سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(31) رفع اليدين کرنے کا طریقہ

  • 14631
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2606

سوال

(31) رفع اليدين کرنے کا طریقہ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

رفع اليدين کرنے کا طریقہ


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

    نماز میں چار مقامات پر فع الیدین کرنا صحیح احادیث سے بات ہے۔ تکبیر تحریمہ کے وقت، رکو ع جاتے ہوئے اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے اور تیسری رکعت کو اٹھتے ہوئے اور اس کے خلاف ایک بھی حدیث نہیں ہے۔

عن ابن عمر ((" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاَةَ، وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، رَفَعَهُمَا كَذَلِكَ أَيْضًا، وَقَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ، وَكَانَ لاَ يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي السُّجُودِ "))
    '' سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے رویات ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے اور جب رکوع کیلئے تکبیر کہتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اسی طرح اٹھاتے اور سمع اللہ لمن حمدہ، ربنا لک الحمد کہتے اور سجدوں میں رفع یدین نہ کرتے تھے ''۔(بخاری ۱١/۱۰۲٠٢، مسلم ۱١/۱۶۸٦٨)
    اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ رفع الیدین کرنا نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت ہے اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ لوگ بغلوں میں بت رکھ کر نماز پڑھتے تھے ، اس لئے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے رفع الیدین کرائی ۔ تو غور کرنے کی بات ہے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پیچھے نماز پڑھنے والے صحابہ کرام کے بارے میں کیا کہا جا رہاہے کہ وہ بت رکھ کر نماز پڑھتے تھے۔ یہ صحابہ کرام کی توہین ہے۔ دوسری بات یاد رہے کہ اس قصے کا ثبوت کسی صحیح حدیث سے تو در کنار کسی ضعیف حدیث سے بھی نہیں ملتا۔ علاوہ ازیں اگر بعض لوگ بغلوں میں بت رکھتے تھے تو جب وہ پہلی دفع رفع الیدین کرنے سے نہیں گرتے تھے تو وہ دوسری دفعہ رفع الیدین کرنے سے بھی نہیں گرتے تھے۔ وہ تو اسی وقت گر جانے چاہئے جب تکبیر تحریمہ کیلئے ہاتھ اٹھائے جاتے تھے۔ بت گرانے کیلئے اس کے بعد رکوع میں اور رکوع کے بعد ہاتھ اٹھوانے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ 
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

تبصرے