سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(64) خطبہ جمعہ کے دوران سنتیں پڑھنا

  • 14673
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 3836

سوال

(64) خطبہ جمعہ کے دوران سنتیں پڑھنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جب امام خطبہ دے رہا ہو تو اس وقت جب کوئی مسجد میں آئے تو کیا وہ دورکعت نماز پڑھے یا خطبہ سننے کیلئے چپ ہو کر بیٹھ جائے؟ ہمارے یہاں ایک حنفی مولوہ وہ کہتے ہیں کہ خطبہ کے دوران نماز نہیں ہوتی اس کی کتاب و سنت سے وضاحت کریں ۔ 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب امام خطبہ جمعہ دے رہا ہوا ورا سو قت اگر کوئی آدمی آئے تو اسے دو رکعت پڑھنے کے بغیر نہیں بیٹھنا چاہئے۔ کیونکہ حدیث میں آتا ہے :سلیک غطفانی مسجد میں آئے اور دو رکعت پڑھنے کے بغیر ہی بیٹھ گئے اس وقت اللہ کے رسول خطبہ دے رہے تھے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے پوچھا ( اصلیت رکتعین؟)کیا تو نے دور کعتیں پڑھ لی ہیں ؟ تو اُس نے جواب دیا نہیں ۔ آپ نے فرمایا : ( قم فصل رکعتین ) کھڑا ہو اور دو رکعت ادا کر ۔     (بخاری۱/۱۲۷، مسلم۲/۵۹۷، ابن ماجہ (۱۱۴) ابن خزیمہ (۱۸۳۸)
    بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ واقعہ سلیک غطفانی کےساتھ ہی خاص ہے کسی دوسرے شخص کو دو رکعت ادا کرنے کا حکم نہیں ہے لیکن یہ بات بالکل غلط ہے اور سراسر صحیح احادیث کے خلاف ہے اللہ کےر سول  نے عام حکم بھی دیا ہے کہ ::

«إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمْ إِلَى الْجُمُعَةِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ فَلْيُصَلِّ رَكْعَتَيْنِ يَتَجَوَّزُ فِيهِمَا»

    '' جب تم میں سے کوئی شخص جمعہ کے روز اس وقت آئے جب امام خطبہ دے رہا ہے تو ا سے ہلکی سی دو رکعتیں پڑھ لینی چاہئیں ''     (مسلم۲/۵۹۷٥٩٧)
    صحیحین کی ان ہر دو روایات سے روزِ روشن کی طرح ثابت ہے کہ خطبہ کے دوران  دورکعت تحیۃ المسجد پڑھنا سنت ہے یہ دونوں قوی حدیثیں ہیں ۔
    کیونکہ پہلی روایت میں ایک شخص کو حکم دیا ایور دوسری روایت میں ایک عام شریعی حکم کے ذریعے امت کیلئے سنت قرار دیا ہے۔ امام بغویؒ فرماتے ہیں۔

" و فيه دليل غلى أن من دخل و الإمام يخطب لا يجلس حتى يصلى ركعتين وهو كثير من اهل العلم"

    '' یہ حدیث اس ابت کی لدیل ہے کہ جو شخص خطبہ کے دوران آئے وہ دو رکعت پڑھ کر بیٹھے یہ مسلک اکثر اہل علم کا ہے ''۔      (شرح السنہ۴/۲۶۶)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

تبصرے