کیا اقامت کا جواب "اقامھا اللہ وا دامھا "کہنا صحیح ہے ؟ تکبیر کا جواب دیتے ہوئے دریافت کیا جائے تو کہا جاتا ہے کہ ہمارے بڑے اسی طرح کرتے آئے ہیں ۔ تم ایک نیا فتنہ کھڑا کر رہے ہو ۔ اس مسئلہ میں ہماری صحیح راہنمائی فرمائیں ۔
اقامت کا جواب دینے کیلئے "جو اقامھا اللہ وادامھا "کہا جات اہے یہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ۔ اس سلسلہ میں سنن ابو داؤد میں جو روایت بطریق محمد بن ثابت از رجل من اهل الشام از شھر بن حو شب از ابی امامه یا عن بعض اصحاب النبی مروی ہے ،انتہائی کمزور ہے۔ اس کی وجہ ضعف یہ ہے کہ اس کی سند میں درج ذیل تین علتیں پائی جاتی ہیں۔ پہلی علت یہ ہے :
(١۱) محمد بن ثابت العبدی ضعیف راوی ہے۔ امام علی بن مدینی اور دیگر محدثین نے کہا کہ یہ حدیث میں قوی نہیں ہے۔ امام ابن معین نے فرمایا لیس بشیء یہ کچھ نہیں ہے۔ ( میزان الا تعدال ٣۳/ ۴۹۵٣٩٥)
امام ابو حاتم نے کہا ہے لیس بالمتین امام بخاری نے کہا یخالف فی بعض حدیثہٖ اما نسائی نے فرمایا لیس بالقوی امام ابن عدی نے کہا" عامة احادیثه مم لا یتابع علیه" امام ابو داؤد نے کہا لیس بشیء امام ابو احمد الحاکم نے کہا لیس بالمتین (تہذیب التہذیب ٩۹/ ۸۵٨٥)
دوسری علت یہ ہے کہ :
(۲٢) رجل من اھل الشام مجہول ہے یعنی یہ بات معلوم نہیں کہ اہل شام میں سے کون سا آدمی ہے جس سے یہ روایت مروی ہے ۔
(٣۳) تیسری خرابی یہ ہے کہ شہر بن جو شب متکلم فیہ ہے ( جیسا کہ میزان ٢۲/٢۲۸۳٨٣ اور تہذیب ٤۴/ ٣٦۳۶۹٩ میں موجود ہے )حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ نے تقریب میں اسے کثیر الاوہام یعنی کثرت سے وہم میں مبتلا ہونے والا قرار دیا ہے۔
لہٰذا جب یہ روایت صحیح نہیں تو اس سے استدلال کرنا کیسے درست ہو سکتا ہے یاد رہے کہ بڑوں کی بات کوئی حجت نہیں ۔ اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے احکامات میں ہمارے لیے حجت ہیں۔ جو بات قرآن و سنت سے ملتی ہے وہ لے لو اور جس کا شرعاً کوئی ثبو ت نہیں ۔ اس پر عمل کرنے کے ہم مکلف نہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دعوت کا سلسلہ شروع کیا تھا تو آپ کو بھی یہ جواب دیا گیا تھا کہ ہمارے بزرگ اور بڑے آج تک اس طریقہ پر گامزن ہیں ۔ کیا وہ غلط ہیں اور تم جو نیا دین لائے ہو ہو صحیح ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: