بعض دوست جب سفر پر یا عمرہ کے لیے جاتے ہیں تو روزانہ صبح شام کسی ایک یا بعض افراد کو صبح و شام کے مسنون اذکار پڑھنے کو کہتے ہیں باقی سب لوگ سنتے رہتے ہیں (خود نہیں پڑھتے) اس کا کیا حکم ہے؟
جناب رسول اللہ ﷺ صبح شام کچھ خاص اذکار کے ساتھ اللہ کو یاد کرتے اور خاص دعائیں پڑھتے تھے۔ صحابہ کرام نے وہ دعائیں سن کر یاد کرلیں وہ بھی جناب رسول اللہﷺ کی پیروی کرتے ہوئے انفرادی طور پر یہ اذکار اور دعائیں پڑھنے لگے۔ جہاں تک ہمیں علم ہے رسول اللہﷺ یا صحابہ کرام سے ایسا کوئی طریقہ مروی نہیں کہ وہ مل کر یہ دعائیں اور اذکار پڑھتے ہوں یا اکٹھے پڑھتے ہوں یا ایک پڑھتاہو اور باقی خاموشی سے سنتے ہوں۔ مسلمانوں کو چاہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے اور اس دعا کرنے کی کیفیت میں اور تمام شرعی امور میں رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کے طریقے پر عمل کریں ۔ بھلائی تمام تر ان ی اتباع ہی میں ہے اور ہر قسم کا شران کی مخالفت میں۔ لہٰذا ذکر دعا کے لیے جمع ہونا یا سے ایک طریقہ اور عادت بنا لیتا بدعت ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’ جس نے ہمارے دین میں وہ چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں تو وہ ناقابل قبول ہے۔ ‘‘
’’نئے ایجا ہونے والے کاموں سے بچو، ہر نیا کام بدعت اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘
ابن عمر نے فرمایا: ’’ رسول اللہ ﷺ صبح اورشام کے وقت ان کلمات کو ترک نہیں فرماتے تھے:
’’ اے اللہ ! میں تجھ سے دین ، دنیا اور اہل اور مال میں عافیت ک سوال کرتاہوں۔ اے اللہ ! میری پردہ پوشی فرما اور پریشانیوں سے امن دے اور میرے حفاظت فرما میرے اگے ، پیچھے ، دائیں بائیں اور اوپر کی جانب سے اور تیری عظمت کی پناہ میں آتا ہوں اس بات سے کہ مجھے نیچے سے اچانک پکڑ لیا جائے۔ (یعنی زمین میں دھنس جانے سے تیری پناہ میں اتا ہوں )۔‘‘
یہ حدیث امام نسائی اور امام ابن ماجہ نے روایت کی ہے اور امام حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ جب صبح ہوتی تو رسول اللہ ﷺفرماتے:
’’ اے اللہ ہم نے تیری توفیق سے صبح کی اور تیری توفیق سے شام کی اور تیرے حکم سے زندہ ہیں اور تیرے حکم سے مریں گے اور تیری طرف ہی اٹھ کر جانا ہے۔‘‘
شام کو یہی الفاظ فرماتے لیکن والیک النشور کی بجائے الیک المصیر (تیر ی ہی طرف واپسی ہے ) فرماتے۔ یہ حدیث ابوداؤد، نسائی ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کی ہے۔