السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
فوت شدہ امیر کا فیصلہ جو کتاب وسنت سے بالاتر ہو ۔ موجودہ امیر حالات کے پیش نظر بتدیل کرسکتا ہے کہ نہیں ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کتاب وسنت کے خلاف فیصلہ کو تبدیل کر کے اس کو کتاب وسنت کے مطابق کرنا جائز ہی نہیں بلکہ فرض اور ضروری ہے اور خلاف شرع فیصلہ کو حالات کے تقاضوں اور نزاکتوں کے بہانہ سے قائم رکھنا ہرگز جائز نہیں کہ یہ تحاکم الی الطاغوت ہے جو کہ کسی طرح بھی جائز نہیں ۔ کیونکہ یہ غلط فیصلہ برقرار رکھنا طاغوت (شیطان ) کی پیروی اور شریعت کی صریح خلاف ورزی ہے اور شریعت کی عملاً خلاف ورزی بحکم ﴿وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا﴾(الأحزاب: 36 ) کھلی گمراہی ہے اس لیے قاضی اور مفتی پر شرعاً کم از کم دو پابندیاں عاید ہیں ۔ اول یہ کہ وہ فیصلہ کے اجراء اور فتوی کے اصرار میں طاغوت کی پیروی سے حتی ٰ الامکان محترز رہے اللہ نے طاغوتی نظام کی مذمت کرتے ہوئے اس کے ساتھ کفر کرنے کاحکم دے رکھا ہے فرمایا: ﴿ وَقَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ يَّكْفُرُوْا بِه﴾(النساء : 60) یعنی طاغوتی نظام کے ساتھ مکمل بائیکاٹ کاحکم ہے ۔
ثانی یہ کہ اسلام کے نظام عدل کے موافق عدل و انصاف پر مبنی فیصلے اور فتاوی صادر کئے جائیں : جیسا کہ سورۂ النساء میں ہے: ﴿ وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ ﴾( آیت58)اور جب لوگوں کا (مقدمہ ) فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو ۔ اللہ تم کو اچھی نصیحت کرتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ کے اس حکم سے واضح ہوا کہ غلط فیصلہ کو صحیح فیصلہ میں ڈھالنا شرعاً فرض ہے اور یہ انبیاء اور صلحاء کی سنت متوارثہ ہے چند نظائر پیش خدمت ہیں :
(1)حضرت سلیمان نے اپنے والد پزرگوار حضرت داؤدعلیہ ا لسلام کا مندرجہ ذیل اجتہادی فیصلہ تبدیل کر دیا تھا قرآن میں ہے ﴿ وَدَاودَ وَسُلَيْمٰنَ اِذْ يَحْكُمٰنِ فِي الْحَرْثِ اِذْ نَفَشَتْ فِيْهِ غَنَمُ الْقَوْمِ ۚ وَكُنَّا لِحُـكْمِهِمْ شٰهِدِيْنَ ﴾ (الانبیاء 78)
اور اسی نعمت سے ہم نے داؤد (علیہ السلام) و سلیمان (علیہ السلام) کو سرفراز کیا۔ یاد کرو وہ موقع جبکہ وہ دونوں ایک کھیت کے مقدمے میں فیصلہ کر رہے تھے جس میں رات کے وقت دوسرے لوگوں کی بکریاں پھیل گئی تھیں، اور ہم ان کی عدالت خود دیکھ رہے تھے۔ فَفَهَّمْنٰهَا سُلَيْمٰنَ ۚ وَكُلًّا اٰتَيْنَا حُكْمًا وَّعِلْمًا ۔ الانبیاء 79۔ اس وقت ہم نے صحیح فیصلہ سلیمان کو سمجھا دیا، حالانکہ حکم اور علم ہم نے دونوں ہی کو عطا کیا تھا۔
اس مقدمے کی تفصیل مفسرین نے عموماً یہ بیان کی ہے کہ حضرت داود اور سلیمان کے پاس دو آدمی اپنے مقدمے لے کر آئے ۔ ایک کہنے لگا کہ اس شخص کی بکریاں رات کے وقت میرے کھیت میں گھس کر ساری کھیتی چرچگ گئی ہیں ۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے نقصان اور بکریوں کی قیمت کا اندازہ لگا کر فیصلہ دیا کہ تم اس کی بکریاں لے لو ۔ حضرت سلیمان نے اپنے والد بزرگوار کے اس فیصلہ سے اختلاف کیا اور کہا کہ بکریاں کھیت والے کو دے دی جائیں کہ وہ ان کے دودھ وغیرہ سے گزر اوقات کرے اور بکریوں والے کو کھیت سپرد کر دیا جائے کہ آبپاشی وغیرہ سے اس کی اصلاح کرے ۔ یہاں تک کہ کھیت اپنی پہلی حالت پر آ جائے تو کھیت اور بکریاں اپنے اپنے مالکوں کو واپس کر دئیے جائیں ۔ اسی فیصلہ کی طرف اس آیت میں اشارہ فرمایا کہ ہم نے اس مقدمہ کا ٹھیک فیصلہ سلیمان علیہ السلام کو سمجھا دیا ۔ تفسیر بن کثیر عربی ج3ص 191۔
(2)رسول اللہ ﷺ نے بھی درج ذیل غلط فیصلہ کو تبدیل کر دیا تھا ۔
حضرت ابوہریرہ اور زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہما نے بیان کرتے ہیں ۔جَاءَ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ اقْضِ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّه الحديث۔ کہ ایک دیہاتی آیا اور عرض کیا ، یا رسول اللہ ! ہمارے درمیان کتاب اللہ سے فیصلہ کر دیجئیے ۔ دوسرے فریق نے بھی یہی کہا کہ اس نے سچ کہا ہے ۔ آپ ہمارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کر دیں ۔ دیہاتی نے کہا کہ میرا لڑکا اس کے یہاں مزدور تھا ۔ پھر اس نے اس کی بیوی سے زنا کیا ۔ قوم نے کہا تمہارے لڑکے کو رجم کیا جائے گا ، لیکن میں نے اپنے لڑکے کے اس جرم کے بدلے میں سو بکریاں اور ایک باندی دے دی ، پھر میں نے علم والوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اس کے سوا کوئی صورت نہیں کہ تمہارے لڑکے کو سو کوڑے لگائے جائیں اور ایک سال کے لیے ملک بدر کر دیا جائے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، میں تمہارا فیصلہ کتاب اللہ ہی سے کروں گا ۔ باندی اور بکریاں تو تمہیں واپس لوٹا دی جاتی ہیں ، البتہ تمہارے لڑکے کو سو کوڑے لگائے جائیں گے اور ایک سال کے لیے ملک بدر کیا جائے گا ۔ (صحیح البخاری باب ھل یجوز للحاکم ان یبعث وحدہ للنظر فی الامور ج2 ص 1067و باب الاعتراف بالزنی ج2ص 1008مزید تفصیل کے لیے فتح الباری باب ھل یجوز للحاکم ان یبعث وحدہ ج12 ص 165و باب الاعتراف بالزنا ج13ص 229)
زینب بن کعب کہتی ہیں کہ مجھے ابوسعید خدری کی ہمشیرہ فریعہ بنت مالک نے بتایا کہ جب میرے شوہر کو اس کے باغی غلاموں نے قتل کر دیا تو میں نے رسول اللہ کی خدمت میں عرض کی کہ حضرت ! میرے شوہر کو اس کے غلاموں نے قتل کر دیا ۔ جبکہ میرے شوہر نے کوئی ملکیتی مکان چھوڑا ہے اور نہ نان ونفقہ ۔ لہٰذا کیا میں اپنے آبائی گھر میں جا سکتی ہوں نے آپ ﷺ نے مجھے اجازت دے دی ۔ جب میں لوٹ کر تھوڑی دور آئی تو آپﷺ نے مجھے واپس بلاکر فرمایا کہ جب تک تیری عدت پوری نہ ہو جائے تو والدین کے گھر نہیں جا سکتی ، چنانچہ میں نے چار ماہ دس دن شوہر کے گھر عدت پوری کی ۔ (رواہ مالک والترمذی و ابو داؤد وابن ماجہ مشکوۃ ص 289)
قبیصہ بن ذویب نامی نے حضرت ابو بکر صدیق سے اپنے پوتے کے ترکہ سے اپنا حصہ طلب کیا تو ابوبکر ؓ نے فرمایا میرےعلم کے مطابق کتاب وسنت میں آپ کا حصہ کوئی ذکر نہیں ، لہٰذا آپ فی الحال واپس چلی جائیں ۔ میں آپ کے حصہ کے متعلق اہل علم سے پوچھوں گا ۔ جب اہل علم سے بات ہوئی تو حضرت مغیرہ بن شعبہ نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دادی کو چھٹا حصہ دیا تھا ۔ ابوبکر نے مزید تحقیق کے لئے فرمایا اس وقت آپ کے ساتھ کوئی اور بھی تھا تو محمد بن سلمہ نے کھڑے ہو کر وہی کچھ کہا جومغیرہ نے بیان کیا تھا ، تب حضرت ابوبکر نے اپنا فیصلہ واپس لیتےہوئے رسول اللہﷺ کا فیصلہ نافذ کر دیا ۔ (سنن ابی داؤد باب فی الجدة ۔ ج2 ص45)
جناب مسروق بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر فاروق منبر رسول ﷺ پر کھڑے ہو کر فرمایا کہ کوئی شخص چار سو درہم سے زیادہ مہر نہ باندھے تو ایک عورت نے آیت وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا سناتے ہوئے کہا کہ جب اللہ تعالیٰ نے مہر میں ایک خزانہ دینے کی اجازت دے رکھی ہے تو ، لہٰذا آپ کہ یہ پابندی عائد کرنے کا حق نہیں ۔ تو حضرت عمر فاروق نے منبر پر تشریف فرما کر اپنا یہ حکم واپس لے لیا ۔ اسنادہ جیدقوی ۔ (تفسیر ابن کثیر ج1 سورة نساء 20ص 467)
حضرت علی کے پاس ایک زانی لایا گیا اور اس نے زنا کا اقرار کیا ۔ حضرت علی نے پوچھا کہ تو شادی شدہ ہے ۔ اس نے کہا ہاں شادی شدہ ہوں تو حضرت علی نے اس کوجیل بھیج دیا ۔ دوپہر کےبعد بلایا اور لوگوں کے سامنے اس کا واقعہ بیان کیا تو حاضرین میں سے ایک نے کہا کہ اس نے نکاح ہے مگر جماع نہیں کیا تو راز کھلنے پر حضرت علی بہت خوش ہوئے اور رجم کاحکم واپس لیتے ہوئے اس کو سو کوڑے لگائے ۔ ( سنن سعید بن منصور باب ماجاء فی الرجل یزنی ج3ص 211)
اسی طرح کا ایک واقعہ یہ ہے کہ حضرت علی نے چند زندیقوں کو آگ میں جلا ڈالا تھا ۔ جب حضرت عبد اللہ بن عباس کو اس کا علم ہوا تو حضرت علی کے اس غلط فیصلہ پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا کہ علی کو آگ کا عذاب دینے کاحق نہ تھا ۔ ان کو قتل کرنا چاہیے تھا کیونکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے من بدل دينه فاقتلوه . (صحيح البخارى باب حكم المرتد والمرتدة ج2ص 1023)
ہزیل بن شرحبیل کہتے ہیں کہ حضرت ابوموسیٰ اشعری سے سوال ہواکہ ورثامیں ایک بیٹی ۔ ایک پوتی اور ایک بہن ہو توترکہ کیسے تقسیم ہو گا توابوموسیٰ نے کہا کہ آدھا ترکہ بیٹی کو اور دوسرا آدھا بہن کوملے گا اور توتی محروم رہے گی اور کہا کہ ابن مسعود نے مزید تصدیق کر لیں ۔ سائل نے جا کر عبداللہ بن مسعود سے جب ابو موسیٰ کا فتویٰ بیان کیا تو انہوں نے کہا لقد ضللت اذا وما انا من المتهدين اقضى فيها بما قضى النبى صلى الله عليه وسلم ۔ اگر میں اس فتویٰ کی تصدیق کرتا ہوں تو میں گمراہ ہو جاؤں گا اور ٹھیک رستہ سے بھٹک چکا ہوں گا میں تو اس مسئلہ میں وہی حکم دوں گا جو نبی ﷺ نے حکم دیا تھا ، یعنی بیٹی کو آدھا اور پوتی کو چھٹا تاکہ دو تہائی پوری ہو جائیں اور باقی بہن کو ملے گا ۔ صحیح بخاری باب میراث ابنۃ ابن مع ابنۃ ج2 ص 997 ان آٹھ مثالوں پر سرسری نظر ڈالنے سے یہ ثابت ہوا کہ کتاب وسنت کے خلاف فیصلے اور فتوی تبدیل کر دینا فرض ہے خواہ غلط فیصلہ کرنے والا امیر المومنین یا امیر جماعت ہو ۔ لاحجة لاحد مع رسول الله صلى الله عليه وسلم -
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب