سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(114) نکاح میں ذات پات کی کوئی قید نہیں

  • 14719
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2052

سوال

(114) نکاح میں ذات پات کی کوئی قید نہیں
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا کوئی سید اپنی بیٹی کی شادی غیر سید سے کر سکتا ہے؟ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایسا واقعہ ہے؟ اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو پھر جس طرح ہندوؤں میں ذات پات کا تصور ہے تو ہم میں اور ان میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سیدہ ہاشمیہ لڑکی کا نکاح کسی بھی مسلمان سے بلا شک و شبہ درست ہے کیونکہ ترجیح اور برتری کی بنیاد نسلی امتیازات اور خاندانی حسب و نسب ، جاہ وجلال ، مال و زر ، ذات و براردری وغیرہ کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ یہ تقویٰ ، پرہیزگاری، خوف خدا وغیرہ جیسی صفات عالیہ پر موقوف ہے، جیسا کہ آپ  ۖنے حجة الوداع کے موقع پر خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے اس بات کی وضاحت اچھی طرح فرما دی تھی۔ کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر، کسی کالے کو کسی گورے پر، سفید کو سیاہ پر کوئی برتری نہیں۔ ہر مسلمان کی حرمت برابر و مقدس ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّـهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ﴿١٣﴾...الحجرات

            ''اے لوگوں ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور ہم نے تم سب کو مختلف قومیں اور قبیلے اس لئے بنایا کہ تم ایک دوسرے کو پہچان لیا کرو، اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیز گار ہے، بے شک اللہ تعالیٰ جاننے والا خبردار ہے''

            یعنی ایک ماں باپ کی اولاد ہونے کی بنا پر تم سب برابر ہو لہٰذا کسی بھی فرد کا اپنے حسب و نسب پر فخر کرنا اور دوسرے کو حقیر و ذلیل سمجھنا جہالت و بے وقوفی اور نادانی ہے۔ اگرچہ باعتبار اصل تم سب ایک اور یکساں ہو لیکن تمہارا مختلف خاندانوں ، قبیلوں اور قوموں میں منقسم ہونا ایک فطری امر تھا۔ اس لئے ہم نے تمہاری تقسیم کر دی مگر اس تقسیم کا مقصد برتری اور کمتری نہیں۔ عزت اور ذلت کا معیار قائم کرنا نہیں۔ بلکہ ایک دوسرے کی پہنچان اور معرفت ہے۔

            خلاصہ کلام یہ ہے کہ کسی ایک و دوسرے پر خاندانی حسب و نسب اور نسلی امتیازات کی وجہ سے کوئی ترجیح نہیں بلکہ یہ ترجیح ، تقویٰ، پرہیز گاری پر موقوف ہے لہٰذا سید اور غیر سید یکساں اور اولاد آدم سے ہی ہیں۔

(۲)       ایک اور مقام پر فرمایا کہ:

﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ ... ١٠﴾...الجرات

            ''مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں''(حجرات : ۱۰)

(۳)      سورۂ نسا ء میں فرمایا:

﴿فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ ... ٣﴾...النساء

            ''پس جو عورتیں تم کو اچھی لگیں ان سے نکاح کر لو''(الایہ)

(۴)      اللہ تعالیٰ نے حرام عورتوں کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا:

﴿وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ ... ٢٤﴾...النساء

            ''ان مذکورہ حرام رشتوں کے علاوہ اور عورتیں تمہارے لئے حلال ہیں''(الایہ)

            یہ چاروں آیاتِ مقدسہ اس بات کی دلیل ہیںکہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور مسلم معاشرے کے یکساں فرد اور معزز ارکان ہیں۔ یعنی سید اور غیر سید سب برابر ہیں اور ایک دوسرے کا کفو ہیں پس ایک سیدہ لڑکی کا نکاح غیر سید مسلم شخص کے ساتھ جائز ہے اس کی متعدد مثالیں تاریخ اسلام میں موجودہیں:

۱)         رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پھوپھی امیمہ بنت عبدالمطلب کی بیٹی زینب بنت حجش کا نکاح زید رضی اللہ عنہ کے ساتھ کر دیا تھا جو کا ذکر سورۂ احزاب میں موجودہے حالانکہ زید غلام تھے اور بی بی زینب قریشی کاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔

۲)        اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کا نکاح فاطمہ بنت قیس القرشیہ سے ہوا۔

۳)        سید بلال حبشی رضی اللہ عنہ کا نکاح حضرت عبدالرحمٰن بن عوف کی بہن سے ہوا۔ سیدنا بلال حبشی غلام تھے جن کو سیدنا ابو بکر صدیق نے آزاد کیا تھا اور عبدالرحمٰن بن عوف قبیلہ قریش کے سربر آوردہ اور مشہور و معروف تاجر اور رئیس اور عشرہ مبشرہ کے رکن رکین تھے۔

۴)        نبی کریم  ۖنے قبیلہ بنو بیاضہ کو ابو ہند کے ساتھ مناکحت (رشتہ لینا دینا) کا حکم دیا تھا اور ابو ہند حجام تھا۔

۵)        ابو حذیفہ بن عتبہ ربیعہ بدری نے اپنی بھتیجی ہند بنت ولید بن عتبہ بن ربعیہ کا نکاح ، سیدنا سالم رضی اللہ عنہ جو ایک انصاری عورت کے آزاد کردہ غلام تھے، کے ساتھ کر دیا۔ (الروضہ الندیہ ٧٢)

۶)        سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی اُمِ کلثوم بنت فاطمہ رضی اللہ عنہ کا نکاح حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کیا تھا۔ اس نکاح کا ذکر شیعہ سنی ہر دو کی معتبر کتب میں موجود ہے۔

۷)        نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دونوں بیٹیوں سیدہ رقیہ ، سیدہ اُم کلثوم کا نکاح یکے بعد دیگرے سیدنا عثمان سے کیا تھا جبکہ آپ ہاشمی اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اموی تھے۔

۸)        سیدنا علی بن حسین جو زین العابدین کے نام سے معروف ہیں کا نکاح شہر بانو بنت یزد جرد بن شہریار سے ہوا۔ (الروضہ الندیہ۲/۹)

            اس کے علاوہ بے شمار عملی ثبوت موجود ہیں کہ امویوں کے رشتے ہاشمیوں سے ہاشمیوں کے اُمویوں سے ہوئے۔ قاضی شوکانی فرماتے ہیں کہ:

"وَقَدْ جَزَمَ بِأَنَّ اعْتِبَارَ الْكَفَاءَةِ مُخْتَصٌّ بِالدِّينِ مَالِكٌوَنُقِلَ عَنْ عُمَرَ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَمِنْ التَّابِعِينَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ وَعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، وَيَدُلُّ عَلَيْهِ قَوْله تَعَالَى: {إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ} [الحجرات: 13]"

قد جزم بان اعتبار الکفاء ۃ مختص بالدین مالک و نقل عن عمرو ابن مسعود و من التابعین عن محمد بن سیرن و عمر بن عبدالعزیز و یدل علیہ قولہ تعالی (ان اکرمکم عند اللہ اتقکم) (نیل الاوطار ۲/۱۴۶)

            ''امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک کفو کا اعتبار دین کے ساتھ خاص ہے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سیند نا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی یہی منقول ہے اور تابعین میں سے محمد بن سیر ین اور عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مسلک ہے اور اللہ تعالیٰ کا فرمان: بی اس پر دلالت کرتا ہے۔ امام ابنِ قیم رحمة اللہ علیہ نے بھی اسے ہی ترجیح دی ہے''(فقہ السنہ ۲/۱۲۸)

            لہٰذا کتاب و سنت کی رو سے نکاح میں کفو کے لئے صرف دین کی شرط ہے اور دین کے باقی چیزوں کی حیثیت ثانوی ہے ۔ ہمارے ملک میں جو یہ بات رائج اور معروف ہے کہ اپنی برادری کے علاوہ کسی دوسری برادری میں رشتہ نہیں کرنا چاہیے سراسر غلط اور جہالت پر مبنی ہے اور ذات پات کی یہ قیود اور حد بندیاں ہندوؤں سے اخذ کی ہوئی ہیں جس کی کوئی حیثیت نہیں یہ ساری باتیں قرّن و سنت سے ناواقفیت کا نتیجہ ہیں۔ 

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

تبصرے