امام سے پہل کرنے کی سزا - اور امام کی پیروی کا صحیح طریقہ
امیر کی اطاعت تو مدت ہوئی مسلمانوں سے چھن چکی ۔ نہ انکا کوئی امیر المومنین ہے جس کی اطاعت کو وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نا فرمانی سمجھیں نہ انہیں اسے حاصل کرنے کی کوئی فکر ہے۔ الا ما شاء اللہ ۔ لے دے کر نماز کے امام کی صورت میں انہیں پانچ وقت اطاعت کا سبق یا ددلایا جاتا ہے اور ان سے دنیا کے تمام کام چھڑوا کر اور ہر طرف سے توجہ ہٹا کر امام کی اقتداء میں اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا کر دیا جاتاہے کہ اب تمہاری ہر حرکت امام کی حرکت کے بعد ہونی چاہئے۔ اس سے پہلے کوئی حرکت تمہارے لئے جائز نہیں مگر اکثر مسلمان نا فرمانی کرنے کی فکر ہے نہ عقل کے تقاضوں کے خلاف ورزی۔ وہ ہر رکن میں امام سے پہلے حرکت کرتے ہیں او رکرتے ہی چلے جاتے ہیں ۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر سخت سزا سے ڈرایا ہے ۔
'' ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص امام سے پہلے اپنا سر اٹھاتا ہے کیا وہ اس بات سے نہیں ڈرتا کہ اللہ تعالیٰ اس کے سر کو گدھے کے سر میں بدل دے ''۔ (متفق علیہ ، مشکوٰۃ۱۰۶)
نماز کی حالت میں امام سے پہل کرنا عقل کے تقاضوں کے بھی سرا سر خلاف ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں ایک نکتہ نقل فرمایا ہے کہ اگر غور کریں تو امام سے آگے بڑھنے کی کوئی وجہ بھی اس کے بغیر نہیں ہو ستکی کہ نماز سے جلدی فراغت حاصل ہو جائے ۔ اس جلد ی بازی کا علاج یہ ہے کہ آدمی سوچے کہ وہ امام کے فارغ ہونے سے پہلے تو نماز سے نکل ہی نہیں سکتا پھر یہ جلد بازی کیوں ؟
امام کی پیروی اور اس سے پہلے نہ کرنی کی چند اور احادیث ملا حظہ فرمائیں :
'' انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ہمیں نماز پڑھائی ، نماز سے فارغ ہو کر اپنا چہرہ ہماری طرف پھیر کر فرمایا : لوگو! میں تمہارا امام ہوں ۔ تم مجھ سے نہ رکوع میں پہل کر و نہ سجد میں نہ قیام میں اور نہ منہ پھیرنے میں کیونکہ میں تمہیں اپنے سامنے اور پیچھے سے دیکھتا ہوں ''۔
(راوہ مسلم ، مشکوۃ ص ۱۰۱)
'' ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، امام سے جلدی نہ کرو جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو جب ولا الضالین کہے تو تم آمین کہو ۔ جب رکوع کرے تو تم رکوع کرو جب سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم اللھم ربنا لک الحمد کہو اور جب سجدہ کرے تو تم سجدہ کرو اور جب وہ سجدہ نہ کرے تو تم سجدہ نہ کرو ''۔
(بلوغ المرام باب صلوۃ الجماعۃ و الامامہ)
مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز میں لکھا ہے ::
'' حدیث کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب امام تکبیر کہہ چکے تو مقتدی اس کے بعد تکبیر کہے۔ جب امام سجدے میں چلا جائے تو تم سجدے میں جاو ۔ جب امام سر اٹھا چکے تو تم سر اٹھاؤ جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم اللھم ربنا لک الحمد کہو ۔ اس سے ظاہر ہے کہ مقتدی کو ہر فعل اس وقت کرنا چاہئے جب امام وہ کام کر چکے۔ نہ امام سے پہلے جاناچاہئے نہ اس کے ساتھ بلکہ امام کے بعد وہ رکن ادا کرے۔ متابعت کرے یعنی پیچھے لگے''۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رحمہ اللہ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ ارکان ادا کرنے میں امام سے سبقت کر رہا تھا ۔ فرمایا:
'' نہ تم نے تنہا نماز پڑھی نہ امام کی اقتداء میں''۔
(بحوالہ رسالۃ الصلویۃ امام احمد )
نیز عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے منقول ہے کہ :
'' انہوں نے ایک شخص کو امام سے سبقت کرتے دیکھا تو فرمایا نہ تم نے اکیلے نماز ادا کی نہ امام کی اقتداء کی ۔ اسے مارا اور کہا نماز لوٹاؤ ''۔
(رسالۃ الصلوٰۃ ص ۳۵۲مجموعہ الحدیث)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ایسی نماز کو ناجائز سمجھتے ہین ۔
امام احمد فرماتے ہیں ( ترجمہ )
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان اذا کبر فکربوا کا یہ مطلب ہے کہ امام کی تکبیر ختم ہو جائے پھر مقتدی تکبیر کہے لوگ جہالت کی وجہ سے غلطی کرتے ہیں اور نمازکے معاملہ کو ہلکا سمجھتے ہیں امام کےساتھ ہی تکبیر کہنا شروع کر دیتے ہیں اور یہ غلطی ہے۔
(رسالہ الصلوٰۃ لا حمد ص۱۵۴)
امام احمد نے اس مقام پر بڑے بسط ( تفصیل ) سے لکھا ہے کہ امام سے پہلے یا امام کے ساتھ تمام ارکان ادا کرنا غلط ہے ۔ امام جب رکوع و سجود میں چلا جائے اور اس کی تکبیر کی آواز ختم ہو جائے تو مقتدی کو اس وقت رکوع و سجود وغیرہ امرو شروع کرنی چاہئیں۔ ہمارے ملک میں یہ غلطی عام ہے، تمام طبقات یہ غلطی کرتے ہیں۔ اگر سبقت نہ کریں تو امام کے ساتھ ضرور ادا کرتے ہیں حالانکہ یہ صاف حدیث کے خلاف ہے ۔ خطرہ ہے کہ نماز ضائع ہو جائے گی ۔ امام کی اطاعت کا شرعاً یہی مطلب ہے کہ تمام ارکان وغٰرہ امام پہلے ادا کرے مقتدی اس وقت شروع کرے جب امام رکن میں مشغول ہو جائے۔ حدیث کا نمشاء یہ معلوم ہوتا ہے کہ نہ امام سے سبقت درست ہے۔ نہ امام کی معیت بلکہ امام جب رکن میں مشغول ہو جائے تو اس کے بعد مقتدی مام کے ساتھ شریک ہو ۔
تعجب ہے کہ تمام مکاتب فکر اس غلطی میں مبتلا ہیں ۔بریلوی حضرات تو بدعات میں اس قدر محو ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو سنت کی محبت سے خالی کر دیا ہے ۔ وہ ہر وقت نئی سے نئی بد عتوں کی تلاش میں پریشان ہیں ۔ اہل حدیث حضرات اور دوسرے موحد گروہ بھی اس غلطی میں از اول تا آخر مبتلا ہیں الا من رحمہ، امام احمد کا ارشاد کس قدر درست ہے :
'' آپ سو مسجدوں میں نماز ادا فرمائیں ۔ کسی میں بھی انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور صحابہ کے طریق پر آپ کو نماز نہیں ملے گی ''۔
(رسالہ الصلوٰۃ لا حمد ص۱۵۴)
مولانا محمد اسماعیل سلفی کا کلام ختم ہوا ۔
امام احمد بن جنبل اور مولانا محمد اسماعیل سفلی نے ان احادیث کا جو مطلب بیان کیا ہے ، تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کا یہی مطلب سمجھے ہے اور اس کے مطابق عمل کیا ہے۔