سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(340) طلاق کی ایک عجیب قسم!

  • 14440
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1368

سوال

(340) طلاق کی ایک عجیب قسم!

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتےہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ دو فریقوں کے مابین لڑکی کے اغوا پر اختلاف ہو ا جس فریق کے لڑکے نے لڑکی اغوا کی تھی انہوں نے لڑکی والوں کے خلاف لڑکے کے روپوش کرنے کا دعویٰ کر دیا بعد ازاں لڑکے والوں کو ایک عدد نعش اس لڑکے سے ملتی جلتی ملی جو انہوں نےاپنی سمجھ کر دفن کر دی اور لڑکی والوں پر قتل  کا دعویٰ کر دیا ۔ تفشیشی افسر نے تحقیق کے سلسلہ میں لڑکے والوں کو کہا اگر تمہارا لڑکا واقعی قتل ہو ا ہے تو حلف کے بجائے اپنی عورتوں کو طلاق دے کر یقین دلاؤ تو انہوں نے یقین دلاتے ہوئے اپنی عورتوں کو تین طلاقیں دے دیں بعد ازان تفتیشی افسر نے ان کا لڑکا زندہ  بر آمد کر کے مدعی پارٹی کے سامنے پش کر دیا ۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا یہ طلاقیں شرعا نافذ  ہو چکی ہیں یا نہیں ۔ بینو اتوجروا.(سائل :حافظ محمد حفیف جامع مسجد اہل حدیث شہباز خیل ،میانوالی )


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال صورت مسؤلہ میں بدو وجہ طلاق واقع ہو چکی ہے : اول اس لئے کہ طلاق دینے والوں نے  اپنے لڑکے کی روپوشی اور بعد ازاں اس لڑکے سے ملتی جلتی نعش ان کے ہاتھ آگئی تو ان کو ظن غالب بلکہ کافی حدتک یہ یقین ہوگیا کہ لڑکی والوں نے روپوشی کے دعویٰ کو زد سے بچنے کے لئے اور بے گناہی ثاتب کرنے کے لئے ہمارے لڑکے کو قتل کے نعش پھنیک دی ہے اور لڑکی والوں پر قتل کا دعویٰ دائر کر دیا ،اس لئے انہوں نے کم از کم ظن غالب کی بنا پر ارادتا طلاقیں دے ڈالیں تا کہ قتل کا دعویٰ مضبوط  ہو جائے ۔ اور بعض شرعی امور میں ظن غالب معتبر اور حجت ہوتا ہے جیسے نماز کی ادائیگی کے لئے قبلہ کی صحیح جہت کا پتہ نہ چلے تو آدمی اپنے ظن غالب کی بنیاد کسی بھی جہت میں نماز پڑ ھ سکتاہے اور یہ نماز بعداز علم جہت دہرانے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ اسی نماز میں سجدہ سہو کی بنیاد بھی یہی ظن غالب ہی ہوتا ہے ۔ایسے اور بھی کئی مواقع ہیں ، پس اسی طرح طلاق بھی ظن غالب کے تناظر میں واقع ہو جاتی ہے ۔

ثانی اس لئے کہ طلاق کی دو قسمیں ہیں :اول تنجیر ،ثانی تعلیق ، تنجیر نہ معلق ہوتی ہے اور نہ مستقبل کیطرف مضاف ہوتی ہے بلکہ طلاق دینے والے کامقصد وقوع الطلاق فی الحال ہوتا ہے ۔جیسے شوہر اپنی بیوی کو کہے انت طالق ، تو یہ طلاق اسی وقت شرعا واقع ہو جاتی ہے ۔

رہی طلاق تعلیق اور یہ وہ طلاق ہے جس کا وقوع کسی شرط کےساتھ معلق اورمشروط ہوتاہے ۔ جیسے شوہر  اپنی بیوی کو یو ں کہے ان ذھبت الی مکان کذا فانت طالق ۔ اور معلق طلاق کے وقوع کی تیں شرطیں ہیں ۔

1: کسی امر معدوم کے ساتھ مشروط ہو ۔

 2: صدور طلاق کے وقت بیوی طلاق کامحل ہو ، یعنی وہ اس کی عصمت میں ہو۔

3:شرط کےوقوع کے وقت بھی طلاق کامحل ہو ۔

پھر طلاق  معلق کی دو قسمیں ہیں: ایک وہ جس  سے وہی کچھ مقصود اورمطلب ہوتاہے۔ جو مقصد قسم کے ساتھ حاصل ہوتاہے ،یعنی قسم کے ساتھ یا تو کسی  کام پر اکسانا اور آمادہ کرنا ہوتا ہے یاکسی فعل سےباز رکھنا ہوتا ہے یاکسی خبر کی تاکید مراد ہوتی ہے ۔ ایسی طلاق کو التعلیق القسمی کہا جاتا ہے ۔مثل  أن یقول الزوج زوجته أن خرجت فأنت طالق مگر ارادہ طلاق نہ ہو بلکہ خروج سےمنع کرنا  مقصد ہو ۔اور دو سری قسم وہ ہے کہ جس میں حصول شرط پر ایقاع طلاق مقصود ہوتاہے ۔ اس  قسم کو التعلیق الشرطی کہتےہیں ۔ جیسے کوئی شوہر اپنی بیوی سے یوں کہے کہ اگر تو نےمجھے اپنا بقایا مہر معاف نہ کیا تو تجھ کو طلاق ۔

میرے نافص فہم اور علم کےمطابق صورت مسؤلہ والی طلاق التعلیق القسمی ہے ۔ اور طلاق کی یہ دونوں قسمیں جمہور علماء کے نزدیک  واقع ہو جاتی ہیں ۔

چنانچہ مشہور محقق الشیخ محمد سابق مصری رحمہ اللہ ارقام فرماتےہیں :

وھذا  التعلیق بنوعیه واقع عند جمھور العماء. (1)فقه السنة ج 2 ص 222،223

امام ابن حزم ارقام فرماتے ہیں کہ معلق طلاق واقع ہی نہیں ہوتی ۔شیخین کے نزدیک التعلیق القسمی توواقع نہیں ہوتی بلکہ اس میں کفارہ یمین واجب ،البتہ التعلق الشرطی  ان کے نزدیک  بھی ہوجاتی ہے ۔.(2)فقہ السنۃ ج 2 ص223.

چونکہ تفتیشی افسر نے یہ سمجھا کہ بعض لوگ مطلب بر آری کے لئے جھوٹی قسم کھا لیتے ہیں۔ بعد میں تو بہ اورکفارہ وغیرہ ادا کر دیتے ہیں ۔ لہذا واقعہ کی اصل حقیقت اور مدعی پارٹی  کے موقف کی بختگی جانچنے کے لئے قسم بر طلاق کو تر جیح دی کہ عام لوگوں  کےلئے جھوٹی قسم کے مقابلہ میں طلاق دینا اور اپنا گھر اجارنا مشکل ہوتا ہے ۔لہذا انہوں نے اپنے ظن غالب کی بنیاد پر التعلیق القسمی طلاق دے  والی  کہ اگر لڑکی والوں نے ہمارا لڑکا قتل نہ کیا ہو تو ہماری بیویوں  کو طلاق ۔ بعد  میں اس افسر نے ان کا  زندہ بر آمد کر کے ان پیش کر دیا  اور کہا کیا یہ تمہارا لڑکا نہیں ، تو انہوں نے کہا کہ وہاں یہ ہمارا لڑکا ہے ۔ لہذا شرط پائی گئی اور جمہور علماء کے نزدیک طلاق   واقع ہو چکی ۔ مگر امام ابن قیم اور امام ابن حزم کے نزدیک طلاقیں واقع نہیں ہوئیں ۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص830

محدث فتویٰ

تبصرے