سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(330) ايک طلاق کے بعد رجوع کرنا

  • 14430
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2266

سوال

(330) ايک طلاق کے بعد رجوع کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے اپنی زوجہ مسمات پروین اختر دختر فضل کریم ساکن کو رنگی نمبر 5 ،کراچی کو 6جون 1974ء کو طلاق دی تھی ، اب میں چاہتا ہوں کہ دوبارہ اپنی مذکورہ بیوی سے رجوع کر لوں ۔قرآن وحدیث کی روشنی میں کیا ایسا کرنا جائز ہے ؟

(سائل  ریاض احمد ولد عبد الحکیم مکان نمبر 12 برنی روڈ نمبر 29 گڑھی شاہو لاہور ) 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال مجلس واحد کی تین طلاقین ایک رجعی طلاق واقع ہوتی ہیں اور رجعی طلاق کی عدت (تین حیض ) کے اندر طلاق دہند ہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مطلقہ بیوی کو دوبارہ آپاد کرلے اور اگر عدت ختم ہوگئی تو پھر و ہ نیا نکاح کرنے کامجاز ہے ۔ اب دلائل پیش کئے جاتے ہیں ۔

﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ ... ١﴾...الطلاق

’’اے نبی ! جب تم عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت میں طلاق دیا کرو۔،،

اب قرآنی الفاظ کا حاصل مطلب یہ ہے کہ طلاق دہندہ باقاعدہ ہر طہر میں بلاجماع وزن شوئی ایک ایک طلاق دےاو ایک مجلس  میں ایک لفظ سے یا تین لفظوں کے ساتھ اکٹھی تین طلاقیں دینا منع اور حرام ہے ۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے :

﴿الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ...٢٢٩﴾...البقرۃ

’’(رجعی )طلاقیں دو ہیں پھر یا تو دستو ر کے موافق روک ہے یا بھلائی کے ساتھ رخصت ۔،،

کہ یکے بعد دیگر ے الگ الگ طہر (جب عورت کو خون نہ آتاہو ) میں ایک  ایک کر کے طلاق دینی چاہیے : پھر ان تین طلاقوں میں یاتو دستور کے مطابق بیوی سے رجوع کرکے اسےآباد کرلے یا پھر بھلے طریق سے آزاد کردے۔

عَن بن عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً ()صحیح مسلم شریف :ج2 ص 477 کتاب الطلاق .سنن أبي داود (2/ 259)

کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک سے لے کر ابو بکر ﷜ کے عہد سمیت حضرت عمر فاروق ﷜ کے اقتدار کے ابتدائی دوسالوں تک مجلس واحد کی تین طلاقیں ایک رجعی طلاق شمار ہوتی تھی۔

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَبْدِ يَزِيدَ: طَلِّقْهَا فَفَعَلَ، قَالَ رَاجِعِ  امْرَأَتَكَ أُمَّ رُكَانَةَ وَإِخْوَتِهِ ققَالَ: إِنِّي طَلَّقْتُهَا ثَلَاثًا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «قَدْ عَلِمْتُ رَاجِعْهَا» وَتَلَا: {يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ}(1)ابو داؤد ص 299 باب نسخ المراجعة بعد التطلیقات)

کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےابو رکانہ صحاب کو اپنی مطلقہ بیوی ام رکانہ سے رجوع کرنے کاحکم دیاتو اسنے کہا کہ حضرت  میں  تو اسے تین طلاقیں  دے چکا ہوں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے علم ہے ، تم رجوع کرلو۔

ازاں بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ بالا آیت تلاوت فرمائی۔

عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لُبَيْدٍ قَالَ: «أُخْبِرَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثَ تَطْلِيقَاتٍ جَمِيعًا فَقَامَ غَضْبَانَ ثُمَّ قَالَ: أَيُلْعَبُ بِكِتَابِ اللَّهِ وَأَنَا بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ، حَتَّى قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا أَقْتُلُهُ. .( نسائی شریف ص 8 ج 2 ورواته موثقون بلوغ المرام ص 97وقال ابن کثیر اسنادہ جید)

کہ جناب محمود بن لبید کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ایسے آدمی کی اطلاع دی گئی کہ جس نےاکٹھی تین طلاقیں دے دی تھیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےناراض ہوکر فرمایا کہ کیا میری موجودگی میں کتاب اللہ سے کھیلنا شروع کر دیا گیا ہے ۔تب ایک آدمی نے اسے قتل کرنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت بھی مانگی ۔

اقوال صحابہ کرام ﷢

قال الحافظ ابن حجر وھو منقول عن علی وابن مسعود وعبد الرحمٰن بن عوف ولزبیر. .( عو ن المعبود شرح ابی داؤد ص 228ج2.)

کہ حضرت علی ، عبد الرحمٰن بن عوف اور حضرت زبیر ﷢ کا یہی مذہب ہے۔

فقہائے امت کا فیصلہ

علامہ ابن مغیث نےمشائح قرطبہ ،امام طاؤس اور امام عمر وبن دینار کا یہی مذہب لکھا ہے ۔عون المعبود ج 2 ص 229

مالکی فقہاء کا فتویٰ

القول الثانی أنه إذا طلق ثلاثا تقع واحدۃ رجعیة وھذا ھوالمنقول عن بعض الصحابة وبه قال داؤد الظاہری واتباعه وھواحد القولین لمالک  وبعض اصحاب احمد . (4)حاشیہ شرح وقایه :ص 71 ج2.)

کہ دوسرا قول یہ ہے کہ مجلس واحد کی تین طلاقیں ایک رجعی (قابل مراجعت )طلاق واقع ہوگی ۔بعض صحابہ کرام کا یہی مذہب ہے ، داؤد ظاہری اور ان کے پیروؤں کا یہی فتویٰ ہے ۔

نوٹ:راقم کے نزدیک ایک ہزار صحابہ کرام ﷢ کا یہی مسلک ہے ۔ تفصیل فتاویٰ ثنائیہ والتعلیق المغنی ج 2 ص 47 میں ملاحظہ فرمایئں۔

فقہائے احناف کافتویٰ

قال ابن تیمیه وھو قال محمد بن المقاتل الرازی من ائمۃ الحنفیۃ .

یعنی محمد بن مقاتل رازی حنفی کا یہی مذہب ہے کہ مجلس واحد کی تین طلاقیں ،ایک رجعی طلاق واقع ہوگی ۔(1)فتاوی ثنائیہ:ص 55 ج 2.

اور متاخرین حنفیہ میں سے مفتی کفایت اللہ دہلوی ،سید حفیظ الدین احمد حنفی اور حافظ علی بہادر خاں ایڈیٹر ،ہلال نو ،لکھنو نے بھی مجلس واحد کی تین طلاقوں کو ایک رجعی طلاق قرار دیا ہے ۔(2) فتاوی : ص29 ج 2.

بہر حال ہماری اس تفصیل سے ازروئے قرآن وحدیث یہ واضح ہو گیا ہے کہ مجلس واحد کی تیں طلاقیں ایک رجعی طلاق واقع ہو تی ہے ۔ جس میں خاوند کو( ریاض احمد )اپنی مطلقہ بیوی (مسمات پروین اختر ) سے رجوع کاحق حاصل تھا مگر چونکہ طلاق 6 جو 1947ء  کو  دی گئی ہے یعنی طلاق کو آٹھ ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے ، یعنی عدت رجوع کی بیت چکی ہے ،اس لئے اسے سابقہ نکاح کےتحت رجوع کا حق حاصل نہیں ہے ۔ البتہ جدید نکاح کرنے کا مجاز ہے کیونکہ قرآن مجید میں رجعی طلاق کی عدت گزر جانے کے بعد جدید نکاح  کی بلا حلالہ کے اجازت موجود ہے ۔ چنانچہ ارشاد ہے :

﴿وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ ... ٢٣٢﴾...البقرۃ

کہ جب طلاق دو تم عورتوں کو ،پھر وہ پورا کر چکیں اپنی عدت کو تو اب نہ روکو اس سے کہ وہ نکاح کرلیں اپنے خاوندوں سے جبکہ  راضی ہو جاویں آ پس میں موافق دستور کے ۔

بخار شریف  کتاب التفسیر ص 649 ج 2 اور تفسیر ابن کثیر ص 286 ج 2 میں ہے کہ حضرت معقل ﷜بن یسار نے اپنی ہمشیرہ (جمیلہ یا فاطمہ ) کانکاح ابو البداح سے کردیا تھا ، پھر اس نے طلاق دے دی ۔ جب عدت گزر گئی تو پھر اس نےرجوع کر نا چاہا تو حضرت معقل بن یسار ؓ ازرؤے  غبرت اس جوڑے کے بحال ہونے میں رکاوٹ بن گئے ۔تب اللہ یہ آیت شریفہ نازل فرمائی اور اس ٹوٹے ہوئے جوڑے کو دوبارہ نکاح کرنے کی اجازت دے دی ۔بخاری شریف کے الفاظ یہ ہیں

أَنَّ أُخْتَ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ طَلَّقَهَا زَوْجُهَا فَتَرَكَهَا حَتَّى انْقَضَتْ عِدَّتُهَا، فَخَطَبَهَا، فَأَبَى مَعْقِلٌ» فَنَزَلَتْ: {فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ}(3) بخاری کتاب التفسیر :ص 296ج 2.)

تفسير بيضاوي میں  اس آیت کے ذیل میں ہے :

المخاطب الاولیاء لماروی انھا نزلت في معقل بن يسار حين عضل أخته جميلاء أن ترجع إلى زوجها الأول بالاستئناف) (1)یضاوی : سور ۃ بقرۃ ص152

کہ جب معقل ﷜ نے اپنی مطلقہ ہمشیرہ کو بعد از عدت دوبارہ نکاح کرنے سے روکا تو یہ آیت (مذکورہ بالا )نازل ہوئی ۔ بہرحال حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ ،ابراہیم نخعی ،امام زہری ،امام ضحاک کا ہی مذہب ہےکہ رجعی طلاق کی عدت گزر نے کے بعد نیا نکاح ہو سکتاہے ۔.(2)تفسیر ابن کثیر :ص281،282ج1.

فیصلہ :

چونکہ مجلس واحد کی تین طلاقیں ایک رجعی طلاق وقوت کے مترادف ہیں اور رجعی طلاق کی عدت (تین خون )کے اندر بلا تجدید نکاح خاوند رجوع کرنے کا مجاز ہے ۔مگر حسب تصریح چونکہ طلاق 6جون 1947ء سے واقع ہو چکی اور سابقہ نکاح کے تحت اب عدت گزر جانے کی وجہ سے رجوع نہیں ہوسکتا ، اسلئے ریاض احمد اپنی  مطلقہ بیوی پروین اختر کے ساتھ بلا حلالہ نکاح کرنے کا مجاز ہے اور یہ نکاح از رؤے شریعت بیضا بالکل جائز اور درست ہوگا۔دلائل تفصیل سے ذکر کر دئیے گئے ہیں ،تاہم مفتی کا یہ جواب صحت سوال ہے اور وہ قانونی سقم کا ذمہ دار نہیں 

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص811

محدث فتویٰ

تبصرے