سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(104) مسنون تراویح

  • 14710
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1333

سوال

(104) مسنون تراویح
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نمازِ تراویح کتنی رکعت ہے؟ کیا تہجد اور تراویح آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے علیحدہ علیحدہ پڑھی تھیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نمازِ تراویح جسے ہم رمضان المبارک کی راتوں میں ادا کرتے ہیں، احادیث میں اسے قیامِ رمضان ، قیام اللیل اور صلوة الوتر کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  یہ نماز رمضان المبارک میں اور اس کے علاوہ باقی مہینوں میں گیارہ رکعات ادا فرمایا کرتے تھے۔ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک میں تین رات اس کی جماعت کروائی تھی۔ پھر فرضیت کے خوف سے اس کو ترک کر دیا اور یہ بھی احادیث میں وارد ہوا ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی جماعت کی فضیلت ذکر کی ہے جیسا کہ ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں آخری ہفتہ میں تین طاق راتوں میں اس طرح نماز پڑھائی کہ پہلی رات کو اوّل وقت میں اور دوسری رات کو نصف شب میں۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ اس رات کا قیام بڑھا دیں۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(( إن الرجل  إذا صلى مع الإمام حتى  ينصرف  حسب له قيام ليلة .))

''یقینا جب آدمی امام کے ساتھ نماز ادا کرے اس کے پھرنے یعنی امام کے نماز کو ختم کرنے تک ، تو اس کے لئے پوری رات کا قیام شمار کیا جائے گا''۔

پھر تیسری رات کو آخر شب میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل و عیال اور دیگر لوگوں کو جمع کیا، نماز پڑھائی یہاں تک کہ ہمیں فلاح یعنی سحری کے فوت ہونے کا ڈر لگا۔ (ابنِ ماجہ ، ابو دائود وغیرہ)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رمضان المبارک میں رات کے وقت امام کے ساتھ قیام کرنا مشروع اور باعث فضیلت ہے ۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف فرضیت کی بنا پر اس کو ترک فرمایا تھا اور نماز کی فرضیت کا تعلق آ پ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی حیات مبارکہ کے ساتھ تھا۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس کو کوئی فرض قرار نہیں دے سکتا۔ لہٰذا اب یہ قیام مع الامام جائز اور باعث ثواب ہے۔

            نمازِ تراویح کی تعداد صحیح احادیث میں جو مذکور ہوئی ہیں ، وہ گیارہ رکعات ہیں جیسا کہ اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ:

((كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِيمَا بَيْنَ أَنْ يَفْرُغَ مِنْ صَلَاةِ الْعِشَاءِ - وَهِيَ الَّتِي يَدْعُو النَّاسُ الْعَتَمَةَ - إِلَى الْفَجْرِ، إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُسَلِّمُ بَيْنَ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ، وَيُوتِرُ بِوَاحِدَة.))

''نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد صبح تک گیارہ رکعات پڑھتے تھے اور ہر دو رکعتوں پر سلام پھیرتے تھے اور ایک وتر پڑھتے تھے۔ عشاء کی نماز کو لوگ ''عتمہ''بھی کہتے ہیں''۔(صحیح مسلم۱/۲۵۴)

اسی طرح صحیح بخاری ٢٦٩١ باب قیام النبی  صلی اللہ علیہ وسلم فی رمضان وغیرہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے سوال کیا:

((كَيْفَ كَانَتْ صَلاَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ: «مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلاَ فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً.))

''رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان میں نماز کیسی ہوتی تھی تو انہوں نے فرمایا ۔ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے''۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سائل نے رمضان المبارک کی راتوں کو ادا کی جانے والی نماز کے بارے مٰں وال کی اتت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے انہیں رمضان المبارک کے متعلق بھی جواب دیا اور ساتھ افادہ زائدہ کے طور پر غیر رمضان کے متعلق بھی بتایا کہ غیر رمضان میں بھی نبی  صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعات ادا کرتے تھے جو نماز عشاء کے بعد سے لے کر نماز فجر تک ادا کرتے ۔

            نوٹ:  بریلوی حضرات کے چند علماء مثلاً مولوی امجد علی ، احمد علی وغیرہ نے مل کر بخاری شریف کا جو ترجمہ اور حواشی لکھے ہیں انہوں نے اس حدیث میں تحریف کی ہے اور فی رمضان کے الفاظ عربی متن سے بھی اور اردو ترجمہ سے بھی خارج کر دیئے ہیں کیونکہ فی رمضان کے الفاظ اس بات کو متعین کر تے ہیں کہ سائل کا سوال نمازِ تراویح کے متعلق تھا۔ اُن کی اس خیانت کو ہمیشہ مد نظر رکھیںَ
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

تبصرے