آج کل مساجد کی تزئین و آرائش پر بلا ضرورت بہت زیادہ خرچ کیا جاتا ہے،کیا شرعا ایسا کرنا جائز ہے۔؟
جو چیز آرائش اور تزئین میں داخل ہے مثلا دیواروں پر ٹائلیں لگانا وغیرہ یا ضرورت سے زائد لائٹنگ وغیرہ تو وہ ممنوع ہے اور جس میں راحت وسکون کا پہلو ہو تو اس کی اجازت نکلتی ہے جیسا کہ اے۔سی وغیرہ ۔ایک روایت کے الفاظ ہیں:
رواه أبو داود ( 449 ) والنسائي ( 689 ) وابن ماجة ( 739 ) وصححه الألباني في " صحيح أبي داود "۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک کہ لوگوں مساجد میں باہم فخر نہ کرنے لگیں۔
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک اثر میں ہے:
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ تم مساجد کی تزئین وآرائش اسی طرح کرو گے جیسا کہ یہود ونصاری نے اپنی عبادت گاہوں کی کی ہے۔
۲۔ جب مساجد کی تزئین وآرائش جائز نہیں ہے تو اس میں فی سبیل اللہ کی مد میں خرچ بھی درست نہیں ہے۔الموسوعۃ الفقھیۃ میں ہے کہ حنفیہ اور حنابلہ کے نزدیک مال وقف کےساتھ مساجد کی تزئین وآرائش حرام کام ہے۔ شافعیہ کا قول بھی یہی ہے کہ مال وقف کو اس مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے۔
وفي " الموسوعة الفقهية " ( 11 / 275 ) :
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب