سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

صاحب ’’زمان‘‘ کا مطلب

  • 14473
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1781

سوال

صاحب ’’زمان‘‘ کا مطلب
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تصوف کی طرف منسوب لوگ کہتے ہیں: فلاں ’’صاحب زمان‘‘ ہے اور اہل فلاں ’’اہل تعریف‘‘ میں سے ہے‘ اس کا مطلب کیا ہے؟ اس قسم کا عقیدہ رکھنے والے کا کیا حکم ہے؟ اگر کسی شخص کے متعلق (یقین کے ساتھ) معلوم ہو کہ وہ اس قسم کا عقیدہ رکھتا ہے تو کیا اس کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

’’صاحب زمان‘‘ کا مطلب ان کے نزدیک یہ ہے کہ ایک انسان ایسا ہے جس کے ہاتھ میں مخلوقات کا تمام کام ہیں اور وہ ان کے کامو ںمیں تصرف کرسکتاہے یعنی انہیں مصیبتوں سے نجات دے سکتاہے اور مشکلات سے چھڑا سکتا ہے اور جسے چاہے جو بھلائی چاہے دے سکتا ہے۔ جو شخص اس قسم کا عقیدہ رکھے اس نے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور مخلوقات کے معاملات کے انتظام میں اللہ کا شریک بنالیا۔ لہٰـذا ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا یا اسے مسلمانوں کا حاکم بنانا یا نماز میں مسلمانوں کا امام بنانا درست نہیں‘ کیونکہ اس نے صریح کفر اور واضح شرک کا ا رتکاب کیا ہے۔ بلکہ وہ زمانہ جاہلیت کے مشرک لوگوں سے بھی بدتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَمَّن يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَمَن يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَن يُدَبِّرُ الْأَمْرَ ۚ فَسَيَقُولُونَ اللَّـهُ ۚ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ ﴿٣١ فَذَٰلِكُمُ اللَّـهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ ۖ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ ۖ فَأَنَّىٰ تُصْرَفُونَ ﴿٣٢﴾... يونس

’’کہہ دیجئے (یعنی ان سے پوچھئے) کون ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ یا کون ہے جو کانوں اور آنکھوں کا مالک ہے؟ اور بے جان سے جان دار کو اور جان دار سے بے جان کو کون نکالتا ہے؟ اور کون کاموں کی تدبیر کرتاہے؟ وہ کہیں گے: اللہ (ہی یہ سب کام کرتاہے) کہئے ’’پھر کیا تم (اس سے) ڈرتے نہیں ہو؟ یہ ہے اللہ ‘تمہارا سچا مالک۔ تو حق کے بعد گمراہی کے علاوہ اور کیا رہ جاتا ہے؟ پھر تمہیں کدھر پھیرا جارہا ہے؟‘‘

اس کے علاوہ بھی بہت سی آیات میں یہ مضمون بیان ہوا ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ دارالسلام

ج 1

محدث فتویٰ

تبصرے