نماز تراویح میں قرآن ہاتھ میں اٹھا کر پڑھا جا سکتا ہے ۔ صحابہ کرام کی اس سے کیا دلیل ہے۔ احانف کہتے ہیں کہ یہ عمل کثیر ہے اور عمل کثیر سے نماز ٹوٹ جاتی ہےا س بات کی وضاحت فرمائیں۔
نماز میں قرآن مجید کو اٹھا کر قرأت کرنا جائز و درست ہے لیکن اسے معمول نہیں بنانا چاہئے اس کی لدیل یہ ہے کہ بکاری شریف میں آتا ہے کہ :
'' سیدہ عائشہ رضی اللہ عن کی امامت ان کا غلام ذکوان قرآن دیکھ کر کرتا تھا ''۔(بخاری ۱/۱۷۷)
حافظ ابن حجر عسقلانی اس کی شرح فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ:
" وصله أبو داؤد فى كتاب المصاحف من طريق أيوب عن ابن أبى مليكة "
ابو داؤد نے کتاب المصاحف میں اس اثر کو بطریق ایوب عن ابن ابی ملیکہ اور اسی طرح ابن ابی شیبہ نے وکیع عن ہشام بن عروۃ عن ابن ابی ملیکہ اور امام شافعی اور عبدالرزاق نے بھی اس کو دوسرے واسطوں سے موصولاً بیان کیا ہے۔
امام مر وزی نے قیام الیل ١٦٨ پر لکھا ہے کہ " و سئل ابن شهاب عن الرجل يؤم الناس فى رمضان فى المصحف قال ما زالو ا يفعلون ذالك منذ كان الإسلام كان خيارنا يقرؤن فى المصاحف "امام ابن شہاب زہری سے ایسے آدمی کے متعلق سوال کیا گیا جو رمضان میں لوگوں کی امامت قرآن سے دیکھ کر کرتا تھا ۔ تو امام زہری نے فرمایا جب سے اسلام آیا ہے اس وقت سے وہ لوگ جو ہم سے بہتر تھے قرأ ت قرآن مجید سے کرتے رہے ہیں ۔
اس کے علاوہ امام مر وزی نے امام ابراہیم بن سعد، فتاوہ ، سعید بن سمیب ، ایوب، عطاء ، یحییٰ بن سعید ، بعداللہ بن وہب اور امام احمد بن جنبل سے اس کا جواز نقل کیا ہے۔ نماز میں قرآن مجید سے قرأ ت کرنے سے امام ابو حنیفہ کے نزدیک نماز فاسد ہو جاتی ہے لیکن ان کے شا گردوں قاضی ابو یوسف اور امام محمد نے اس مسئلہ میں انکی مخالفت کی ہے جیسا کہ ہدایہ ۱/۱۳۷ پر لکھا ہے کہ "واذا قرأ الامام من المصحف فسدت صلاته عند ابی حنفیة وقالا ھی ما مة" جب امام قرآن مجید دیکھ کر قرأ ت کرے تو اما م ابو حنیفہ کے نزدیک نماز فاسد ہو جاتی ہے جب اکہ انکے شاگردوں کے نزدیک نماز پوری ہو جاتی ہے ( فاسد نہیں ہوتی ) امام ابو حنیفہ پر تعجب ہے کہ ان کے نزدیک اگر نمازی قرآن دیکھ کر قرأت کرے تو نماز فاسد لیکن اگر نماز میں کسی عورت کی طرف بنظر شہوت دیکھے تو نماز فاسد نہیں ۔ امام بن نجیم حنفی الا شباہ والناظئر ٤١٨ پر لکھا ہے کہ "ولو نظر المصلی إلی المحصف و قراء منه فسدت صلوٰته لا إلی فرج امراة بشھوة"
علماء احناف کا اسے عمل کثیر کہہ کر رد کرنا تحکم اور سراسر باطل ہے اگر اتنے عمل کو عمل کثیرہ کہہ کر نماز کو باطل قرار دے دیں تو اس قدر عمل کثیر نماز کے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں آتا ہے کہ :
((عَنْ أَبِي قَتَادَةَ الأَنْصَارِيِّ، «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي وَهُوَ حَامِلٌ أُمَامَةَ بِنْتَ زَيْنَبَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلِأَبِي العَاصِ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ عَبْدِ شَمْسٍ فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَهَا، وَإِذَا قَامَ حَمَلَهَا))
'' ابو قتادۃ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امامہ بنت زینب بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے اٹھائے رہتے تھے۔ ابو العاص بن ربیعہ بن عبد شمس کی حدیث میں ہے کہ جب سجدہ میں جاتے تو اتار دیتے اور جب قیام فرماتے تو اٹھا لیتے ''۔(بخاری۱/۱۳۷)
اسی طرح بخاری شریف میں آتا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک رات ام المومنین میمونہ کے گھر سویا اس رات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی وہیں سونے کی باری تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضوکیا اور نماز پڑھنے کیلئے کھڑے ہو گئے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف کھڑا ہو گیا اس لئے آپ نے مجھے پکڑ کر دائیں طرف کر دیا''۔
ان ہر دو حدیثوں سے سے یہ بات واضھ ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امامہ بنت زینب رضی اللہ عنہا کو اٹھا کر نماز پڑھنا اور ابن عبس رضی اللہ عنہ کو بائیں طرف سے دائیں طرف کرنا عمل کثیر نہیں اور اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی قرآن دیکھ کر قرأ کرنا بھی عمل کثیر نہیں اور نہ ہی اس سے نماز فاسد ہوتی ہے عمل کثیر احناف کا من گھڑت مفروضہ ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں اور تعجب اس بات پر ہے کہ حنفی اسی قانون کی خود بھی کئی مقامات پر مخالفت کرتے ہیں جیسا کہ رد مختار صفحہ ۲۰پر ہے کہ کتے کے بچے کو اٹھا کر نماز پڑھنا جائز ہے اور منیۃ المصلی ۱۰۰پر ہے کہ نماز میں ٹھہر ٹھہر کر جوئیں مارنے سے نماز فاسد نہیں ہوتی ۔ تو کیا کتے کے بچے کو اٹھا کر نماز پڑھنا اور نماز میں جوئیں مارنا عمل کثیر نہیں احناف کا وطیرہ ہے کہ جو حدیث قولِ امام کے خلاف ہو اسے حیل و حجت سے رد کر دیتے ہیں اور جو قول امام کے موافق ہو خوا وہ کتنی ہی ضعیف کیوں نہ ہو وہ ان کے ہاں حجت ٹھہرتی ہے۔ جیسا
کہ اس کی مثالیں نور الا نوار، اصول شاشی ، اصول بز ودی وغیرہ جو احناف کی معتبر کتب ہیں ان میں موجود ہیں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب