قربانی کی اسلام میں کیا اہمیت ہے۔ اس سے متعلق مسائل واضح کیجئے۔
آج سے کئی ہزار سال قبل عرب کے لق و دق صحرائی میدان میں سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنے فرزند ارجمند (علیہ السلام ) کو اللہ کی رضا کی خاطر پیشانی کے بل ذبح کرنے کے لئے لٹایا۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے پیغمبر کا امتحان مقصود تھا۔ ابراہیم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے۔ اللہ کی طرف سے پیغام آیا:
''اے ابراہیم تو نے خواب کو سچ کر دکھایا۔ بے شک ہم اسی طرح احسان کرنے والوں کو بدلہ دیتے ہیں۔''(الصفت : ۱۰۵)
اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کرنے والوں کا یہ ترانہ ہوتاہے:
''بلاشبہ میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت اللہ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کو پالنے والا ہے۔'' (الانعام)
باپ بیٹے کی یہ یادگار قربانی کی صورت کئی ہزار سال سے جاری و ساری ہے اور قیامت تک جاری رہے گی۔ قربانی کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے اللہ کی رضا کی خاطر اپنی عزیز ترین متاع کو بھی اس کے راستے میں قربان کر دے۔ کیونکہ جانوروں کا گوشت پوست اور کھالیں اللہ تعالیٰ کو نہیں پہنچتیں بلکہ اس سے تو انسان کے دل کا خوف اور ڈر مقصود ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
''اللہ تعالیٰ کو قربانی کا گوشت اور اس کا خون ہر گز نہیں پہنچتا لیکن اس کے ہاں تو تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔''
''سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جو شخص قربانی کی طاقت رکھنے کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے۔ '' (مسند احمد ۳۲۱/۲، ترغیب و ترہیب ۱۰۰/۲، ابنِ ماجہ (۳۱۳۳)۱۰۴۴/۲، نیل الاوطار۱۹۵/۵)
یہ روایت مرفوعاً بھی مروی ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ قول صحابی رضی اللہ عنہ ہے۔
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا مینڈھا ذبح کرتے جو موٹا تازہ سینگوں والا ہوتا تھا جس کی آنکھیں منہ اور ٹانگیں سیاہ ہوتیں۔'' (ترمذی۲۸۳/۱، ابنِ ماجہ (۳۲۸)۱۰۴۵۲/۲، ابو دائود۲۷۹۳)
''سیدنا ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال مدینہ میں قیام فرمایا اور ہر سال قربانی کی۔'' ترمذی (۱۵۱۲)۳/۱۲۹، مسند احمد۳۸/۲)
''سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صرف دو دانتا جانور کی قربانی کرو۔ اگر ایسا جانور نہ مل سکے تو پھر جذعہ ذبح کر لو۔'' (ابو دائود۲۷۹۴، مسلم کتاب الاضاحی ، نسائی ۲۱۸/۷، ابنِ ماجہ (۳۱۴۱)۱۰۴۹، مسند احمد ۳۱۲/۳۔۳۲۷)
لغت عرب میں مسنہ اس جانور کو کہتے ہیں جس کے دودھ کے دانت ٹوٹ کر اگلے دانت نکل آویں۔ (مجمع البحار ۱۴۸) لفظ مسنہ سن سے مشتق ہے جس کے معنی دانت ہیں مسنہ بمعنی سال سے مشتق نہیں۔
''سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا: ہم جانور کی آنکھیں اور کان اچھی طرح دیکھیں اور ہم ایسا جانور ذبح نہ کریں جس کا کان اوپر سے کٹا یا نیچے سے کٹا ہو۔ جس کے کان کی لمبائی میں چرے ہوئے ہوں یا جس کے کان میں گول سوراخ ہو۔'' (ترمذی۲۸۳/۱، ابو دائود(۲۸۰۴)، نسائی۲۱۶/۷، دارمی۷۷/۲، ابنِ ماجہ (۳۱۴۲۔۳۱۴۳)، مسند احمد۸۰/۱،۹۰،۱۰۱،۱۰۵،۱۰۸)
١ اس کی سند میں حجاج بن ارطاة مدلس ہے اور اس کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے۔ (ابو طاہر)
یہ روایت والاذن تک مرفوع ہے آگے کانوں کی وضاحت راوی کا قول ہے۔
''براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا: کس جانور کی قربانی کرنے سے بچا جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے اشارہ کر کے کہا چار قسم کے جانوروں کی قربانی منع ہے۔ ١) لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو۔ ٢) کانا (بھینگا) جانور جس کا کانا پن ظاہر ہو۔ ٣) بیمار جس کی بیماری واضح ہو۔ ٤) لاغر جانورجس کی ہڈیوں میں بالکل گودا نہ ہو۔'' (موطا۵۸۲/۲، دارمی۷۲/۲، ترمذی۲۸۳/۱، نسائی۲۱۴/۷، ابنِ ماجہ (۳۱۴۴)، مسند احمد ۲۸۴/۴۔۲۸۹)
''ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید گاہ میں قربانی کا جانور ذبح کرتے تھے۔'' (بخاری)
''سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے نماز عید سے قبل قربانی کا جانور ذبح کیا وہ دوبارہ قربانی کرے۔ صحیح بخاری کے الفاظ یہ ہیں:
جس نے نمازِ عید سے قبل قربانی کا جانور ذبح کیا وہ اسے اپنے لئے ذبح کرتا ہے اور جس نے نماز کے بعد ذبح کیا اس کی قربانی پوری ہو گئی اور اس نے مسلمانوں کے طریقے کو اپنایا۔''
قربانی کا جانور خود ذبح کرنا چاہیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے ہاتھ سے قربانی ذبح کیا کرتے تھے۔ قربانی پورے گھر کی طرف سے ایک ہی کفایت کر جاتی ہے۔
''عطا ء بن یسار کہتے ہیں میں نے ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قربانی کیسے ہوتی تھی تو انہوں نے فرمایا: ''نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آدمی اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک ایک قربانی کرتا تھا۔'' (ابن ماجہ (۳۱۴۷)۱۰۵۱/۲)
''سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ک قربانیوں کی نگرانی کروں اور ان کا گوشت کھا لیں اور جلیں صدقہ کر دوں اور ان میں سے قصاب کو کچھ نہ دوں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا ہم قصاب کو اپنے گرہ سے اس کی اجرت دیتے تھے۔''
''قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے قربانیوں کا گوشت تین دنوں سے اوپر کھانے سے روکا تھا۔ اب تم ان کا گوشت کھائو اور صدقہ کرو۔ ان کی کھالوں سے فائدہ حاصل کرو اور ان کو نہ بیچو۔''
چنانچہ قربانی کی کھالیں صدقہ و خیرات طلبہ اور مجاہدین وغیرہ کی مد میں صرف کی جا سکتی ہیں۔
س: نمازِ عید سے قبل قربانی کی جا سکتی ہے یا نہیں میںنے ایک دیو بندی مولوی صاحب سے پوچھا تو اُس نے کہا کہ گائوں میں چونکہ عید جائز نہیں، اس لئے قربانی درست ہے۔ میں نے کہا پھر بعد میں نماز پڑھ لے تو اُس نے کوئی جواب نہ دیا اور بریلوی صاحب نے بھی ایسا ہی فتویٰ دیا۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں۔
ج: نمازِ عید سے قبل قربانی کا جانور ذبح کرنے سے قربانی نہیں ہوتی جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''جس نے نماز سے پہلے ذبح کر لیا، وہ اپنے لئے ذبح کرتا ہے اور جس نے نماز کے بعد کیا، اس کی قربانی مکمل ہو گئی۔ اور وہ مسلمانوں کے طریقے کو پہنچا ہے۔''
اس حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ عام ہیں۔ شہر، بستی اور گائوں والے سب اس میں داخل ہیں۔ اب تو شہر والوں کے ساتھ خاص کرنے کے لئے دلیل چاہئے جو صحیح اور صریح نص ہو ، لیکن ایسی کوئی صحیح دلیل ہے ہی نہیں۔ احناف چونکہ گائوں والوں پر نمازِ عید کو واجب نہیں سمجھتے جیسا کہ احناف کی معتبر کتاب ہدایہ میں ہے:
" و تجب صلوة العيد على من تجب عليه صلوة الجمعة ."''کہ نمازِ عید اس شخص پر واجب ہے جس پر جمعہ کی نماز واجب ہے۔'' (ہدایہ اوّلین ص۱۷۱)
اور جمعہ کے بارے میں یہ لکھا گیا:
" لا تصح الجمعة إلا فى مصر جامع أو فى مصلى المصر ولا تجوز فى القرى ."''کہ جمعہ صرف بڑے شہر یا شہر کی عید گاہ میں صحیح ہے اور بستیوں ، دیہاتوں میں جمعہ جائز نہیں ہے۔'' (ہدایہ اوّلین، ص۱۲۸)
ان دونوں عبارتوں سے یہ بات واضح ہو گئی کہ احناف کے نزدیک نہ جمعہ گائوں میں اور نہ عید پڑھی جا سکتی ہے یہ مذہب بالکل باطل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے:
''اے ایمان والوں ، جب جمعہ کے دن نماز کے لئے آواز دی جائے تو اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف دوڑکر آئو اور خریدو فروخت چھوڑ دو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔''(الجمعۃ)
یہ آیت کریمہ سب لوگوں کے لئے ہے۔ بڑے چھوٹے شہر، گائوں اور بستی والوں سب کو یہ حکم ہے، کوئی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے اور قرآن و سنت میں کوئی ایسی دلیل بھی نہیں ہے جو اس کی تخصیص کرے کہ یہ صرف بڑے شہر والوں کے لئے ہے اور چھوٹے شہر، گائوں اور بستی والوںکو یہ حکم نہیں۔ اس کے علاوہ بخاری شریف میں حدیث ہے:
''کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں جمعہ کے بعد کا سب سے پہلا جمعہ عبدالقیس کی مسجد بحرین کی جواثی نامی بستی میں پڑھایا گیا۔''
حافظ ابنِ حجر من البحرین کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
" فى رواية وكيع قربة من قرى البحرين وفى أخرى من فرى عبد القيس."''ایک روایت میں ہے کہ یہ بحرین کی بستیوں میں سے ایک بستی تھی اور دوسری روایت میں ہے عبدالقیس کی بستیوں میں سے تھی۔''
یہ بات مسلم ہے کہ عبدالقیس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے بغیر جمعہ نہیں پڑھا۔ کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی یہ عادت نہ تھی کہ وہ نزول وحی کے زمانہ میں اپنی طرف سے شرعی امور کے موجد بن جاتے ۔ اگر ایسی بات ہوتی تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنی طرف سے یہ کام کر لیا تو قرآن ہی میں نازل ہو جاتا جیسا کہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے عزل کے جواز پر استدلال کیا ہے کہ اگر عزل درست نہ ہوتا تو قرآن نازل ہو جاتا ۔ جب اس بارے میں قرآن نازل نہیں ہوا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے نہیں روکا تو ثابت ہو گیا کہ یہ امر جائز ہے۔ اللہ کے رسول کی ایک صحیح حدیث یہ بھی ہے کہ :
''جماعت کے ساتھ جمعہ ہر مسلمان پر واجب ہے سوائے چار آدمیوں کے۔'' (ابو داؤد)
اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ گائوں اور بستیاں والے بھی مسلمان ہیں جیسا کہ شہر والے مسلمان ہیں اور جمعہ مسلمان پر واجب ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینہ پہنچ کر جمعہ اور عیدین کی نماز شروع کی، اس وقت مدینہ بھی ایک بستی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اسے اپنی پاک زبان سے بستی قرار دیا ہے کہ:
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جمعہ بستی میں پڑھا گیا، (بخاری مسلم )
خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جمعہ اور عیدین بستی میں پڑھی ہے تو ہم کون ہوتے ہیں بغیر دلیل شرعی کے ان نصوص کی تخصیص کرنے والے۔ باقی احناف جس اثر سے استدلال کرتے ہیں کہ:
((و لا جمعة ولاتشریق ولافطرولااضحی الافی مصرجامع)(ابن ابی شیبہ ہدایہ اولین ص ۱۶۸)
یہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا اثر صحیح نہیں ہے، امام نووی کہتے ہیں ''متّفق علیٰ ضعفہ''کہ اس کے ضعیف قرار دیا ہے۔ اس روایت کی سند میں سید نا علی رضی اللہ عنہ سے بیان کرنے والا حارث اعور کذاب ہے۔ امام شعبی اور علی بن المدینی نے بھی اسے کذاب کہا ہے۔ ابنِ حبان کہتے ہیں:
" كان غاليا فى التشيع واهيا فى الحديث"''کہ غالی شیعہ اور حدیث بھی بالکل کمزور تھا۔''
اس کی سند میں جابر جعفی بھی ہے جس کے بارے میں امام ابو حنیفہ کا فیصلہ ہے کہ (ما رایت اکذب منہ) کہ ''میں نے اس سے زیادہ جھوٹا آدمی نہیں دیکھا ۔'' اگر اس کو صحیح بھی تسلیم کر لیا جائے تو پھر بھی یہ قرآن کی آیت اور احادیث کی تخصیص کے لئے کافی نہیں۔ اس لئے کہ بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم اس کی مخالفت کرنے والے بھی ہیں۔ خود احناف کے اپنے اصول کے مطابق بھی کتاب اللہ کی تخصیص خبر واحد سے نہیں ہو سکتی اور یہ تو خبر واحد بھی نہیں ہے۔ تو ثابت ہو گیا کہ جمعہ گائوں والوں پر بھی واجب ہے اس طرح عید بھی پڑھنی چاہیے اور قربانی عید سے پہلے ہو ہی نہیں سکتی۔
لطف کی بات یہ ہے کہ احناف نے شہر والوں کے لئے پھر بھی نمازِ عید سے پہلے قربانی ذبح کرنے کا ایک حیلہ ایجاد کر رکھا ہے۔ چنانچہ ہدایہ میں ہے:
" و حيلة المصر إذا أراد التعجيل أن يبعث بها إلى خارج المصر فيضحى بها كما طلع الفجر."''کہ شہر میں رہنے والا اگر جلدی کرنا چاہتا ہے تو اس کا حیلہ یہ ہے کہ اپنی قربانی کو کسی گائوں میں بھیج دے اور وہاں طلوع فجر کے بعد ذبح کر دی جائے اور پھر گوشت شہر میں لا کر استعمال کرے۔ '' (ہدایہ اخیرین ، ص۴۴۶)
حیلہ کے استعمال سے صحیح حدیث کے حکم کو ٹالنے کی یہ صورت مچھلی والوں کے ساتھ کس قدر مشابہت رکھتی ہے ہمارے ثقہ بھائیوں نے جنہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے بیان کرتے ہیں کہ رائے ونڈ میں تبلیغی جماعت والے اس پر آج بھی عمل کرتے ہیں اور جب عید کی نماز سے فارغ ہو کر واپس آتے ہیں گوشت کھانے کے لئے تیار ہو تا ہے جو کہ پہلے سے ذبح کر کے لایا ہوا ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی گرفت سے ڈرنا چاہیے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو اس طرح حیلے بنا کر رَد کر دیتے ہیں اور یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ ایسی قربانی ہر گز جائز نہیں ہوتی جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔