میت سے قبر میں جب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ((مَاکُنْتَ تَقُوْلُ فِیْ ھَذَاالرَّجْلِ)) (تو اِس مرَدے کے متعلق کیا کہتا ہے؟) تو کیا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت وہاں میت کو دکھلائی جاتی ہے یا آپ ؐ خود تشریف لاتے ہیں ؟ بعض لوگ کہ اِس حدیث میں ھَذَااِسم اشارہ قریب کے لیے ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ وہاں موجود ہوتے ہیں اور فرشتے آپؐ کی طرف اشارہ کرکے کہتے ہیں کہ ((مَا کُنْتَ تَقُوْلُ فِیْ ھَذَا الرَّجُلِ)) قرآن و سنت کی روشنی میں صیحح جواب دیں ۔
جب انسان اِس دارِ فانی سے اپنا وقت مقررہ ختم کرکے قبر کی آغوش میں پہنچتا ہے تو اِس سے منکر نکیر جو سوالات کر تے ہیں اْن میں سے ایک سوال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی ہوتا ہے ‘ کہا جا تا ہے کہ ((مَاکُنْتَ تَقُوْلُ فِیْ ھَذَا الرَّ جُلِ)) تو اِس مَردے کے متعلق کیا کہتا ہے ؟ اگر آدمی ایمان دار ہو تو وہ اِس کا صحیح حدیث میں یہ مذکور نہیں کہ آپؐ خود تشریف لاتے ہیں یا آپؐ کی صورت وہاں پر پیش کی جاتی ہے جسے دیکھ کر اور اشارہ کرکے فرشتے کہتے ہوں کہ ((مَا کُنْتَ تَقُوْلُ فِیْ ھَذَا الرَّجُلِ))
ملا علی قاری نے مشکوٰۃ کی شرح مر قا ۃ میں لکھا ہے کہ :
کہا گیا ہے کہ میت کے لیے پردہ ہٹا دیا جا تا ہے یہا ں تک کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا ہے ۔اگر یہ بات صحیح ہو تو مومن کے لیے بڑی عظیم خوشخبری ہے (کہ وہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کر لیتا ہے ) لیکن اِس کے متعلق ہمارے علِم کے مطابق کوئی صحیح حدیث مروی نہیں۔(مرقاۃ علی ہامش مشکوۃ ۱ / ۲۴)
امام جلال الدین الیسوطیؒ رقم طراز ہیں:
حافظ ابنِ حجر عسقلانی ؒ سے سوال کیا گیا: کیا میت کے لیے پردہ ہٹا دیا جاتا ہے حتیٰ کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا ہے تو اْنہوں نے جواب دیا یہ بات کہ میت کے لیے پردہ ہٹادیا جاتا ہے اور وہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا ہے کسی حدیث میں مروی نہیں ہے بعض لوگوں نے غیر مستند باتوں سے استدلال کیا ہے جو کہ قابل حجت نہیں ۔ سوائے اِس قول ھذاالرجل کے اور اِس کے متعلق کوئی دلیل نہیں ۔ اِس لیے کہ ھذااسم اشارہ سے یہاں ذھن کے لیے ہے ۔
ھذا اِسم اشارہ سے استدلال درست نہیں کیونکہ حضور دو قسم کا ہوتا ہے ایک حضورِ ذہنی (تصوراتی) دوسرا حضورِ شخصی یہاں حضورِ ذہنی مُراد ہے شخصی نہیں۔ ملاحظہ ہو مرقاۃ /۳۴۰۱۔
اِس کے علاوہ قرآنِ مجید اور کتب احادیث میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ حذا اِسم اشارہ کو بعید کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے اور یہ ضروری نہیں کہ جس کی طرف ھذا کا اشارہ ہو وہ پاس ہی موجود ہو قرآنِ مجید میں مذکور ہے کہ ملائکہ جب لوط علیہ السلام کی قوم کو ہلاک کرنے کے لئے تشریف لائے تو پہلے ابرہیم علیہ السلام کے پاس حاضر ہوئے انہوں نے آمد کا سبب پوچھا تو وہاں فرشتوں نے کہا "ہم اس بستی کے باشدوں کو ہلاک کرنے والے ہیں کیونکہ یہ ظالم ہیں۔"(۳۱ – ۲۹) لو ط علیہ السلام سدوم اور ابراہیم علیہ السلام فلسطین میں تھے بستی سدوم پاس موجود نہیں تھی لیکن فرشتے﴿ ھذہ ﴾کا اشارہ کر کے کہتے ہیں کیونکہ سدوم ابراہیم علیہ السلام اور ملائکہ کے ذہن میں تھے۔
اسی طرح صحیح بخاری /۴۱ مسلم /۹۷۲ پر مروی ہے کہ ہر قل روم نے بیت المقدس میں جب سید نا ابو سفیان رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھا تو کہا کہ :
تم میں سے اِس آدمی کے نسبی لحاظ سے کون زیادہ قریب ہے؟
اسی طرح اس روایت میں آتا ہے کہ اس نے کہا بیت المقدس میں جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق گفتگو ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ((ھذا))کا لفظ استعمال کیا گیا۔
اور بیت المقدس مدینہ سے تقریباً ۸۱۰ میل کے سفر پر موجود ہے تو لا محالہ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہاں پر ((ھَذَا))اسم اشارہ حضورِ شخصی کے لئے بلکہ حضورِ ذہنی کے لئے بولا گیا ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو کے وقت وہاں موجود نہ تھے۔
اسی طرح صلح حدیبیہ میں بدیل بن ورقاء مشرکینِ مکہ کی طرف سے شرائط صلح نامہ طے کرنے کے لئے سفیر بن کر آیا اور گفتگو کر کے واپس مکّہ پہنچا تو اس نے کہا کہ:
’’ہم تمہارے پاس اس آدمی سے ہو کر آئے ہیں۔‘‘(بخاری ۱/ ۳۷۸)
سیدنا ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا چرچا سنا تو تحقیق حال کے لئے اپنے بھائی کو بھیجا اور کہا:
’’ تُواُس وادی کی طرف سوار ہو کر مجھے اُس آدمی کے بارے میں معلومات فراہم کر۔‘‘(بخاری ۱ / ۴۴'مسلم ۱ / ۲۹۷)
اِس قسم کی کئی اَمثلہ کتب احادیث میں موجود ہیں کہ ھَذَا اسم اشارہ کو بعید اور حضورِ ذہنی کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔
اِسی طرح جو قبر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سوال کیا جاتا ہے اور اس میں لفظ ھَذَا مستعمل ہے وہ بھی حضورِ ذہنی کے لئے ہے جیسا کہ اُوپر حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے گزر چکا ہے۔