سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(82) مردہ پیدا ہونے والے بچے کا نماز جنازہ؟

  • 14691
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1619

سوال

(82) مردہ پیدا ہونے والے بچے کا نماز جنازہ؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا بچہ مردہ نا تمام پیدا ہو تو اس کانماز جنازہ ہو جائیگا ؟ یا نہیں ۔ قرآن و حدیث کی روشنی سے واضح کریں ۔ 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مردہ یا نا تمام بچے کا نماز جنازہ اداکرنا شرعاً مشروع و جائز ہے۔ حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ :

(( عن المغيرة بن شعبة  أن النبى صلى الله عليه وسلم قال الراكب يسير خلف الجنازة والماشى يمشى خلفها و امامها و عن يمينها وعن يسارها قريبا منها والسقط يصلى عليه  ويدعى لوالديه  بالمغفرة  والرحمة .))

            '' مغیرہ بن شعبہ  نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سوار جنازہ کے پیچھے چلے اور پیدل آگے اور پیچھے اور دائیں اور بائیں ۔ اس کے قریب رہ کر چلیں اور نا تمام بچے پر بھی نماز پڑھی جائے اور اس کے ماں باپ کیلئے رحمت اور بخشش کی دعا کی جائے ''۔(ابو داؤد (۳۱۸۰)۳/۲۰۵، احمد (۷۷۱۶،۷۷۰۹) ،۵/۳۰۲،۳۰۴، حاکم۱/۳۶۳)

علامہ البانی حفظہ اللہ احکام الجنائز ص۸۱میں لکھتے ہیں :

            '' او ریہ بات بھی ظاہر ہے کہ '' ناتمام '' سے مراد وہ بچہ ہے جس کے چار ماہ مکمل ہو چکے ہوں اور اس میں روح پھونکی گئی ہو۔ پھر وفات پا ئے۔ البتہ اس سے پہلے کی صور ت اگر  ساقطہ ہو جائے تو ادا نہیں کی جائے گی ۔ اس لئے کہ وہ میت کہلاہی نہیں سکتی ۔ اس بات کی وضاحت ابن مسعود کی اس مرفوع رویات سے ہوتی ہے :

(( إن خلق أحدكم  يجمع فى بطن أمه أربعين يوما ثم يكون علقة مثل ذلك ثم يكون مضغة  مثل ذلك ثم يبعث الله إليه ملكا ينفخ فيه الروح.))

            '' یقینا تمہاری تخلیق کا طریقہ کار یہ یہ ہے کہ چالیس دن تک وہ ماں کے پیٹ میں نطفے کی شکل میں پڑا رہتا ہے ۔ پھرا تنے ہی دن تک لو تھڑے کی شکل میں ، پھر اتنے ہی دن تک بوٹی کی طرح رہتا ہے ، پھر اللہ تعالیٰ اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو اس میں روح پھونکتا ہے '' (متفق علیہ )

            لہٰذا جس بچے کے چار ماہ مکمل ہوں اورا س میں روح پھونکی گئی ہو ، وہ نا تمام پیدا ہوا ہو توا سکا نماز جنازہ ادا کیا جا سکتا ہے او ر روح پھونکے جانے سے قبل ہی سقط ہو جائے، اس کا نماز جنازہ ادا نہیں کیاجائیگا۔ کیونکہ اس کو میت نہیں کہا جا سکتا۔ بعض علماء نے یہ شرط لگائی ہے کہ بچہ زندہ پیدا ہو خواہ ایک دفعہ ہی اُس نے سانس لیا اور اس کی دلیل یہ روایت پیش کرتے ہیں :

(( إذا استهل السقط صلى عليه و ورث.))

            '' جب بچے پیدا ہونے والا چیخنے تو اس کی نماز بھی پڑھائی جائے گی اور وہ وارث بھی ہوگا''۔

            علاہ البانی حفظہ اللہ احکام الجنائز ص۸۱پر فرماتے ہیں یہ روایت ضعیف اور نا قابل حجت ہے۔ اس روایت کی تفصیل التلخیص الحبیر۶/۱۴۶۔ ۱۴۷ المجموع۵/۲۵۵ اور '' نقد التاج الجامع  للاصول الخمسہ (۲۹۳) پر موجود ہے۔ 
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

تبصرے