شیعہ اپنے مذہب کی صداقت کی یہ دلیل دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ﴿وَإِنَّ مِن شِيعَتِهِ لَإِبْرَاهِيمَ ﴿٨٣﴾...الصافات کہ نوح علیہ السلام کے شیعوں میں سے ابراہیم علیہ السلام بھی تھے۔ کہتے ہیں کہ اس آیات سے معلوم ہوا، ابراہیم علیہ السلام بھی شیعہ تھے۔
قرآن و سنت کی رُ و سے واضح کریں کہ مندرجہ ابلا آیات کا کیا مطلب ہے؟ کیا لفظ شیعہ قرآن میں کسی خاص فرقے کیلئے استعمال کیا گیا ہے؟( ناصر‘ پھالیہ(
لفظ شیعہ کا معنی گروہ او رفرقہ ہے۔ قرآن مجید میں لفظ شیعہ کسی خاص مذہب کیلئے مستعمل نہیں ہوا ۔ شیعہ حضرات اپنے مذہب کی حقانیت کے لئے مندرجہ بالا آیات کو پیش کرنا قطعاً درست نہیں۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کیلئے یہ جو لفظ استعمال کیا گیا ہے، اس کا معنی گروہ ہے نہ کہ موجودہ شعیہ ۔ آیات کا صاف مطلب یہ ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام، سید نا نوح علیہ السلام کے گروہ سے تھے۔ یعنی جس طرح وہ اللہ تعالیٰ کے نبی تھے‘ اسی طرح ابراہیم علیہ السلام بھی نبی تھے۔
قرآن مجید میں جہاں پر ابراہیم علیہ السلام کے دین کا ذکر کیا ہے، وہاں یوں ارشاد فرمایا ہے:
’’ ابراہیم علیہ السلام نہ یہودی تھے اور نہ عیسائی لیکن وہ تو یک سو مسلم تھے ‘‘ (آل عمران ۶۷)
اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کا دین بیان کرتے ہوئے ( حنیفاً مسلما )کہا ہے ۔ اگر وہ مذہباً شیعہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ یوں ارشاد فرماتے:"ما کان ابراھیم بھو دبا ولا نصر اینا ولکن کان شیعة"۔ لیکن قرآن میں اس طرح مذکور نہیں۔
قرآن مجید میں اکثر و بیشتر مواقع پر لفظ شیعہ، شریروں ، فسادیوں اور فتنہ بازوں کیلئے استعمال ہوا ہے۔ جیسا کہ ارشادباری تعالیٰ ہے:
’’ التبہ ہم نے آپ سے پہلے کئی رسول اگلے شیعوں میں بھیجے اور ان کے پاس کوئی بھی رسول نہیں آیا مگر وہ ان سے مذاق کرتے تھے‘‘(الحجر ۱۱)
اگر لفظ شیعہ سے مراد شیعہ فرقہ ہے تو پھر اس آیت سے معلوم ہوا کہ رسولوں کے ساتھ مذاق کرنے والے شیعہ تھے ۔ اِ س آیت کی تفسیر میں شیعہ مفسر عمار علی نے اپنی تفسیر عمدۃ البیان ۲/ ۱۷۴ پر لکھا ہے:
’’ یہاں شیعہ سے مراد وہ کافر ہیں جو رسولوں کے ساتھ ٹھٹھہ وہ مذاق کرتے تھے‘‘۔
کہہ دیجئے اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ تمہیں اُوپر سے عذاب بھیج دے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے یا تم کو شیعہ بنا کر آپس میں لڑا دے ۔‘‘
اگر لفظ (شیعه) سے شیعہ فرقہ مراد ہے تو ان کے عذابِ الٰہی میں گرفتار ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں۔
اِ س آیت کے متعلق شیعہ مفسر عمار علی نے عمدۃ البیان /۱ ۳۵۳پر لکھا ہے’’ اس آیت میں لفظ ( شیعه) شریروں، فسادیوں اور فتنہ بازوں پر بولا گیا ہے ‘‘۔
’’ بے شک فرعون نے زمین میں سر کشی کی اور وہاں کے رہنے والوں کو شیعہ بنا دیا ‘‘۔(القصص ۴)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ لوگوں کو شیعہ بنانے والا فرعون تھا۔
’’ اور نماز قائم کرو اور شرکوں سے نہ بنو جنہو ں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور تھے وہ شیعہ ۔‘‘ (الروم ۳۱)
اِ س آیت کی تفسیر میں شیعہ مفسر نے عمداۃ البیان /۳ ۱۳ میں لکھا ہے:
’’ اس آیت میں شیعہ ۔۔۔۔ مشرکوں، بت پرستوں، دشمنان دین اور یہود و نصاریٰ کو کہا گیا ہے ‘‘۔
’’ بے شک وہ لوگ جنہوں نے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کیا اور شیعہ ہو گئے ، ان سے آپ کا کوئی تعلق نہیں ‘‘۔(الانعام ۱۶۰)
اس آیات نے صراحت کرد ی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا شعیوں سے کوئی تعلق نہیں۔ جس فرقہ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی تعلق نہ ہو، اس کے گمراہ ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں۔