سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(117) غیر شعوری عمر کا نکاح

  • 14722
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1459

سوال

(117) غیر شعوری عمر کا نکاح
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علماء دین اس فیصلہ کے بارے میں کہ میرے والد نے میری بہن کا نکاح اپنے کسی عزیز سے کردیا تھا جبکہ میری بہن اتنی کمسن تھی کہ اس کو اپنے نکاح کا ہونا بالکل یاد نہیں۔ تقریباً دو ماہ کی عمر تھی۔ بالغ ہونے کے بعد میری بہن کو جب معلوم ہوا کہ اس کا نکاح اس کے والد نے فلاں آدمی سے کیا ہوا ہے تو اس نے نکاح کو قائم رکھنے سے انکار کر دیا اب وہ اس آدمی سے نکاح نہیں رکھنا چاہتی لہٰذا کتاب و سنت کی رو سے وضاحت فرماے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے ۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(( لا تنكح الأيم حتى تستأمر  ولا تنكح البكر حتى  تستاذن  قيل وما  إذنها  يا رسول الله  قال أن تسكت.))

            ''بیوہ کا نکاح اس کا امر حاصل کئے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری لڑکی کا نکاح اس کا اذن(اجازت) حاصل کئے بغیر نہ کیا جائے۔ کہا گیا اس کا اِذن کیا ہے اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم ،  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چپ رہنا اس کا اذن ہے (کیونکہ وہ شرم کے مارے بول بولتی نہیں)''۔(المنتقٰی لابن جارود۷۰۷، واللفظ لہ بخاری مع فتح۹/۱۹۱،۱۲/۳۳۹،۲۴۰،مسلم مع نووی۹/۲۰۲، ابو دائود۱۰۹۲، نسائی۲/۸۵، ترمذی مع تحفہ۴/۲۴۰،ابنِ ماجہ (۱۸۷۱)

            اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بالغہ لڑکی سے اس کے نکاح کی اجازت لی جاتی ہے اور جب وہ نا بالغہ ہوتی ہے تو بچپن میں اس سے اجازت نہیں لی جاتی۔ اس کا ولی نکاح کر سکتا ہے بعد از بلوغت اس لڑکی کو اختیار ہوتا ہے کیونکہ اس کا حق ہے وہ اپنا نکاح اگر منسوخ کرانا چاہے تو کراسکتی ہے:

((عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ جَارِيَةً بِكْرًا أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَتْ «أَنَّ أَبَاهَا زَوَّجَهَا وَهِيَ كَارِهَةٌ، فَخَيَّرَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ))

            ''سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک کنواری لڑکی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور بیان کیا کہ اس کے باپ نے اس کا نکاح کیا ہے اور وہ نا پسند کرتی ہے تو نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار دے دیا۔'' (ابو دائود(۲۹۰۶)احمد۱/۲۷۳۔۲۴۶۵۔،ابنِ ماجہ۱۸۷۵۔۲/۲۰۳)

علامہ احمد حسن دہلوی راقم ہیں:

" ألحديث يدل  على تحريم  إجبار  الأب  لأبنه  البكر  على  النكاح  و غيره  من الأولياؤ بالأولى ."

            ''یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ باپ کے لئے حرام ہے کہ وہ اپنی کنواری بیٹی کو نکاح پر مجبور کرے تو باپ کے علاوہ لڑکی کے اولیاء (دیگر رشتہ داروں) کے بالا ولی جبر کی ممانعت ہے''۔(تنقیح الرواة۳/۱۰)

            مذکورہ بالا حدیث صحیح سے معلوم ہوا کہ لڑکی کو بالغ ہوجانے کے بعد اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنا بچپن کا کیا ہوا نکاح فسخ کراسکتی ہے ۔ فسخ کے لئے چاہیں تو ثالثی شرعی عدالت کی طرف رجوع کر لیں تا کہ مزاحمت وغیرہ کا اندیشہ نہ ہو۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

تبصرے