سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

ایک مسجد میں دوسری جماعت

  • 14662
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1658

سوال

ایک مسجد میں دوسری جماعت
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جب ایک مسجد میں نماز با جماعت ادا ہو جائے ، پھر اس کے بعد کچھ اور لوگ آجائیں تو کیا دوبارہ جماعت کروا سکتے ہیں کتاب و سنت کی رو سے واضح کریں ؟ 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایک مسجد میں دوسری جماعت کر وانے کے متعلق سلف صالحین میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ بعض ائمہ مثلا امام احمد بن جنبل  رحمہ اللہ  اور امام اسحاق بن راہویہ وغیرہ اس بات کی طرف گئے ہیں کہ دوسری جماعت کرانا جائز ہے جبکہ امام مالک  رحمہ اللہ ، امام شافعی رحمہ اللہ  ، اور اصحاب الرائے وغیرہ کا موقف یہ ہے کہ دوسری جماعت مکروہ ہے۔ امام شافعی کا کہنا ہے کہ جس مسجد میں امام اور موذن مقرر ہوں وہاں دوسری جماعت کرانا مکروہ ہے ۔ اگر جماعت کر الیں تو کفایت کرتی ہے ۔ ملاحظہ ہو کتاب الام للشافعی ( ١۱/۱۳۶٣٦،۱۳۷٣) جبکہ اصحاب الرائے احناف کا کہنا ہے کہ مکروہ تحریمی ہے جیسا کہ فتاویٰ شامی وغیرہ میں مذکرو ہے۔
فریق اول کے دلائل درج ذیل ہیں ۔

((عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ وَقَدْ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «أَيُّكُمْ يَتَّجِرُ عَلَى هَذَا؟ فيصلى معه.))

    ابو سعید خدوی  رضی  اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک آدمی کو دیکھا جو مسجد میں اکیلا نماز پڑھ رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کون اس کے ساتھ تجارت میں شریک ہوگا کہ اس کے ہمراہ نماز ادا کرے ۔ دوسری روایت میں ہے کہ ایک آدمی مسجد میں اس وقت داخل ہوا جب جماعت ہو چکی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :

(( من يتصدق على هذا فيصلى معه فقام رجل من القوم فصلى معه.))

    '' کون اس پر صدقہ کرے گا کہ اس کے ساتھ نماز ادا کرے ؟ لوگوں میں سے ایک آدمی نے کھڑے ہو کر اس کے ساتھ نماز ادا کی''
    بیہقی میں ہے کہ ابو بکر نے اس کے ساتھ نماز ادا کی ۔ ( ملاحظہ ہو ( المنتقی لا بن جا رود ( ٣٣٠) ابو داؤد، (۵۷٤) ترمذی (۲۲۰) دارمی ۱/ ۲۵۸، مسند احمد ٣/ ۶۴،۸٥،۴۵/ ۴۵٥ مسند ابی یعلی ۲/ ۳۲۱.  ابن حبان (۴۳۶، ۴۳۷، ۴۳۸) ، طبرانی صغیر ۱/ ۲۱۸،۲۳۸)بہیقی ٣/ ۶۹، المحلی ٤/ ۲۳۸، حاکم ۱/ ۲۰۹، شرح السنۃ ٣/۴۳۶ ,ابن ابی شیبہ ٢/۳۲۲،ابن خزیمہ (۱۶۳٢)، نصب الرایۃ ٢/ ۵۷) التدوین فی اخبار قوین للرافعی ۲/ ۲۵۸)
    یہی حدیث انس بن مالک سے سنن دار قطنی ١/۲۷۷ میں مروی ہے جس کے بارے میں علامی نیومی حنفی نے آثار السنن ۱/ ۲۶۷ لکھا '' اسنادہ، صحیح ''علامہ زیلعی نے نصب الرایہ میں ۲/ ۵٨ پر لکھا ( وسندہ جیدا ) اسی طرح حافظ ابن حجر عسقلانی نے الداریہ ١/ ١٧٣ پر اس کی سند کو جید قرار دیا ہے۔
    ابو سیعد خدری  رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حدیث کو امام ترمذی نے حسن، یامام حاکم و امام ذہبی اور امام ابن حزم رحمہ اللہ  نے صحیح کہا ہے ۔ امام بغوی  رحمہ اللہ  شرح السنہ میں اس حدیث کے بعد فرماتے ہیں :

" و فيه دليل على أنه يجوز لمن صلى فى جماعة أن يصليها ثانيا مع جماعة  آخرين و أنه  يجوز أقامة  الجماعة فى مسجد مرتين  وهو  قول غير واحد من الصحابة و التابعين"

    '' یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جس آدمی نے ایک دفعہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھ لی ہو ، اس کیلئے جائز ہے کہ وہ دوسری مرتبہ دوسرے لوگوں کے ساتھ نماز ادا کر لے ۔ اسی طرح مجسد میں دوبارہ جماعت قائم کرنا بھی جائز ہے۔ یہ بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم اور تابعین عظام  رحمہ اللہ  کا قول ہے''
امام ابن قدامہ رحمہ اللہ  فرامتے ہیں :

" و لا يكره إعادة الجماعة فى المسجد و معناه فى المسجد  ومعناه  أنه إذا صلى إمام الحى وحضرها  جماعة وهذا قول ابن مسعود و عطاء و الحسن والنخعى و قتادة و إسحاق"

    '' ایک مسجد میں جماعت کا اعادہ کران مکرو ہ نہیں ، اس کا مطلب یہ ہے کہ جب محلے کے امام نے نماز پڑھ لی اور دوسری جماعت حاضر ہو گی تو اس کیلئے مستحب ہے کہ وہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھیں ۔ یہ قول عبداللہ بن مسعود، عطاء ، نخعی، حسن، قتادہ، اور اسحق بن راوھویہ  رحمہ اللہ  کا ہے ''۔ ( المغنی ٣۳/۱۰ ١٠)
    پھر امام ابن قدامہ رحمہ اللہ  نے اس کے بعد حدیث ابی سعید بھی ذکری کی :
دوسری دلیل

( عن أبى هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم  قال فضل صلاة الجمع  على صلاة الواحد خمس و عشرون درجة ))

    '' ابو ہریرہ  رضی  اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جماعت کی نماز کی فضیلت اکیلئے آدمی کی نماز پر  ۲۵  درجے زیاد ہے ''۔
(بخاری مع فتح الباری ٢/ ٣٩٩، مسلم ٥/ ۱۵١، مع نووی موطا ١/۲۹ ، نسائی ۱/ ۲۴۱، ٢/ ۱۰۳، ترمذی (۲۱۶) ، ابن ماجہ (۷۸۷)، دارمی ۱/۲۳۵، ابو عوانہ ٢۲ ٢، ابن خزیمہ ۲/۳۶۴ ، ابن حبان ۳/ ۳۱۸، ٣٨۲، بیہقی ٣/ ٦٠، شرح السنہ ٣/ ٣٤٠)۔
اسی طرح عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کی حدیث میں ٢۲۷٧ درجے فضیلت کا ذکر ہے۔
                                    (ملاحظہ ہو بخاری مع فتح الباری ٢۲/۱۳۱٣١)
    یہ حدیث اپنے عموم کے اعتبار سے پہلی اور دوسری دونوں جماعتوں کو شامل ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی آدمی کی پہلی جماعت فوت ہو جائے توہ دوسری جماعت کے ساتھ نماز ادا کرے تو مذکورہ فضیلت پا لے گا۔
تیسری دلیل

(( عن الجعد أبى عثمان قال مر بنا انس بن مالك فى مسجد بنى ثعلبة فقال أصليتم  قال : قلنا نعم و ذاك صلاة الصبح فأمر رجلا فأذن و أقام ثم صلى بأصحابه .))

    '' ابو عثمان الجعد سے مروی ہے کی بنو ثعلبہ کی مسجد میں انس بن مالک ہمارے پاس سے گزرے تو کہا کیا تم نے نماز پڑھ لی ہے ؟ تو کہتے ہیں کہ میں نے کہا ہاں اور وہ صبح کی نماز تھی ۔ آپ نے ایک آدمی کو حکم کیا، اس نے اذان و اقامت کہی ، پھر اپنے اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی '' ( یہ خبر بخاری میں تعلقیاً ٢/١٣١ مع فتح الباری اور مسند ابی یعلی(۴۳۵۵) ۷/ ۳۱۵، ابن ابی شیبہ ٢/۳۲۱، بیہقی ۳/ ۷۰، مجمع الزوائد۲/۴ ، المطالب العالیہ ۱/ ۱۱۸(۴۲۶) تغلیق التعلیق ۲/۲۷۶ ، عبدالرزاق ٢/ ٢٩١ طبقات المحدثین لابی الشیخ ۱/۴۰۲ ، ۴۰٣ میں موصولاً مروی ہے۔ )
چوتھی دلیل ابن ابی شیبہ میں ہے کہ :

(( إبن مسعود دخل المسجد و قد صلوا فجمع بعلقمة و مسروق و الأسود))
    '' عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ تعالٰی عنہ مسجد میں داخل ہوئے تو لوگوں نے نماز پڑھ لی تھی تو آپ نے علقمہ ، مسروق اور اسود کو جماعت کرائی ''۔
                      (ابکار المنن ص ۲۵٣، اس کی سند صحیح ہے ۔ مر عاۃ شرح مشکوۃ ٤/ ١٠٤)
    مذکورہ بالا احادیث و آثار صریحہ سے معلوم ہوا کہ مسجد میں دوسری جماعت کرا لینا بلا کراہت جائز و درست ہے اور یہ موقف اکابر صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کا تھا۔ 

مکروہ سمجھنے والوں کے دلائل

ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ :

(( أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أقبل من بعض نواحى المدينة يريد الصلوة فوجد  الناس قد صلوا فانصرف إلى منزله فجمع أهله  ثم صلى بهم ,))

    '' رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  مدینہ کے اطرف سے آئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نماز ادا کرانا چاہتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دیکھا کہ لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے گھر چلے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے گھر والوں کو جمع کیا، پھر ان کے ساتھ نماز ُپڑھی ''
(الکامل لا بن عدی ۶/ ۳۲۹۸، مجمع الزوائد۲/۴٨، طبرانی اوسط (۴۷۳٩) علامہ البانی نے اس سند کو حسن قرار دیا ہے تمام المنہ ١/۱۵٥)
    اور علامہ ہیثمی  رحمہ اللہ  نے فرمایا ہے کہ اس کو طبرانی نے معجم کبیر و اوسط میں بیان کیا ہے۔ اس کے رجال ثقہ ہیں ۔ اس سے یہ دلیل کی جاتی ہے کہ اگر دوسری جماعت بلا کر اہت جائز ہوتی ہے تو نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  مسجد کی فضیلت کو ترک نہ کرتے یعنی مسجد نبوی میں نماز ادا کرنے کی فضیلت عام مسجد میں نماز ادا کرنے سے بہت زیادہ ہے۔
    ج= اولاً:    مولانا عبید اللہ مبارک پوری  رحمہ اللہ  اس کے بارے میں فرماتے ہیں ' اس حدیث سے دوسری جماعت کی مکروہیت پر دلیل پکڑنا محل نظر ہے۔ اسلئے کہ یہ حدیث اس بارے میں نص نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کے گھر میں نماز پڑھائی ہو بلکہ اس با ت کا بھی احتمال موجود ہے کہ آپ نے انہیں نماز مسجد میں پڑھائی ہو ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا گھر کی طرف جانا گھر والوں کو جمع کرنے کیلئے تھا، نہ کہ گھر میں جماعت کروانے کیلئے ، توا س صورت میں حدیث اس مسجد میں جس کا موذن و امام متعین ہو، دوسری جماعت کے استحاباب کی دلیل ہو گی ۔ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے گھر میں جماعت کروانے کیلئے، تو اس صورت میں یہ حدیث اس مسجد میں جس کا موذن و امام متعین ہو، دوسری جماعت کے استحباب کی دلیل ہو گی۔ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے گھر والوں کو گھر میں ہی جماعت کرائی تو اس سے مسجد میں دوبارہ جماعت کی کراہت ثابت نہیں ہوتی بلکہ اتنہائی آخری بات جو ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر ایک آدمی ایسی مسجد میں آئے جس میں جماعت ہو چکی ہو تو اس کو چاہئے کہ اس مسجد میں نماز نہ پڑھے بلکہ اس سے نکل کر گھر چلا جائے تو گھر میں اپنے اہل کے ساتھ نماز پڑھے۔
    بہر حال اس کیلئے مسجد میں دوسری جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کو مکروہ کہنا اس حدیث سے ثابت نہیں ہوتا جیسا کہ یہ حدیث کے بعد میں آنے والے اکیلے آدمی کی اس مسجد میں نماز کی کراہت پر دلالت نہیں کرتی ۔ اگر اس حدیث سے مسجد میں دوبارہ جماعت کے مکروہ ہونے پر دلیل کی جائے تو پھر اس سے یہ بھی ثابت ہو گا کہ اکیلے بھی اس مسجد میں نماز نہ پڑھے ۔ ( مر عاۃ ٤/۱۰۵)
دوسری دلیل:
    ثنایاً:    اگر چہ علامہ البانی نے اس کی سند کو حسن کہا ہے مگر یہ محل نظر ہے  کیونکہ اس کی سند میں بقیہ بن الولید مدلس راوی ہیں اور یہ تدلیس التسویہ کرتا ہے جو کہ انتہائی بڑی تدلیس ہے اور اس کی تصریح بالسماع مسلسل نہیں ہے۔

(( عن إبراهيم أن علقمة و الأسود أقبلا مع ابن مسعود إلى مسجد فاستقبلهم الناس قد صلوا فرجع بهم إلى البيت فجعل أحدهما عن يمينه والأخر عن شماله ثم صلى بهما .))

    '' ابراہیم نخفی سے مروی ہے کہ علقمہ اور اسود عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ مسجد کی طر ف آئے تو لوگ انہیں اس حالت میں ملے کہ انہوں نے نماز پڑھ لی تھی توابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ ان دونوں کے ساتھ گھر کی طرف چلے گئے، انہوں نے ایک کو دائیں جانب اور دوسری کو بائیں جانب کیا پھر ان کو نماز پڑھائی ''
                                 (عبدالرزاق ۳۸۸۳)٢۲/ ۴۰۹، طبرانی کبیر(۹۳۸۰)
    اس روایت کی سند میں حماد بن ابی سلیمان ہیں جو مختلط اور مدلس تھے۔ ملاحظہ ہو طبقات المدلسین ٣٠ اور یہ روایت معنعن ہے اور مدلس کی عن عن والی روایت ضعیف ہوتی ہے۔ نبیز حماد کے اختلاف سے قبل تین راویوں کی روایت حجت ہوتی ہے۔ علامہ ہیثمی فرماتے ہیں:

ولا يقبل من حديث حماد  إلا ما رواه عنه القدماء شعبة وسفيان  الثورى والدستوائى ومن عدا هؤلاء رووا عنه بعد الإختلاط( مجمع الزوائد 1/125)

    '' حماد بن ابی سلیمان کی وہ روایت قبول کی جائے جو اس سے قدماء یعنی اختلاط سے پہلے والے راویوں کی رویات ہوگی جیسے شعبہ ، سفیان ثوری اور ہشام دستوائی اور جو ان کے علاوہ اس سے روایت کریں وہ بعد از ختلاف ہے ۔''
    تقریباً یہی بات امام احمد بن جنبل  رحمہ اللہ  سے منقول ہے۔ ملا حظہ ہو شرح علل  ترمذی لا بن رجب ص ۳۲۶ وغیرہ اور یہ روایت حماد سے معمر نے بیان کی ہے لہٰذ ایہ بھی قابل حجت نہیں ۔د وسری بات یہ ہے کہ اس میں ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے دونوں شا گردوں کوئی دائیں بائیں کھڑا کر کے جماعت کروائی اور یہ بات احناف کو مسلم نہیں جیسا کہ محمد بن حسن شیبانی شاگرد امام ابو حنیفہ  رحمہ اللہ  نے اپنی کتاب الآثار ص ٦۶۹٩ مترجم میں ذکر کیا ہے۔
    تیسری بات یہ ہے کہ اوپر ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کا مسجد میں دوبارہ جماعت کروانا صحیح سند کے ساتھ نقل ہوا ہے۔ لہٰذا مذکورہ بالا توضیحات سے معلوم ہوا کہ دوسری جماعت میں کراہت کے بارے میں کوئی صحیح روایت موجود نہیں بلکہ صحیح روایت سے دوسری جماعت کا جواز نکلتا ہے ۔ اویرہی جواز والا مذہب ا قرب الی الصواب ہے ۔ مولانا عبدی اللہ رحمان  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں ۔

" فأرجع الأقوال عندنا هو أنه يجوز و يباح من اتى مسجدا قد صلى فيه بإمام راتب وهو لم يكن صلاها وقد  فاتته الجماعة  لعذر أن يصلى بالجماعة  والله أعلم "( مرعاة شرح مشكوة 4/107)

    '' ہمارے نزدیک راحج قول یہ ہے کہ جو آدمی مسجد میں اس حال میں پہنچا کہ امام معین کے ساتھ نماز ادا ہو چکی ہواور اس نے وہ نماز نہیں پڑھی اور عذر کی بناء پر اس کی جماعت فوت ہو گئی تو اس کیلئے جائز و مباح ہے کہ وہ جماعت ثانیہ کے ساتھ نماز ادا کر لے ''۔
    بہر صورت یہ یاد رہے کہ بغیر عزر کے جماعت سے پیچھے رہنا اور خواہ مخواہ سستی اور کاہلی کا شکار ہو کر دوسری جماعت کا رواج ڈالنا درست نہیں کیونکہ دوسری جانب جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کی بہت تاکیدوار دہوئی ہے اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  پسند کرتے تھے کہ مومنوں کی نماز اکھٹی ہو جیسا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے :

(( لقد أعجبنى أن تكون صلاة المؤمنين واحدة حتى لقد هممت أن أبث رجالا فى الدور فيوذنون الناس بحين الصلوة ))(ابن خزيمه 1/199 . ابو داؤد (506) 1/138)

    '' مجھ یہ پسند ہے کہ مومنوں کی نماز ایک ہو یہاں تک کہ میں نےا رادہ کیا ہے کہ کچھ آدمیوں کو محلوں میں پھیلا دوں اور وہ لوگوں کو نماز کے وقت کی اطلاع دیں ۔''
    اس کے علاوہ بھی جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کی تاکید میں کئی ایک احادیث صحیحہ صریحہ وارد ہوئی ہیں جن سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ہمیں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔ سوائے عذر شرعی کے جماعت سے پیچھے نہیں رہنا چاہئے کیونکہ اگر ہم گھر سے نماز با جامعت کے ادارے سے نکلتے ہیں اور ہمارے آتے آتے نماز فوت ہو جاتی ہےتومسجد میں آکر ادا کرنے سے جماعت کاثواب مل جائے گا، جیسا کہ حدیث صحیحہ میں وار دہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :

(( من توضأ فأحسن الوضوء ثم راح فوجد الناس قد صلوا أعطاه الله مثل أجر من صلاها و حضرها لا ينقص ذالك من أجرهم شئياء.))
    '' جس نے وضو کیا اور اچھی طرح وضو کیا، پھر چل پڑ ا( مسجد کی طر ف) اُس نے لوگوں کو پایا کہ انہوں نے نماز پڑھ لی ہے تو اللہ تعالیٰ اس آدمی کو نماز با جماعت ادا کرنے اور اس میں حاضر ہونے والے کی طرح اجر دے گا۔ ان کے اجروں سے کچھ کمی نہیں کرے گا''۔
(سنن ابو داؤد (۵۶۴)، نسائی ۲/۱۱ ١، شرح السنہ ٣/۳۴۲، مستدرک ١/۲۰۸، امام حاکم نے مسلم کی شرط پر صحیح کہا اور امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔ مسند احمد ٢/۸۰ ٣ تاریخ کبیر للبخاری ق۲ ٢، ج ۸٨ ص ۴۶٢٦)
    یہ روایت حسن ہے۔ نیل المقصود (۵۶۴) اور اس کا ابو داؤد میں ایک شاہد بھی ہے۔ ملا حظہ ہو (۵۶۳) لہٰذا بغیر عذر شرعی کے جماعت سے پیچھے نہیں رہنا چاہئے اور اگر کسی عذر کی بنا پر جماعت سے رہ گیا تو اور افراد کے ساتھ مل کر دوسری جماعت کرا لی تو بلا کراہت جائز ہے ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

تبصرے