سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(341) مکرہ کی طلاق شرعا معتبر نہیں

  • 14441
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 3112

سوال

(341) مکرہ کی طلاق شرعا معتبر نہیں

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سائلہ سعدیہ رضی الدین نےاپنے استفتاء میں امام کی تقلید اور جبر کی طلاق ثلاثہ کا شرعی جواب طلب کیا تھا ،لہذا تقلید شخصی  کا حکم کے بعد ابجبر ی (طلاق مکرہ )طلاق کاجواب بیش خدمت ہے ۔ 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جواب سے قبل اکر اہ کی شرطوں کی  جان لینا مناسب ہے تاکہ مکروہ شخص کی شناخت ہو سکے ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی ﷫ اکراہ کی تعریف اور اسکی شرطوں کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

ألاکراہ ھو الإلزام الغیر بما لا یریدہ ۔ یعنی اکر اہ کامفہوم یہ ہے کہ غیر کو اس چیز پر مجبور کر دینا  جس کو چاہتا نہ ہو ۔ شروط الاکراہ اربعة لأول : أن یکون فاعلة قادر ا علی ایقاع ما یھدد به والمامور عاجزا عن قع ولو بالفرار.(ابن ماجة باب طلاق المکرہ والناسی ص147وحسنه النووی) 

الثانی : أن یغلب علی ظنه أنه إذا  متنع اوقع بذالک

الثالث: أن یکون ماھدد به فوریا فلو قال إن لم تفعل کذا ضربتک غدا لا یعد مکرھا ویستثنی ٰ ما اذا ذکر زمنا قریبا أو جرت العادۃ بأنه لا یخلف الرابع ۔ أن لا یظھر من المامور ما یدل علی اختیار ہ )(فتح البار ی کتاب الاکراہ ج 12 ص 385.)

1:فاعل (دھمکانے والے ) نے  جس سزا کی دھمکی دی ہے : اس کے وقوع پر  قادر ہو اور  مامور جس کو دھمکی دی گئی ہواس کے دفاع سے بالکل عاجز ہو حتی کہ وہ وہاں سے فرار بھی نہ ہو سکتا ہو۔

2:مامور کاظن غالب ہو کر جب اس نے فائل کا مطالبہ پورا نہ کیا تو سزا مل کر رہے گی ۔

3: جس سزا کی دھمکی   دی ہے ہو اس کا وقوع  فوری ہو ۔ اگر یوں کہا تو نے اس طر ح ن کیا تو تجھے کل سزا دون گا تو یہ شخص مکرہ تصور نہ ہوگا ۔مگر قریبی  زمانہ اس سے مستثنی ٰ ہے ۔ یا فاعل کی عادت معلوم ہو کہ جو اس نے کہا ہے اس خلاف نہیں    کرے  گا۔

4:مامور سے کسی ایسی بات کا  اظہار نہ ہو جو اس کے اختیار پر دلالت کر رہی ہو ۔جس شخص میں یہ چار شرطین موجود ہوں گی و ہ شرعی مکرہ  ہو گا ورنہ نہیں ۔

مکرہ (مجبور ) انسان کی طلاق کے وقوع اور عدم وقوع میں فقہاء کے ہاں اختلاف ہے ، جمہور سلغ وخلغ کے نزدیک مکرہ کی ( جس کی گر دن پر تیز دھار آلہ قتل یا گن پوائنٹ ) کی طلاق  واقع نہیں ہوتی جب کہ فقہائے احناف کے نزدیک مکرہ طلاق واقع ہو جاتی ہے ۔

جمہور علمائے سلف وخلف کے دلائل حسب ذیل ہیں :    

مکرہ (مجبور )شخص صاحب ارادہ ہوتاہے  اورنہ صاحب اختیار جب کہ شرعی تکلیف (شرعی حکم کی بجا آوری ) کا دارومدار ارادہ اور اختیار پر استوار نہ ہو ں گے  تو تکلیف (شرعی حکم کی بجاآور ی) بھی  مکلف پر لاگو نہیں ہوگی اور مکرہ (مجبور شدہ شخص ) اپنے تمام تصرفات میں مسؤل نہ ہوگا کیو نکہ وہ مسلوب الاختیار ،یعنی بے بس ہو تاہے وہ صاحب ارادہ اور اپنی کاروائی میں مختار نہیں ہو تا اور یہی وجہ ہے  کہ جان بچانے کے لئے کلمہ کفر بو ل دینے یاکفر کا کام کر دینے والا شخص شرعا کافر متصور نہ ہوگا جبکہ اس کا دل ایمان پر قائم ہو ۔

قرآن مجید میں ہے:

﴿إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ ... ١٠٦﴾...النحل

’’مگر جس شخص پر زبر دستی کی جائے اور اس کا دل ایمان پر جما ہو تو اس پر کچھ گناہ نہ ہوگا ۔،، تفسیر جلالین میں ہے :

إلا من إکرہ علی التلفظ بالکفر فتلفظ وقلبه مطمئن بالایمان.(ص : 226)

یعنی جس شخص کو کلمہ کفر بولنے پر مجبور کیا جائے اور وہ اپنی زبان سے کلمہ کفر کہہ دے ،حالانکہ اسکا دل ایمان پرقائم ہے تو وہ شرعا کافر نہ ہوگا۔ اسی طرح اگر کزئی زور آور مسلمان کسی کمزور کافر کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کرے اور وہ کافر بادل نخواستہ زبان سے اسلام قبول کرلے اور کلمہ شہادتین پڑھ لے تواس کا اسلام صحیح نہ ہوگا علی ہذالقیاس زبر دستی کی طلاق بھی شرعا معتبر نہیں ۔عن ابن عباس رضی اللہ عنہ عن النبی  صلی اللہ علیہ وسلم  قال ان اللہ وضع عن أمتي الخطأ والنسيان وما استكرهوا عليه ". ’’میری امت سےخطا نسیان اور اکراہ کی کارروائی اٹھا لی گئی ہے ، یعنی ان تینوں حالتوں میں کسی قسم کی کارروائی شرعا معتبر نہ ہوگی اور اس پر کوئی فرد جرم عائد نہ ہوگی ،لہذا زبر دستی کےساتھ حاصل کی گئی طلاق شرعی طلاق نہ ہوگی ۔،،

السید محمد سابق مصری  ارقام فرماتے ہیں : .وإلى هذا ذهب مالك، والشافعي، وأحمد، وداود من فقهاء الامصار،وبه قال عمربن الخطاب، وابنه عبد الله، وعلي بن أبي طالب، وابن عباس. .( فقه السنة :ج2 ص212.)

’’امام مالک ،امام شافعی ،احمد ، امام دواؤد ظاہری رحمہم اللہ جمہور فقہاء امصار کا یہی قول ہے کہ جبر واکراہ پر مبنی طلاق واقع نہیں ہوتی ، حضرت عمربن خطاب ﷜ ،حضرت عبد اللہ بن عمر ﷜ ، حضرت علی بن ابی طالب﷜ حضرت عبد اللہ بن عباس ﷜ کا بھی یہی قول اور فتویٰ ہے ۔

رہے فقہائے احناف تو اگر چہ ان کے نزدیک مکرہ کی طلاق کی طلاق شرعا  معتبر ہے ۔ مگر یہ صرف ان کی رائے محض ہےان کے پاس اپنے اس قول کی کوئی دلیل موجود نہین ،جیسا کہ علماء محققین اور فقہاء نےاس کی صراحت کی ہے

السید سابق مصری احناف کےاس بودے اور بے بنیاد فتویٰ اور مذہب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

وقال ابو حنیفة واصحابه  طلاق المکره واقع ولا حجة لھم فیما ذھبوا إلیه فضلا عن مخالفتھم لجمہور الصحابة: (فقه السنة : ج 2ص 312)

کہ اگر چہ امام ابو حنیفہ اوران کے اصحاب کہتے ہیں کہ مکرہ کی طلاق پڑجاتی ہے ، مگر ان کے پا س اپنے اس قول کی

مذکورہ آیت قرآنی اور احادیث کےمطابق  اور جمہور سلف وخلف کےمذہب وفتاویٰ کے مطابق مکرہ( مجبور  وبے بس ) انسان کی طلاق شرعا معتبر نہیں اور یہی صحیح اور صواب ہے ۔ 

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص832

محدث فتویٰ

تبصرے