قرآن کی تعلیم دینے پر اس کا معاوضہ ادا کرنا درست ہے یا نہیں ؟ کوئی اپنی خوشی سے تحفہ یا مٹھائی وغیرہ دے سکتا ہے یا نہیں؟ اس کے بارے میں جو عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی حدیث پیش کی جاتی ہے کہ ان کے ایک شاگرد نے ان کو ایک کمان تحفہ دی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ آگ کا طوق ہے ، اگر پہننے کی طاقت ہے تو قبول کر لو؟ کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ اس کے علاوہ جمعہ اور امامت پر تنخواہ لینا کیسا ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں واضح کریں؟ (محمد صدیق خان گلشن پارک لاہور، محمد ارشد سیالکوٹ ، مولوی محمد یاسین ، ڈاکٹر عبدالوہاب خان، حاجی محمد ابراہیم سرگودھا)
قرآن مجید کی تعلیم ، خطبہ جمعہ ، امامت وغیرہ پر اُجرت لینے میں کوئی حرج نہیں ، کیونکہ اس کی ممانعت کے بارے میں قرآن و سنت کے اندر کوئی صریح نص موجود نہیں ہے۔ جبکہ اس کے جواز کے دلائل موجود ہیں۔ان میں سے ایک دلیل عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے۔ فرماتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کا ایک بستی سے گزر ہوا بستی والوں نے مانگنے پر بھی ان کی مہمان نوازی نہ کی۔ اچانک ان کے سردار کو کسی زہریلی چیز نے کاٹ لیا۔ ان کے افراد صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس آئے اور پوچھا تم میں کوئی دم کرنے والا ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے بعض نے اُجرت لے کر دَم کی حامی بھری۔ تو انہوں نے بکریوں کے ایک ریوڑ کا وعدہ کر لیا۔ سورۂ فاتحہ پڑھ کر اس پر دَم کیا اور متاثرہ جگہ پر اپنا لعاب لگایا تو وہ آدمی بالکل تندرست ہو گیا۔ وہ صحابی رسول رضی اللہ عنہ بکریاں لے کر واپس آیا تو دوسرے ساتھیوں نے کہا تو نے تو کتاب اللہ پر اُجرت لی ہے۔ گویا اس چیز کو انہوں نے نا پسند کیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر بھی یہی کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اخذ علیٰ کتاب اللّٰہ اجرًا)تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''سب سے زیادہ جس چیز پر تم اُجرت لینے کا حق رکھتے ہو، وہ اللہ کی کتاب ہے۔'' (صحیح بخاری کتاب الاجارہ باب الشروط فی الرقبہ)
بخاری ہی کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: (واضربو الی بسھمٍ)کہ میرے لئے بھی حصہ نکالو۔ بخاری شریف کی اس صحیح حدیث سے ثابت ہو گیا کہ قرآن پر اُجرت لی جا سکتی ہے۔ اس میں قرآن کی تعلیم ، امامت اور خطبہ جمعہ بھی داخل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ عام ہیں اور ان میں وہ شامل ہیں۔ اگر اُجرت درست نہ ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہ کہتے کہ میرا بھی حصہ نکالو۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو ہمیشہ حلال اور پاکیزہ چیز ہی استعمال کرتے تھے۔
دوسری دلیل نکاح میں خاوند پر بیوی کے لئے حق مہر دینا ضروری ہے ، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کا نکاح قرآن مجید کی تعلیم کو حق مہر ٹھہرا کر کر دیا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خود قرآن مجید کی تعلیم کی اُجرت دلوائی ہے۔ اگر اُجرت درست نہ ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی قرآن کی تعلیم کو حق مہر مقرر نہ کرتے۔ امام مالک نے اس حدیث کے تحت لکھا ہے:
" و بذلك جاز اخذ الأجرة على تعليم القرآن ( فتح البارى ج9 , ص 121)''کہ اس سے قرآن کی تعلیم پر اُجرت لینا جائز ہو گیا۔'' (فتح الباری ج۹،ص۱۲۱)
اس کے علاوہ محمد بن سیرین کبار تابعین سے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ مدینہ میں ایک تعلیم دینے والا تھا ، اس کے پاس بڑے بڑے لوگوں کے بیٹے پڑھتے تھے اور وہ اس معلم کا حق ادا کرتے تھے۔ (محلّی ابنِ حزم)
محمد بن سیرین نے ابی بن کعب اور ابو قتادہ جیسے اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم کا زمانہ پایا ہے اور ان سے روایات بھی لی ہیں۔ اگر قرآن کی تعلیم پر اُجرت جائز نہ ہوتی تو صحابہ رضی اللہ عنہم کرام ضرور ایسے شخص کو روک دیتے۔ اس طرح پہلے احناف کا یہ مذہب تھا:
(( لا يجوز الإستيجار على الأذان والحج و كذا الإمامة و تعليم القرآن ))''کہ اذان، حج، قرآنی تعلیم اور امامت پر اُجرت لینا جائز نہیں۔'' (ہدایہ اخریہ ص۳۰۳)
مگر احناف اپنے ائمہ کی اس بات پر قائم نہیں رہ سکے۔ اس وقت امام ابو حنیفہ کی تقلید کو نظر انداز کر کے دارالعلوم دیو بند سمیت تمام مدارس میں اساتذہ تنخواہ وصول کرتے ہیں چنانچہ ہدایہ میں لکھا ہے کہ اس دور میں ہمارے بعض مشائخ نے قرآن کی تعلیم پر اُجرت لینے کو اچھا سمجھا ہے کیونکہ دینی امور پر عمل میں سستی ظاہر ہو چکی ہے۔ اُجرت کے جائز نہ رکھنے میں قرآن کے ضائع ہو جانے کا خطرہ ہے اور اسی پر آج فتویٰ ہے (یعنی اُجرت لینا جائز ہے)۔
باقی استاد کو تحفہ نہ دینے کے بارے میں جو روایت آپ نے ابوداؤد کے حوالہ سے ذکر کی ہے وہ صحیح نہیں۔ اس کی سند میں اسود بن ثعلبہ مجہول راوی ہے۔ ابنِ المدینی کہتے ہیں: ']کہ ہم اس کے لئے اس کے سوا کوئی حدیث نہیں جانتے۔'' تقریب میں ہے (مجھول من الثّالثۃ)میزان الاعتدال میں ہے(لا یعرف) غیر معروف آدمی ہے۔ اس کی متابعت میں جو سند پیش کی جاتی ہے، وہ بھی صحیح نہیں۔ اس کے بارے میں امام بیہقی فرماتے ہیں (ھذا حدیث مختلف فیہ علیٰ عبادة بن نسیٍ کما ترٰی)کہ عبادہ بن نسی پر اس حدیث میں اختلاف ہے۔ ایک شخص اس کے استاد کا نام اسود بن ثعلبہ بتاتا ہے اور دوسرا جنادہ بن ابی امیہ بتاتا ہے۔ پھر ابنِ حرم کہتے ہیں اس میں بقیہ راوی ہے اور وہ بھی ضعیف ہے ۔ اس بنا پر حدیث قابل اعتبار نہیں بلکہ ابنِ حزم نے تو یہ بھی لکھ دیا ہے کہ جن احادیث سے قرآنی تعلیم کی ممانعت پر استدلال کرتے ہیں، ان میں سے کوئی روایت بھی صحیح نہیں ہے۔ باقی علامہ ناصرا لدین البانی کا اس حدیث کو اس سند کے لحاظ سے صحیح قرار دینا اس بنا پر ہے کہ ممکن ہے ابنِ نسی کے دو استاد ہوں اسود بن ثعلبہ بھی اور جنادہ بن امیہ بھی دونوں استاد ہیں۔ لیکن اس احتمال کی مجھے کوئی دلیل نہیں ملی ہے اور نہ ہی البانی صاحب نے کوئی دلیل اس احتمال کو ثابت کرنے کے لئے پیش کی ہے۔ لہٰذا صرف احتمال سے اس حدیث کو صحیح قرار دینا نظر سے خالی نہیں ہے۔