سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(29) بیل بوٹی والی جائے نماز پر پڑھنے کا حکم

  • 14629
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2029

سوال

(29) بیل بوٹی والی جائے نماز پر پڑھنے کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جس جائے نماز پر بیل بوٹی و نقش و نگار اور بعض مساجد کی تصاویر بنی ہوتی ہیں، ان پر نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایسی جائے نمازوں پر نماز ادا کرنا بہتر نہیں ہے۔ خواہ وہ تصاویر بیل بوٹے ہوں یا بعض مساجد کی کیونکہ یہ تصاویر انسان کے ذہن اور دل کو اپنی طرف مشغول کرنے کا سبب بنتی ہیں جس سے نمازی کے خشوع میں خلل واقع ہوتا ہے۔ اس کی دلیل بخاری شریف کی یہ حدیث ہے کہ اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک تصاویر والا پردہ تھا جس کے ساتھ انہوں نے اپنے گھر کو ایک طرف ڈھانپا تھا ۔ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ۔

" أميطى عنا قرامك هذا فإنه لا يزال تصاويره تعرض لى صلاتى "

    '' کہ ہم سے اس پردے کو ہٹادو ۔ اس کی تصویریں نماز میں میرے سامنے آتی رہتی ہیں ''۔( بخاری کتاب الصلوٰۃ )
علامی صغانی لکتے ہیں :

" وفى الحديث دلالة على إزالة ما يشوش عاى المصلى صلاته مما فى منزله أو فى محل صلاته "

    ''اس حدیث میں دلیل ہے کہ وہ ہر چیز جو نمازی کو نماز سے غافل کردے ، اس کو دور کر دینا چاہئے خوا ہ وہ چیز اس کے مکان میں ہو یا نماز کی جگہ میں ''۔
    دوسری دلیل میں یہ ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک مرتبہ دھاری دار چادر میں نماز پڑھی ۔ نماز میں اس چادر کی د ھاریوں کی طر ف ایک نظر دیکھا ۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا میری یہ چادر ابو جہم کے پاس لے جا ؤ اور اس سے ایک سادہ چادر لے آؤ۔ اس چادرے نے تو مجھے میری نماز سے غافل کر دیا ۔
                                            ( صحیح بخاری ، کتاب الصلوٰۃ )
    اس حدیث رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  سے بھی ہی واضح ہوتا ہے کہ نماز کے سامنے ایسی چیزوں کا ہونا نا پسندیدہ ہے جو نماز میں خلل ڈالیں۔ خواہ وہ تصاویر والی چٹائیاں ہو ں یا جائے نماز ہاں یہ بات یاد رہے کہ اگر کوئی شخص ایسی جائے نمازوں پر نماز ادا کر لیتا ہے توا سکی نماز کو باطل قرار نہیں دیا جاسکتا ہے ۔ 
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

تبصرے