السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
گزارش ہے کہ محمد اسلم ولد سراج دین قوم راجپوت ساکن شہزادہ سٹریٹ سید پور ملتان روڈ لاہور کا نکاح شریعت محمدی کے مطابق بعوض حق مہر مبلغ بیش ہزار روپیہ ہمراہ غزالہ یاسمین دختر غلام الدین قوم راجپوت ساکن سید پور ملتان روڈ لاہور عرصہ تقریباً ساڑھے چھ سال قبل ہوا تھا اور اسلم مذکور کے نطفہ سے مسماۃ مذکورہ کے بطن سے چار بچے پیدا ہوئے ایک فوت ہو گیا تین زندہ ہیں ۔ اسلم مذکور نے گھریلو ناچاقی کی وجہ سے مورخہ اکتوبر9 8ء کو شیخ محمد احسن اسٹام فروش ضلع کچہری لاہور سے 25 روپے کا اسٹام سیریل نمبر 3566خرید فرما کر اس اسٹام پر اپنی بیوی مسمات غزالہ یاسمین کو 31اکتوبر 89ءکو تین طلاق ، طلاق ، طلاق مغلظہ دے کر اپنے نکاح سے آزاد کر دیا ہے اور آج یکم فروریی 90ء ہے لہٰذا آج اس طلاق کو 94دن ہو گئے ہیں ، یعنی 3ماہ 4دن ہو چکے ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ کیا طلاق موثر ہو کر نکاح ٹوٹ چکا ہے یا نہیں ؟ اور اگر ٹوٹ چکا ہے تو کیا مسمات غزالہ یاسمین دختر غلام الدین مذکورہ یہ اپنا نکاح کسی دوسرے مسلمان سے شرعاً کر سکتی ہے یا نہیں ؟ یہ بھی یاد رہے کہ مہر کی رقم مبلغ 20000غزالہ یاسمین نے بطور خلع اپنے سابق خاوند محمد اسلم ولد سراج دین مذکورہ کو چھوڑ دی ہے اندریں صورت شرعی فتویٰ صادر فرمایا جائے ۔
(سائل رحمت اللہ ولد کرم الہی قوم کمبوہ گلزار کالونی شاہدرہ لاہور سٹیل بازار ) ، ( محمد یوسف ولد رحمت اللہ گلی نمبر 12اربن ایریا بلاک نمبر 29سرگودہا )
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرط صحت سوالو بشرط صحت واقعہ صورت مسئولہ میں واضح ہو کہ مسمات غزالہ یاسمین دختر غلام الدین راجپوت ساکن سید پور ملتان روڈ لاہور کا نکاح ٹوٹ چکا ہے ۔ کیونکہ سوال نامہ کی خط کشیدہ تصریح اور وضاحت کےمطابق مورخہ 31-10-89کو دی گئی ہے اور آج مورخہ 1-2-90 ہے جس کا صاف مطلب صاف یہ ہے کہ ےج طلاق کو چورانوے دن یعنی 3ماہ 4دن گزر چکے ہیں ۔ طلاق کی عدت خالی گود کی صورت میں تین حیض اور فیملی لاء پاکستان کے مطابق نوے دن ہے ۔ لہٰذا عدت مکمل ہوجانے کی وجہ سے یہ طلاق موثر ہو کر شرعاً اور قانوناً نکاح کالعدم ہو چکا ہے اور غزالہ یاسمین اپنےسابقہ شوہر مسمی محمد اسلم ولد سراج دین راجپوت ساکن شہزادہ سٹریٹ سید پور ملتان روڈ لاہور کے حبالہ عقد سے آزاد ہو چکی ہے ۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے :
﴿ وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ ...﴿٢٢٨﴾...البقرة
’’ طلاق والی عورتیں اپنے آپ کو تین طہر یا تینحیض تک روکے رکھیں۔‘‘
اس آیت شریفہ سے معلوم ہوا کہ خالی گود مطلقہ عورت کی عدت صرف 3 حیض ہے ، لہٰذا اس آیت کے مطابق مسمات غزالہ یاسمین کی عدت مکمل ہو کر نکاح ٹوٹ چکا ہے ۔ لہٰذا وہ اپنے مستقبل کے بارے میں مختار ہے ۔ چونکہ یہ صورت خلع کی بھی ہے کیونکہ مہر مبلغ بیس ہزار روپے غزالہ یاسمین طلاق کے عوض میں چھوڑ دیا ہے اور خلع میں عدت صرف ایک حیض ہے ۔
(ملاحظہ ہو فتاویٰ نذیریہ : ج3ص)
غرضیکہ صورت مسئولہ میں طلاق اور خلع دونوں صورتوں میں عدت مکمل ہونے کی وجہ سے نکاح ٹوٹ چکا ہے ۔
جواب : جب نکاح ٹوٹ چکا ہے اور اہل حدیث ، احناف اور شیعہ سب کے نزدیک نکاح ٹوٹ چکا ہے لہٰذا اب غزالہ یاسمین شریعت کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ولی اجازت سے کسی بھی شریف مسلمان مرد سے نکاح کر لینے کی شرعاً حق دار ہے ۔ چنانچہ قرآن مجید میں :
﴿ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ... ﴿٢٢٩﴾...البقرة
کہ رجعی طلاق دو مجلسوں میں ہے پھر اس کے بعد یا اچھے طریقہ سے آباد رکھنا ہے یا پھر شائستگی کے ساتھ اسے چھوڑ دینا ہے ۔ امام ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں ارقام فرماتے ہیں :
أي إذا طلقتها واحدة أو اثنتين فأنت مخير فيها ما دامت عدتها باقية بين أن تردها إليك ناوياً الإصلاح بها والإحسان إليهاوبين أن تتركها حتى تنقضي عدتها فتبين منك. (1) (تفسیر ابن کثیر : ج1ص 272)
کہ پہلی اور دوسری طلاق کے بعد اصلاح کی نیت کے ساتھ طلاق د ہندہ عدت پوری ہونے سے پہلے رجوع کر سکتا ہے لیکن اگر عدت گزر جائے تو بیوی حبالہ عقد سے نکل جاتی ہے ۔ یہ فتاوی اہل حدیث مسلک کے مطابق لکھا گیا ہے ۔ کہ ان کے نزدیک قرآن وحدیث کے مطابق اکٹھی تین طلاقیں ایک رجعی طلاق شرعاً واقع ہوتی ہے اور احناف کے نزدیک چونکہ اکٹھی تین طلاقیں تینوں واقعہ ہوتی ہیں ۔ لہٰذا ان کے نزدیک تو عدت کے اندر بھی مسمی محمد اسلم کا اپنی بیوی غزالہ سے رجوع جائز نہ تھا ۔
فیصلہ
بشرط صحت سوال مذکورہ بالا آیات شریعہ کے مطابق شرعاً اور قانوناً موثر ہوکر نکاح ٹوٹ چکا ہے کہ عدت گزر چکی ہے، لہٰذا مسمات غزالہ یاسمین مذکوریہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کر لینے کی شرعاً مستحقہ ہے ۔ اور وہ ولی کی اجازت سے نکاح کر لینے کی حق دار ہے ۔ مفتی کسی قانونی سقم کا ہرگز ہرگز ذمہ دار نہ ہو گا ۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب