سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(100) اعتکاف کے مسائل

  • 14707
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 7612

سوال

(100) اعتکاف کے مسائل
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اعتکاف کے مسائل


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اعتکاف عکوف سے مشتق ہے جس کا لغوی معنی کسی جگہ بیٹھ جا نا ہے۔ لیکن اصطلاحِ شرع میں کسی شخص کا ایک خاص مدت کے لئے مخصوص صفت کے ساتھ مسجد کے ایک گوشہ میں اقامت گزین ہونا اور خلوت و تنہائی میں اللہ کی عبادت یعنی نوافل، تلاوتِ قرآن و حدیث، ذکر و اذکار کے لئے وقف ہو جانا ہے۔ ملاحظہ کیجئے طرح التثریب ۴/۱۶۶ مفر دات القرآن ص ۳۴۳، شرح مسلم للنووی۷/۶۶۔یہ عمل آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا سنت مؤکدہ ہے ۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم مدنی زندگی میں ہر سال اعتکاف کرتے تھے۔ ایک سال کسی سفر کی بنا پر اعتکاف چھوٹ گیا تو دوسرے سال بیس دن اعتکاف کر لیا۔ حدیث میں آتا ہے:

(( عن عبد اللہ بن عمر قال کان النبی صلى الله عليه وسلم  يعتكف العشر الأواخر من رمضان .))

''سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم ماہ رمضان کے آخری دس دن اعتکاف میں بیٹھتے تھے۔''  (بخاری۱۲۷۱)

(( عن  أبى  بن كعب أن النبى  صلى الله عليه وسلم  كان يعتكف الأواخر من رمضان فسافر عاما  فلم يعكتف  فلما كان العام  المقبل اعتكف عشرين .))

''سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے تھے، ایک سال آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کیا ، اعتکاف نہ کیا تو آئندہ سال آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس دن کا اعتکاف کیا۔'' (نسائی، ابو دائود، ابن حبان، فتح الباری۱/۳۳۲)

مسنون اعتکاف یہ ہے کہ رمضان کے آخری دس دنوں کا اعتکاف کیا جائے البتہ اس سے کم وقت یعنی ایک دن یا رات وغیرہ کے لئے اعتکاف ہو سکتا ہے جیسا کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروہی ہے:

(( أن  عمر سأل النبى  صلى الله عليه وسلم  قال كنت  نذرت  فى الجاهلية أن أعتكف ليلة  فى المسجد الحرام فقال فأوف  بنذرك.))

''سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں مسجد حرام میں ایک رات اعتکاف کرنے کی نذر مانی تھی تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اپنی نذر پوری کر۔ ''(بخاری۱/۲۷۲)

یہی حدیث امام ابنِ ماجہ رحمة اللہ علیہ اپنی سنن میں باب فی اعتکاف یوم اولیلة (یعنی ایک دن یا رات کا اعتکاف کرنا ) میں لائے ہیں۔ (۱/۵۲۳)

            اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص دن رات یا کچھ حصے کی نذر مان لیتا ہے کہ میں اتنا وقت اعتکاف کروں گا تو اسے نذر پوری کرنی چاہیے۔

            علاوہ ازیں رمضان کے مہینے کے علاوہ بھی دیگر مہینوں میں اعتکاف ہو سکتا ہے جیسا کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال میں اعتکاف کیا۔ (بخاری۴/۲۲۶، مسلم۱۱۳۷)

شرائط:  اعتکاف مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ مشروع و جائز نہیں۔

اللہ تعالیٰ کا ارشادہے :

﴿وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ ... ١٨٧﴾... البقرۃ

            ''اور تم ان سے مباشرت نہ کرو، اس حال میں کہ تم مساجد میں اعتکاف میں بیٹھے ہوئے ہو۔''

            نبی  صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں یہی بات شامل ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں اعتکاف میں بیٹھا کرتے تھے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ:

(( السنة لا اعتكاف إلا بصوم ولا اعتكاف إلا  فى مسجد جامع ))                                                               

            ''سنت یہ ہے کہ اعتکاف روزہ کی ساتھ ہی ہوتا ہے اور جامع مسجد میں ہوتا ہے''۔ (ابو دائود ۱/۳۳۵)

            عورت اگر اعتکاف میں بیٹھنا چاہے تو وہ بھی مسجد میں ہی اعتکاف کر سکتی ہے۔ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہا بھی مسجد میں اعتکاف میں بیٹھا کرتی تھیں۔ صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرتے تھے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات دے دی۔ پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے اعتکاف کیا۔ دوسری روایت میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضٰ اللہ عنھا نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی۔ فضربت فیہ قبۃانہوں نے مسجد میں خیمہ لگایا۔ (بخاری۱/۷۲۳)

            سیدہ عائشہ رضٰ اللہ عنھا کا فرمان اوپر گزر چکا ہے کہ اعتکاف صرف جامع مسجد میں ہوتا ہے اس لئے اگر عورت  اعتکاف کرنا چاہے تو مسجد میں ہی اس کا انتظام کرنا پڑے گا البتہ علامہ ناصر الدین البانی حفظہ اللہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کی اس حدیث:

''کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ازواج مطہرات رضی اللہ عنہا نے اعتکاف کیا '' پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

" و فيه دليل جواز اعتكاف  النساء ولا شك ان ذلك مقيد بإذن  أليائهن لذلك و امن  الفتنة  و الخلوة مع الرجال  للأدلة  الكثيرة  فى ذلك  والقاعدة  الفقهية  درء  المفاسد مقدم  على جلب المصالح صفة صوم النبى صلى الله عليه وسلم ."

''اس حدیث میں عورتوں کے اعتکاف پر جواز کی دلیل ہے اور بلا شبہ یہ بات عورتوں کے ولیوں کی اجازت، فتنہ اور مردوں کے ساتھ خلوت سے بچائو کے ساتھ مقید (مشروط) ہے۔''یعنی فسادات اور فتنہ کا اگر خدشہ ہو تو پھر ان سے اجتناب کرنا اوربچنا یہ مصلحتوں کے حاصل کرنے سے زیادہ ضروری اور مقدم ہے۔

اعتکاف کا طریقہ

            اعتکاف کے متعلق اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث تو اوپر گزر چکی ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے تھے۔ دوسری حدیث یہ ہے:

(( عن عائشة قالت كان  صلى الله عليه وسلم  قالت  كان صلى الله علیه وسلم  إذا أراد  أن يعتكف صلى الفجر ثم  دخل معتكفه.))

''سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف بیٹھنے کا ارادہ کرتے تو فجر کی نماز پڑھ کر جاتے اعتکاف میں داخل ہو جاتے ۔'' (صحیح مسلم، ابو دائود۳۳۴)

            ان احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے عام اہل علم یہ بات لکھتے ہیں کہ آخری عشرہ کا آغاز بیس رمضان کا سورج غروب ہوتے ہی ہو جاتا ہے۔ لہٰذا معتکف کو چاہیے کہ اکیسویں رات شروع ہوتے ہی مسجد میں آجائے۔ رات بھر تلاوت قرآن ، ذکر الٰہی ، تسبیح و تہلیل اور نوافل میں مصروف رہے اور صبح نماز فجر ادا کر کے اپنے اعتکاف کی جگہ میں داخل ہو جائے۔

            جبکہ دوسرا موقف جو ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرے کا اعتکاف بیٹھتے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اعتکاف کا آغاز نماز صبح کے بعد کرتے اکیس یا بیس کی صبح کو اس کا تعین واضح نہیں۔ بہتر یہ ہے کہ معتکف بیس رمضان کی فجر کی نماز پڑھ کر اعتکاف کا آغاز کرے تا کہ اکیس کی رات معتکف میں آئے کیونکہ اعتکاف لیلۃ القدر کی تلاش کا ایک ذریعہ ہے جیسا کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے لیلۃ القدر میں دو عشرے اعتکاف کیا۔ نہ ملی تو پھرآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرے اور آخری عشرے کا اعتکاف کیا۔ تسلسل بھی جاری رکھا حتیٰ کہ جو صحابہ رضی اللہ عنہم آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اعتکاف کر رہے تھے ۔ ان میں سے بعض بیسویں کی صبح اپنا بوریا بستر اٹھا کر گھر میں بھی پہنچا چکے تھے۔ تب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ جو میرے ساتھ اعتکاف کر رہا ہے وہ اپنے اعتکاف کو جاری رکھے۔ بیسویں رمضان تھی اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے پھر سے آخری عشرے کا آغاز کر دیا۔ (بخاری)

            ذرا غور فرمائیں کہ آخری عشرے کا اعتکاف اکیسویں رات بعد از غروبِ آفتاب شروع ہوتا ہے تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اکیسویں رات کو ہی بلا لیتے اور کہہ دیتے کہ تم نے معتکف تو توڑ پھوڑ دیا ہے ۔اب رات مسجد میں گزارو اور کل صبح یعنی اکیسویں کی صبح کی نماز کے بعد دوبارہ معتکف میں داخل ہو جا نا تا کہ تمہارا آخری عشرے کا اعتکاف پورا ہو جائے۔ ملاحظہ ہو مولانا عبدالسلام بستوی کے ''اسلامی خطبات''۔ان حضرات کا یہ کہنا ہے کہ اگر ٢٠ کی صبح کو مسجد میں آجائے تو ذہنی طور پر لیلۃ القدر کی تلاش کے لئے اکیسویں کو پورا تیار ہو جاتا ہے جبکہ دوسرے موقف کے لحاظ سے اکیسویں رات جائے اعتکاف سے باہر گزاری اور اعتکاف کے ارادے سے اکیس کی صبح کو معتکف میں داخل ہوا تو آخری عشرے سے ایک رات خارج ہو جائے گی جو ایک نقص بھی ہے لہٰذا زیادہ مناسب اور موزوں یہ ہے کہ بیسویں کی صبح کو مسجد میں آجائے اور نماز کی ادائیگی اپنے معتکف میں تیار ہو کر بیٹھ جائے۔ اس صورت میں دونوں احادیث پر بہتر عمل ہو جائے گا۔ صر ف آخری عشرہ سے١٢گھنٹوں کا اضافہ ہو گا اور اس اضافے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ حافظ عبداللہ بہاولپوری رحمة اللہ علیہ بھی اسی موقف کے قائل تھے اور یہ موقف مبنی بر احتیاط ہے۔ واللہ اعلم

            جائز امور:  معتکف کے لئے حالتِ اعتکاف میں نہانا، سر میں کنگھی کرنا، تیل لگانا اور حاجاتِ ضروریہ مثلاً پیشاب ، پاخانہ ، فرض غسل وغیرہ کے لئے جانا درست ہے۔ (بخاری۱/۲۷۲)

            اعتکاف بیٹھنے والے کو بلا عذر شرعی اپنے معتکف سے باہر نہیں جانا چاہیے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

تبصرے