سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(132) انعامی بانڈز اور ان کے نمبروں کی فوٹو کاپیوں کا کاروبار

  • 14738
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1592

سوال

(132) انعامی بانڈز اور ان کے نمبروں کی فوٹو کاپیوں کا کاروبار
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے پرائز بانڈ جاری کئے جاتے ہیں کیا یہ صحیح ہے؟ علاوہ ازیں موجودہ دور میں ان بانڈز کے صرف نمبرز کی فوٹو کاپیاں بازار سے ملتی ہیں۔ ان پر بھی انعامات نکلتے ہیں اور انعام نہ نکلنے کی صورت میں خریدنے والے کے پیسے ضائع ہو جاتے ہیں۔ قرآن و سنت کی روشنی میں واضح کریں کہ بانڈز بیچنے اور بانڈز خریدنے والے شخص کے متعلق کیا حکم ہے؟ قرعہ اندازی کے نتیجہ میں ملنے والے پیسوں سے تیار ہونے والے کھانے اور برپا ہونے والی تقاریب کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

انعامی بانڈز جو حکومت کی طرف سے جاری کئے جاتے ہیں سود ہی کی ایک صورت ہے جس کے ساتھ جوئے کی آمیزش کی گئی ہے۔ حکومت انعامی بانڈز فروخت کر کے بہت سے لوگوں سے رقم جمع کرتی ہے اور ان کو گارنٹی دیتی ہے کہ آپ کی اصل رقم محفوظ ہے۔ اگر آپ کا نمبر نکل آیا تو انعام دیا جائے گا یہ انعام اس ساری جمع شدہ رقم کا سود ہے جو حرام ہے اور اگر جائز بھی ہو تو ان تمام لوگوں کا حق ہے جنہوں نے رقم جمع کروائی ہے مگر وہ ان سب کا حق صرف اتفاق سے نکل آنے والے نمبروں کو دیتے ہیں جس کی بنیاد کسی استحقاق یا قاعدے پر نہیں، صرف بخت و اتفاق ہے اور اسی کا نام جوا ہے۔ اس لئے انعامی بانڈز خریدنا حرام ہے۔ بانڈز کی دوسری صورت جس میں انعام نہ نکلنے کی صورت میں خریدنے والے کے پیسے ضائع ہو جاتے ہیں۔ صاف جوا اور حرام ہے جس طرح قسمت کی پڑیا، لاٹری کی تمام صورتیں، اخبارات کے پزل (معمے) مختلف قسم کے ریفل ٹکٹ، سب جوئے کی صورتیں ہیں اورحرام ہیں ۔ ایسے انعامات سے تیار ہونے والے کھانے اور برپا کی جانے والی تقریبات حرام ہیں اور اس میں شرکت بالکل ناجائز ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

تبصرے