سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(244) ننگے سر نماز پڑھنا

  • 14682
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1447

سوال

(244) ننگے سر نماز پڑھنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ننگے سر مرد کی نماز ہو جاتی ہے یا نہیں ۔ میں نے مسعود بی ایس سی کا ایک پمفلٹ پڑھا، اس میں لکھا ہے کہ نبی کریم ؑنے نے کبھی ننگے سر نماز نہیں پڑھی اور جابر والی روایت ثابت ہی نہیں۔ برائے مہربانی قرآن اور حدیث کے مکمل دلائل سے وضاحت کریں۔

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز میں ستر ڈھانپنا واجب ہے اور کندھوں پر بھی کسی چیز کا ہونا ضروری ہے ۔ اس کے علاوہ کپڑے شریعت میں ضروری طور پر ثابت نہیں ہیں رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم   نے صرف ایک کپڑے میں بھی نماز پڑھی ہے جیسا کہ سیدنا جابر  سے مروی ہے ۔ ایک دن ایک کپڑے کو جسم پر لپیٹے نماز پڑھ رہے تھے جبکہ دوسرا کپڑا قریب رکھا ہوا تھا ۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو کسی نے کہا، آپ ایک ہی کپڑے میں نماز ادا کر رہے ہیں جبکہ دوسرا کپڑا آپ کے پاس موجود ہے ۔ انہوں نے کہا ہاں میں چاہتا ہوں کہ تہمارے جیسے جاہل مجھے دیکھ لیں۔ (رایت النبی صلی اللہ علیہ وسلم یصلی ھکذا )میں نے رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم   کو اسی طرح نماز پڑھتے دیکھا ہے۔   (بخاری شریف، کتاب الصلوة باب الصلوٰۃ بغیر رداء )
    بخاری شریف میں ہی ایک دوسری روایت میں ایک کپڑے میں نماز کی کیفیت بیان کی گئی ہے ( قد عقدہ من قبل قفاہ ) کپڑے کو اپنی گدی پر باندھا ہوا تھا۔ ( یعنی سر پر کچھ نہ تھا )
    دوسری دلیل ؛ عمر ابن سلم بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم   کو دیکھا ( یصلی فی ثوب واحد مشتملا به بیت ام سلمة واضعا طریفه علی عاتقیه ) اورمسلم شریف کی روایت میں متوشعا کے الفاظ ہیں ۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  ایک کپڑے میں نماز پڑھ رہے تھے اس کے دونوں کنارے اپنے کندھوں پر باندھے ہوئے تھے ۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم   کے سر پر وہ کپڑا نہ تھا۔
ہاں ! عورت کی نماز ننگے سر نہیں ہوتی رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم   فرماتے ہیں ۔

(( لا تقبل صلوة حائض إلا بخمار.))(ابو داؤد ,ترمذى , صححه البانى)

    '' بالغ عورت کی نماز ڈوپٹہ ( اوڑھنی ) کے بغیر نہیں ہوتی "
    یہ حدیث بھی اس کا بین ثبوت ہے کہ مرد کی ننگے سر نماز ہو جاتی ہے اس کیلئے ایسا کپڑا ضروری نہیں ورنہ نبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم   یہ کہہ دیتے مرد اور عورت کی نماز ننگے سر نہیں ہوتی ۔
    اب دلائل سے کوئی یہ مت سمجھے کہ ایک کپڑے میں نماز اسو قت درست تھی جب مسلمانوں کے پاس کپڑے کم تھے اور جب اللہ تعالیٰ نے وسعت دے دی تو سر ڈھانپنا واجب ہوگا۔ اس بات کی حقیقت معلوم کرنے کیلئے ہم امیر المومنین ابن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھتے ہیں کیونکہ وہ یقیناً ہم سے بڑھ کر شریعت کو سمجنے والے تھے ایسے ہی حالات میں کسی شخص نے ان سے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کے بارے میں پوچھا تو سیدنا عمررضی اللہ تعالی عنہ نے ایک سے زیادہ کپڑوں کو شمار کر لیا مگر ان میں سر ڈھانپنے والے کپڑے کا نام ہی نہیں (بخارى باب الصلوة فى القميص و السراويل)

    امیر المومنین رضی اللہ تعالی عنہ کو تو فراحی وسعت کے وقت بھی یہی سمجھ آئی کہ سر ڈھانپنا واجب نہیں ۔ اب ان احادیث صحیحہ مر فوعہ اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے فہم کو ترک کرکے اپنی عقل کو سامنے رکھنا ہر گز انصاف نہیں ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02

محدث فتویٰ

تبصرے