں جو اللہ کی راہ(جہاد) میں روکے ہوئے ہیں، زمین میں (کاروبار وغیرہ) کے لئے سفر نہیں کر سکتے، سوال سے بچنے کی وجہ سے ناواقف انہیں غنی گمان کرتا ہے تو انہیں ان کی علامت سے پہنچانے گا۔ لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتے۔''(البقرہ : ۲۷۳)

            حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ان مہربانوں کو بھی جہاد میں مصروف نوجوانوں کی حالت سے واقفیت نہیں ہے کہ وہ معاشی طور پر کتنے مشکل حالات میں ہیں میں نے خود مرکز الدعوة والارشاد کے معسکرات میں دیکھا ہے کہ دورۂ خاصہ کی تین ماہ کی شدید ترین ٹریننگ کے دوران بعض اوقات مرکز کے لئے ایسے مشکل حالات پیش آ جاتے ہیں کہ وہ جہاد کی تربیت میں مصروف نوجوانوں کے لئے اسلحہ اور لباس کا مکمل انتظام بھی نہیں کر سکتے۔ مگر آفرین ہے ان نوجوانوں پر جو بعض اوقات پھٹے پرانے کپڑوں اور سادہ چپل کے ساتھ سخت پہاڑوں پر یہ دورہ مکمل کرتے ہیں مگر نہ اُف کرتے ہیں ، نہ حرفِ شکایت زبان پر لاتے ہیں اور نہ ہی کسی سے سوال کرتے ہیں۔ ہاں ناواقف لوگ ان کی خود داری اور چہرے کی چمک دیکھ کر یہی کہتے ہیں کہ ان کے پاس بے شمار دولت ہے۔

            تو غور کرنا چاہیے کہ اگر مجاہدین فی سبیل اللہ پر خرچ کرنے سے قربانی ضائع ہوتی ہے تو مدارس کے طلباء پر قربانی کی کھال صرف کرنی کس طرح جائز ہے اور دونوں کا فرق کیا ہے۔ بعض علماء مجاہدین کی مخالفت کرتے ہیں اور مدارس کے لئے کھالیں مانگتے ہیں ۔ ہمارے نزدیک دونوں پر خرچ کرنا چاہیے۔ کھالیں حسبِ ضرورت مجاہدین اور مدارس سب کو دینی چاہئیں۔ ہم نے کتاب و سنت کی تعلیم دینے والے مدارس کو ہمیشہ اپنے ادارے سمجھا ہے۔ تعلیم بھی ضروری ہے اور جہاد بھی ۔ اسلام کے ایک فریضے کو ماننا اور دوسرے کی مخالفت کرنا کسی طرح درست نہیں ہے۔ اگر حقیقت دیکھی جائے تو ان مدارس و مساجد کی حفاظت کے لئے بھی جہاد فی سبیل اللہ میں مصروف نوجوانوں پر خرچ کرنا لازم ہے۔ اگر یقین نہ ہو تو سمر قند و بخارا اور ہندوستان و ہسپانیہ کی مساجد و مدارس کا حال ملاحظہ فرما لیں۔ اللہ تعالیٰ حق بات سمجھنے کی اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

تبصرے