سود کی حرمت کے بارے میں مجلہ الدعوۃ کئی مرتبہ پڑھا ہے ۔ میرا اس کی وضاحت کے بارے میں یہ سوال ہے کہ معدوم کی بیع جائز ہے یا نہیں ؟ قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دیں ۔ اگر نا جائز ہے تو آپ کے مجلہ الدعوۃ کا طریقہ کار کیسا ہے ؟ جبکہ آپ سو روپے پھلے جمع کر لیتے ہیں اور مجلہ ابھی چھپا نہیں ہوتا ۔ کیا یہ معدوم کی بیع نہیں ؟ دوسرا سوال یہ ہے ایک چیز میں قیمت کا فرق کیوں ہے کیا یہ سود میں شامل نہیں ؟ ( ماسٹر محمد اسلم گوندلا نوالہ ٔ گوجرانوالہ)
معدوم ( غیر معدوم ) کی بیع جائز ہے ۔ قرآن مجید اور رسول اللہ ﷺ کے صحیحہ میں یا کسی صحابی رسول سے اس کی ممانعت وارد نہیں ہوئی ۔ ہاں جس طرح یعض موجودہ اشیاء کی بیع حرام ہے ، اسی طرح بعض معین معدوم چیزوں کی بیع سے روکا گیا ہے ۔ حکیم بن حزام کی حدیث میں جو لفظ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’ جو تیرے پاس نہیں اس کی بیع نہ کر۔‘‘
یہ اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان کسی معین چیز کی بیع کے بارے میں ہے : جیسا کہ امام بغوی قرماتے ہیں :
(( هذا بيوع الأعيان دون بيوع الصفات .))’’ کہ یہ نہی معین چیزوں کی بیع میں صفات کی بیع نہیں ( یعنی جس میں عدم (نہ ہونے ) کی صفات پائی جاے اس کے لئے نہیں ‘‘ ( شرح السنہ ج 8 ، ص 140)
یا اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ وہ چیز فروخت نہ کر جس کے دینے پر قدرت نہیں رکھتا ۔ جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے لکھا ہے ۔( مجوعہ فتاوی ج 20 ، ص 530)
باقی رہا مجلۃ الدعوۃ کی بیع کا طریق کار تو یہ بیع سلم ہے ، جسے شریعت نے جائز قرار دیا ہے ( بیع سلم یہ ہے کہ کوئی صاحب جنس ضرورت کی بنا پر اپنی جنس تیار ہونے یے پہلے ہی بیع کر لیتا ہے کہ مجھے اتنی قیمت ابھی ادا کر دو تو جنس کے تیار ہونے پر میں اتنی جنس آپ کو دے دوں گا )۔ اس کے بارے میں عبد اللہ بن عباس کی حدیث ہے ، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ طیبہ تشریف لائے ، دیکھا کہ لوگ ایک ایک ، دو دو اور تین تین سالوں تک بیع سلم کؤتے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا :
’’ جو شخص بیع سلم کرتا ہے وخ کاؓے جاتے اور تولے جانے والی معلوم چیزوں میں معلوم مدت تک بیع کرے ‘‘ ( نتفق علیہ )
اس حدیث رسول ﷺ سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو اس بیع پر برقرار رکھا اور صحابہ کرام آپ کے بعد بھی یہ بیع کرنے رہے جیسا کہ بخاری سریف کی کئی احادیث سے واضح ہے ۔ عبج اللہ بن عباس نے قرآن مجید کی آیت سے استدلال کیا ہے :
’’ اے ابمان والو جب تم آپس میں ایک مقررہ مدت تک لین دین کرو تو اس کو لکھ لیا کرو ‘‘
فرماتے ہیں ، میں گواہی دیتا ہوں بیع سلم اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حلال کیا ہے اور اس کی اجازت دی ہے ۔ پھر یہ آیت پڑھی ۔ ( المستدرک علی الصحیحن ) امام حاکم کہتے ہیں صحیح علی شرط الشیحین ولم یخرجاہ کہ یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ شریعت نے ایسی چیز کی بیع کی اجازت جی ہے جو معدوم ہو ۔ جب اس کے اوصاف وزن اور مدت وغیرہ معلوم ہو جائیں اور اس میں کسی قسم جہالت باقی نہ رہے ۔ اپنے دوسر ے سوال کا جواب علامہ ابن القیم کی زبانی سنئے فرماتے ہیں :
" إذا الحاجة التى لأجلها شرع الله ورسوله السلم الإرتفاق من الجانبين هذا يرتفق بتعجيل الثمن وهذا يرتفق برخص الثمن"’’ کہ دس ضرورت کی بنا پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے بیع سلم کو جائز قرار دیا ہے وہ یہ ہے کہ دونوں جانبوں سے ایک فریق کو جلدی قیمت حاصل ہو جائے اور دوسرے کو چیز سستی جاصل ہونے کی سہولت مل جاتی ہے ‘‘ ( اعلام المعوقعین ج1،ص 302)
اسلم نے جب اس بیع کو جائز قرار دیا ہے تو اسے سود نہیں کہا جا سکتا بلکہ یہ تو ایم اسلامی تدبیر ہے دی کی وجہ سے انسان سود پر قرض لینے سے بچ سکتا ہے ۔ لوگ اس کو اپنا لیں تو سود پر قرض لینے سے مسلمان کی جان چھوٹ سمتی ہے ۔ ویسے بھی مجلہ الدعوۃ کے بارہ میں یہ بیع اس وقت ہے جب اس کو بیع قرار دبا جائے حالانکہ یہ قطعا بیہ نہیں ہے بلکہ تھوڑا سا زر تعاون ہے جو لوگوں سے وصول کیا جاتا ہے ۔ اصل مقصد خدا کو اللہ کی توحید اور اللہ کے رسول ﷺ کی سنت سے روشناس کر کے نبوی منہج پر چلانا ہے ، تا کہ لوگ ذلت و پستی سے نکل کر عزت و رفعت کا راستہ اپنا لیں ۔