نماز جنازہ میں سورۃ الفاتحہ لازمی پڑھنی چاہئے یا نہیں ۔ احادیث سے جواب دیں ۔
٢۔ نماز میں مقتدی کو سورۃ فاتحہ امام کے پیچھے پڑھنی چاہئے یا کہ نہیں ؟
: آپ کے سوالات کے ترتیب وار جوابات حاضر خدمت ہیں۔ طلحہ بن عبداللہ بن عوف سے روایت ہے انہوں نے کہا : '' میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی ۔ انہوں نے اس میں سورۃ فاتحہ پڑھی ۔
میں نے ان کا ہاتھ پکڑ کر کہا آپ فاتحہ پڑھتے ہیں تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا بے شک یہ سنت اور حق ہے ''۔
(المنتقی لابن جارود (۵۳۴) بخاری مع فتح الباری ٣/،۲۰۳ ابو داؤد (۳۱۹۴) نسائی ٤/۷۴ ، ٧٥ ترمذی (۱۰۲۸) حاکم ١/ ۳۵۷ بیہقی ۴/۳۸)
اور اصول حدیث میں یہ بات متحقق ہے کہ جب صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہے کہ من السنۃ کذ ااس مسئلہ میں سنت اسی طرح ہے تو وہ مسند و مرفوع روایت سمجھی جاتی ہے ۔ یہی بات احناف، شوافع اور جمہور علماء اصولین کے نزدیک درست ہے جیسا کہ المجموع للنوی ٥/۲۳۲ اور ابن الہم حنفی نے اپنی کتاب '' التحریر '' میں لکھا اور اس کے شارح ابن امیر الحاج ٢/٣۳۴ پر لکھا ہے کہ ہمارے متعقدمین علماء کے نزدیک یہ بات درست ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نماز جنازہ مین سورۃ فاتحہ پڑھنا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل تھا ۔ اور صحابہ کرام بھی نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھا کرتے تھے۔
(۲٢) صحیح احادیث کی رو سے امام ہو یا مقتدی مفردست پر ہر نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنا لازمی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے :
'' سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے سورۃ فاتحہ پڑھی اس کی نماز نہیں ہے ''۔
(بخاری مع الفتح الباری ٢/۲۳۶،۲۳۷، مسلم۱/ ۲۹۵، ابوداؤد (۸۲۲)نسائی ۲/۱۳٧،۱۳۸ ، ترمذی(۲۴٧)، ابن ماجہ (۸۳۷)
اس حدیث سے معلوم ہوا جو بھی نمازی خواہ امام ہو یا مقتدی، مفرد ہو یا رکوع پانے ولا ااگر سورۃ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔
اس حدیث کی شرح میں علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔
'' اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ ہر رکعت میں ہر نمازی خواہ امام ہو یا منفرد یا مقتدی، خوا ہ امام آہستہ پڑھے یا بلند آواز سے فاتحہ پڑھنا ضروری ہے ''۔
اسی طرح علامہ کرمانی شرح بخاری میں فرماتے ہیں ۔