سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(03) مسئلہ تقدیر

  • 14601
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1553

سوال

(03) مسئلہ تقدیر
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اﷲ تعالیٰ نے جب سب کچھ لکھ دیا ہے کہ انسان دْنیا میں جا کر یہ کام کے گا ۔ نیک بخت ہوگا یا بد بخت ‘جنتی ہوگا یا جہنمی ۔تو ہمار ا کیا قصور ہے جب کوئی کسی کے مقدر میںلکھا ہے تو اْسے پھر سزا کیوں دی جائے گی؟قرآن وسنت کی روشنی میں جواب تحریر فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسئلئہ تقدیر اِن مسائل میں سے ہے جن کے متعلق بحث و تمحیص کرنا شرعاً منع ہے کیو نکہ اِس کے متعلق بحث وتکرار سے اَجر کی محرومی ‘بد عملی اور ضلالت کے سوا کچھ نہیں۔ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی صحیح حدیث ہے :

’’آپؐ اپنے اصحاب پر اِس حالت میں نکلے کہ وہ مسئلئہ تقدیر پر بحث کر رہے تھے ، آپؐ یہ دیکھ کر اِس قدر غْصّے میں آگئے معلوم ہوتا تھا کہ آپؐ کے چہرے پہ انار کے دانے نچوڑ دیئے گئے ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: کیا تم اِس کا حکم دیئے گئے ہو یا تم اِس کام کے لیے پیدا کیے گئے ہو؟ اﷲکے قرآن کی بعض کے سا تھ ٹکراتے ہو ؟ اِسی وجہ سے پہلی اْمتیں ہلاک ہوگئیں۔‘‘(ابن ماجہ (۸۵) ۱/ ۲۳ مصنف عبدالرزاق (۶۰۳۲۷) ۱۱ / ۲۱۶' مسند احمد ۲ / ۱۷۸'۱۸۵'۱۹۵)

اﷲ تعالیٰ نے قرآنِ مجید کے اندر کئی مقامات پر بیان کیا ہے کہ ہم نے خیر وشر دونوں کا راستہ دکھا دیا ہے اور اسے اختیار دیا ہے کہ جس راستے کو چا ہے اختیار کر لے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’ہم نے اْس کو راستہ دکھادیا ہے خواہ وہ شکر گزار بنے یا نا شکرا۔‘‘(الدھر : ۳)

ایک اور مقام پر فرمایا:

’’ہم نے اْسے دونوں راستے دکھا دیئے۔‘‘(البلد : ۱۰)

اِن آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اﷲتعالیٰ نے انسان کو خیر و شر کے دونوں راستے دکھادئیے ہیں اور اْسے عقل و شعور دیا ہے کہ اپنے لیے اِن دونوں راستوں میں سے جو صحیح راستہ ہے اختیار کرلے۔ اگر انسان سیدھے یعنی خیروبرکت والے راستے کو ا ختیار کرے گا جہنم کے درد ناک عزاب سے اپنے آپ کو بچالے گا اور اگر راہِ راست کو ترک کرکے ضلالت و گمراہی اور شیطانی راہ پر گامزن ہوگا تو جہنم کی آگ میں داخل ہوگا ۔ اﷲتعالیٰ نے جو تقدیر لکھی ہے اْس نے اپنے عِلم کی بنیاد پر لتھی کیونکہ اﷲتعالیٰ سے کوئی چیز مخفی نہیں وہ ہر شخص کے متعلق تمام معلومات رکھتا ہے۔ اْس کو معلوم ہے کہ انسان دنیا میں کیسے رہے گا ؟ کیا کرے گا ؟ اْس کا انجام کیا ہوگا ؟ اِس لیے اپنے عِلم کے ذریعے سب کچھ پہلے ہی لکھ دیا ہے کیونکہ اْس کا عِلم و اندازہ کبھی غلط نہیں ہو سکتا اور تقدیر میں لکھی ہوئی اْس کی تمام باتیں ویسے ہی وقوع پذیر ہوں گی جس طرح اْس نے قلمبند کی ہیں۔ دوسروے لفظوں میں یوں سمجھ لیجئے کہ اﷲ کے کمالِ عِلم واحاطئہ کلی کا ذکر ہے۔ اِس میں یہ بات نہیں کہ انسان کو اْس نے اِن لکھی ہوئی باتوں پر مجبور کیا ہے۔
اِس لیے یہ بات کہنا صحیح نہیں ہو گی کہ زانی و شرابی ،چور و ڈاکو وغیرہ جہنم میں کیوں جائیں گے؟ کیونکہ اْن کے مقدر میں ہی زنا کرنا ،شراب پینا ، چوری کرنا اور ڈاکے وغیرہ ڈالنا لکھا ہوا تھا ۔اِس کی مثال یوں سمجھ لیجئے کہ ایک اْستاد جو اپنے شاگردوں کی ذہنی و علمی صلاحیتوں اور اْن کے لکھنے پڑھنے سے دلچسپی و عدم دلچسپی سے اچھّی طرح واقف ہے اپنے عِلم کی بنا پر کسی ذہین و محنتی طالب عِلم کے بارے میں اپنی ڈائری میں لکھ دے کہ یہ طالب عِلم اپنی کلاس میں اوّل پوزیشن حاصل کرے گا اور کسی شریر اور غبی و کند ذہن طالب عِلم کے بارے میں لکھ دے کہ وہ امتحان میں ناکام ہوگا اور کند ذہن و لائق طالب عِلم دونوں کو کلاس میں برابر محنت کرائے اور اکٹھا اْنہیں سمجھائے لیکن جب امتحان ہو اور ذہین و لائق طالب عِلم اچھّے نمبر حاصل کر کے اوّل پوزیشن حاصل کرلے اور کند ذہن طالب عِلم ناکام ہو جائے تو کیا یہ کہنا صحیح ہوگا کہ لائق طالب عِلم اِس لیے کامیاب ہوا کہ استاد نے پہلے ہی اپنی ڈائری میں اْس کے متعلق لکھ دیا تھا کہ وہ اوّل پوزیشن حاصل کرلے گا اور کند ذہن اِس لیے فیل ہوا کہ اْس کے متعلق اْستاد نے پہلے ہی لکھ دیا تھا کہ وہ فیل و ناکام ہوگا ۔ لہٰذا اِس بے چارے کا کیا قصور اور گناہ ہے ؟یقینا سمجھدار انسان یہ نہیں کہے گا کہ اِس میں اْستاد کا قصور ہے ۔اِس لیے کہ اِس میں اْستاد کی غلطی نہیں کیونکہ وہ دونوں کو بر ابر سمجھتا رہا کہ امتحان قریب ہیں ، محنت کرلو و رنہ فیل ہو جاؤ گے ۔ اْستاد کی ہدایت کے مطا بق لائق و ذہین طالب عِلم نے محنت کی اور نا لا ئق و شریر طالب عِلم اپنی بْری عادات میں مشغول رہا اور اپنا وقت کھیل کوداور شرارتوں میں صرف کردیا۔
اِسی طرح اﷲ تعالیٰ جس کا عِلم بلاشبہ پوری کائنات سے ذیادہ اکمل و اتم ہے،اْس سے کوئی چیز مخفی و پوشیدہ نہیں ، اْس نے کامل عِلم کی بنا ء پر ہر انسان کے دنیا میں آنے سے قبل ہی لکھ دیا ہے کہ یہ بدبخت ہوگا یا نیک بخت ؟ جنتی ہوگا یا جہنمی ؟ مگر اِن سے اختیارات اور عقل و شعور سلب نہیں کر تا البتہ اْن کی راہنمائی کر تے ہوئے اچھّے اور بْرے راستوں میں فرق اپنے انبیاء و رْسل ؑ بھیج کر کرتا رہا ہے اور سلسلئہ نبوت ختم ہو جانے کے بعد ورثعۃالانبیاء صالح علماء کے ذریعے کا ئنات میں اْنہیں ایمان و اعتقاد اور اعمالِ صالحہ کی دعوت دیتا ہے ۔کفر و شرک ،معصیت اور گناہ سے منع کر تا ہے۔ جہنم کے عذاب اور حساب و کتا ب اور قیامت کی ہولناکیوں سے ڈرتا ہے۔ اِن تمام احکامات کے باوجود جب کافر اپنے کفر اور طغیان پر اڑا رہتا ہے ، فاسق اپنے فسق و فجور سے تو بہ نہیں کر تا تو اْس کے اِن برْے اعمال پر اگر اﷲتعالیٰ اْس کو سزا دے تو اِس میں اعتراض کی کیا بات ہے ۔یہ تو عین عدل و انصا ف ہے ِس کے بر خلاف نیک و بد اور کافر و مو من سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرنا عین ظلم و نا انصافی ہے ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

تبصرے