سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(350) عدت کے اندر رجوع جائز ہے

  • 14450
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1171

سوال

(350) عدت کے اندر رجوع جائز ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرح متین اس مسئلہ میں کہ من مقر نے ےج سے دو ماہ پہلے ایک خانگی جھگڑے کی وجہ سے غصے میں آکر اپنی بیوی کو اکٹھی دو طلاقیں دے دیں تھیں ، مگر اس طلاق کے دوسرے دن میں نے اپنےسسرال اور بیوی کے سامنے طلاق واپس لے لی تھی ، یعنی میں نے کہاتھا کہ میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں کہ ازروئے شریعت صورت مسئولہ میں شرعاً رجوع ہو چکا ہے یا نہیں ؟ کیا میں اپنا گھر آباد کر سکتا ہوں یا نہیں ؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں شرعی فتویٰ صادر فرمایا جائے۔

نوٹ : میں نے اس طلاق سے پہلے کوئی تحریری یا زبانی طلاق نہیں دی ہے ۔

(سائل علی اصغر ولد غلام نبی قوم راجپوت ساکن موضع اموال تحصیل و ضلع نارووال )


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال مسئولہ میں ایک رجعی طلاق واقع ہوئی ہے اور رجعی طلاق کی عدت تین حیض یا تین ماہ یا حمل کی صورت میں وضع حمل ہے ۔ چونکہ خط کشیدہ سوال کی تصریح کے مطابق طلاق وہندہ مسمی اصغر علی نے اس طلاق کے بعد دوسرے دن طلاق واپس لے لی ہے ۔لہٰذا یہ رجوع عدت کے اندر ہوا ہے ۔ لہٰذا نکاح بحال اور قائم ہے اور طلاق دہندہ اس میں کسی کاکوئی اختلاف نہیں ، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے :

﴿ وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِنْ كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا ﴾(البقرة: 228)

’’ طلاق والی عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں، انہیں حلال نہیں کہ اللہ نے ان کے رحم میں جو پیدا کیا ہو اسے چھپائیں، اگر انہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہو، ان کے خاوند اس مدت میں انہیں لوٹا لینے کے پورے حقدار ہیں اگر ان کا اراده اصلاح کا ہو۔‘‘

اس آیت کریمہ سے ثابت ہوا کہ عدت کے اندر اندر شوہر کو طلاق واپس لے کر رجوع کاحق حاصل ہے اور سسرال یا بیوی کو شرعا انکار کرنے کا اختیار حاصل نہیں ۔ کیونکہ لفظ احق اسم تفضیل کا صیغہ ہے جو شوہر کےحق میں استعمال ہوا ہے ۔

خلاصہ کلام یہ کہ صورت مسئولہ میں طلاق دہندہ مسمی اصغر علی ولد غلام نبی مذکور اپن مطلقہ بیوی مسمات عصمت بی بی دختر محمد نواز کو اپنے گھر آباد کر سکتا ہے ۔ کیونکہ رجوع عدت کے اندر ہوا ہے ۔یہ جواب بشرط صحت سوال تحریر کیا گیا ۔ غلط بیانی کا ذمہ دار خود سائل ہے ۔ اگر غلط بیانی ہو گئی تویہ فتویٰ کام نہیں دے گا ۔ مفتی کسی قانونی سقم اور عدالتی کارروائی کا ہرگز ذمہ دار نہ ہو گا ۔ 

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص850

محدث فتویٰ

تبصرے