سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(48) مشرک امام کی اقتداء کا حکم

  • 14656
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2227

سوال

(48) مشرک امام کی اقتداء کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آمدی کا عقیدہ ہے کہ '' رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  حاضر و ناظر، مشکل کشا اور نفع و نقصان کے مالک ہیں۔ شیخ عبدالقادر جیلانی غوث اعظم او رعلی ہجویری داتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ بدعات کا مرتکب ہے کیا ایسے آدمی کی اقتدا میں نماز ہو جاتی ہے یا نہیں ۔ مجلّۃ الدعوۃ میں قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔ 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن مجید اور احادیث صحیحہ سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو حاض ناظر مشکل کشا اور نفع نقصان کےمالک سمجھنا شیخ عبدالقادر جیلانی اور کو غوث اعظم کہنااور علی ہجویری کو داتا ماننا، شرک ہے اور ان امو ر پر اعتقاد رکھنے والا بلا شک مشرک ہے۔ کیونکہ کسی کو نفع و نقصان سے دو چار کرنا یا کسی کی پریشانی دور کرنا، فریاد رسی کرنا، اولاد دینا یہ تمام صفات اللہ تبارک و تعالیٰ کی ہیں جو اس نے کی اور عطا نہیں کیں حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب سید الا نبیاء محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کو بھی فرمایا کہ :

﴿قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّـهُ ... ١٨٨﴾...الأعراف

    '' اے نبی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کہہ دیں کہ میں اپنی جان کیلئے بھی نفع و نقصان کا مالک نہیں مگر جو اللہ چاہئے''۔(الاعراف:۱۱۸)
اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا :

﴿قُلْ إِنَّمَا أَدْعُو رَبِّي وَلَا أُشْرِكُ بِهِ أَحَدًا ﴿٢٠﴾ قُلْ إِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا رَشَدًا ﴿٢١﴾...الجن

    '' کہہ دیجئے میں تو صرف اپنے رب کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا کہہ دیجئے میں تمہارے لئے نقصان اور ہدایت کا مالک نہیں ہوں ''۔(الجن :۲۱،۲۰)
    ان آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی صفات اس کے غیر میں نہیں پائی جاتی وہ اپنی ذات و صفات میں یکتا و احد ہ لا شریک ہے ۔ اور جو لوگ اللہ خالق کی صفات اس کی مخلوق میں مانتے ہیں وہ اس کے ساتھ شرک کرتے ہیں اور مشرک آدمی کے اعمال تباہ و بر باد ہو جاتے ہیں وہ اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں ہوتے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے مختلف انبیاء ؑ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :

﴿وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿٨٨﴾...الأنعام

    '' اور اگر یہ لوگ بھی شرک کرتے تو ان کے اعمال بھی ضائع ہو جاتے ''۔(الانعام : ۸۸)
اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا :

﴿وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ﴿٦٥﴾...الزمر
    '' اور تحقیق وحی کی گئی آپ کی طرف اور ان لوگوں کی طرف جو آپ سے پہلے تھے اگر تو نے شرک کیا تو تیرے عمل ضائع ہو جائیں گے اور البتہ تو خسارہ اپنے والوں میں سے ہو جائے گا ''۔(الزمر:۶۵)
    ان ہر دو آیات سے واضح ہوگایا کہ مشرک آدمی کے اعمال اللہ کے ہاں قبال قبول نہیں ، خواہ وہ نماز ہو یا روزہ ، حج ہو یا زکوٰۃ غرض کسی قسم اک اعمل بھی شمرک کا قوبل نہیں بلکہ وہ سارے اعمال اکارت اور ضائع ہو ں گے۔ تو جب امام مشرک ہوگا اور اس کا اپنا عمل اللہ کے ہاں مقبول نہیں توا س کی اقتدار میں ادا کی جانے والی نماز بھی کیونکہ قبول ہو گی ۔ امام کیلئے ضروری ہے کہ وہ صحیح العقیدہ ہو ۔ جس شخص کا عقیدہ صحیح نہیں وہ امامت کے لائق کیسے ہو سکتا ہے۔ 
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

تبصرے