سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(17) نماز میں وضو کا ٹوٹنا

  • 14627
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1913

سوال

(17) نماز میں وضو کا ٹوٹنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز کے دوران اگر کسی کا وضو ٹوٹ جائے تو کیا اُس پر نماز چھوڑ کر وضو کرنا لازمی ہے؟ اس طرح اگر امام کا وضو ٹوٹ جائے تو وہ کیا کرے ؟ نماز چھوڑ کر وضو کرنا پڑے گا یا کہ وہ نماز پورا کرے گا ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

:اگر نماز اکیلا نماز پڑھے تو اذان و اقامت کہہ سکتا ہے۔ سنن ابو داؤد کی صحیح حدیث ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا

نماز کیلئے وضو کا ہونا شرط ہے۔ جب وضو ٹوٹ جائے تو نمازی کو نماز چھوڑ کر چلے جانا چاہئے اور نئے سرے سے وضو کر کے نماز ادا کرنی چاہئے ۔ اگر امام ہے تو پیچھے سے کسی کو آگے کھڑا کر کے چلا جائے اور نئے سرے سے وضو کر کے نماز ادا کرے اور یہ بھی یاد رہے کہ نماز ابتداء سے شروع کرے نہ کہ جہاں سے چھوڑی تھی ۔ سیدنا علی بن طلق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
    '' جب تم میں سے کوئی آدمی نماز میں اپنی ہوا خارج کرے تو وہ واپس جا کر وضو کرے اور نماز دوبارہ پڑھے۔'' یہ حدیث حسن ہے۔ ترمذی ( ۱۱۲۴،۱۱۶۶ ابوداؤد (۲۰۵) عبدالرزاق۱۳۹/۱ ، ابن حبان (۲۰۴،۲۰۳) دار قطی۱۵۳/۱ ۔
    علماء احناف کے ہاں یہ مسئلہ ہے کہ اگر نمازی کا وضو ٹوٹ جائے تو وہ چلا جائے اور وضو کر کے آئے اور اگر اس نے نماز کے منافی کوئی حرکت نہیں کی تو جہاں سے نماز چھوڑٰ تھی ، وہیں سے اتبداء کرے۔ نئے سرے سے نماز ادا نہ کرے اور اس کی دلیل میں وہ یہ روایت پیش کرتے ہیں :
    '' سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ جسے قے یا نکیر یا پیٹ کا کھانا یا مذی آجائے ، وہ پھر جائے ، وضو کرےا ور اپنی نماز پر بنا کرے بشرطیکہ اس نے دوران کلام نہ کیا ہو ۔''

(ابن ماجہ، دارقطنی۱/۱۵۵،۱۵۳)
    یہ روایت ضعیف ہے جیسا کہ حافط ابن حضرت عسقلانی ؒ نے بلوع المرام میں فرمایا ہے ضعفہ، احمد وغیرہ اس حدیث کو امام احمد وغیرہ نے ضعیف کہا ہے۔
    لہٰذا اس روایت سے استدلال درست نہیں ہے۔ صحیح بات یہی ہے کہ نئے سرے سے وضو کر کے ابتداء سے نماز پڑھی جائے کیونکہ وضو نماز کیلئے شرط ہے ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

تبصرے