سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(326) وقوع طلاق کے لیے نیت اور لفظ طلاق کا ہونا ضروری ہے

  • 14426
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1850

سوال

(326) وقوع طلاق کے لیے نیت اور لفظ طلاق کا ہونا ضروری ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں یہ کہ مسمی محمد صادق ولد فقیر محمد قوم چنگڑ ساکن وارڈ نمبر 8 شاہ کوٹ تحصیل جڑانوالہ ضلع آباد کا ہوں یہ کہ مجھے ایک شرعی مسئلہ دریافت کرنا مقصود ہے جو ذیل میں عرض ہے ۔

یہ کہ میری بیٹی مسمات زہراں بی بی کا نکاح ہمراہ محمد عارف ولد جان محمد قوم چنگڑ محلہ سلطان آباد شاہ روڑ گجرات سے عرصہ تقریبا 3 سال  2 ماہ قبل کر دیا تھا جب کہ مسمات مذکورہ اپنے خاوند کا ہاں ایک ماہ وقفہ وقفہ سے آباد رہی ۔ اس  دوران مابین فریقین گھریلو اختلافات کی وجہ سے ناچاکی پید اہوگئی او ر خاوند مذکور نے اس گھر یلو تنازعہ کی وجہ  سے تین بار زبانی طلاق طلاق طلاق کہہ دی ہےجس کو عر صہ تقریبا 3 سال  ایک ماہ کا ہو چلا ہے ۔ خاوند مذکور نےآج تک رجوع نہ کیا ہے مسمات اس وقت سے اپنے باپ کے پاس رہ رہی ہے ، اب علمائے دین سے سوال ہے کہ آیا شرعا  خاوند مذکور کی طرف سے تین بار زبانی کلامی طلاق واقع ہو چکی ہے یا نہیں ؟ مجھے مدلل شرعا جواب  دے کر عند اللہ ماجور ہوں ، کذب بیانی ہو گی تو سائل خود ذمہ دار ہو گا۔ لہذا مجھے شرعی فتویٰ صادر فرمائیں ۔(سائل محمد صادق حقیقی باپ مسماۃ مذکورہ ) 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال وبشرط صدق گواہان مذکورہ بالا صورت مسؤلہ میں طلاق موثر ہو کر نکاح ٹوٹ چکا ہے کیونکہ طلاق خواہ زبانی کلامی ہو یا تحریرہو جب شریعت کے مطابق دی جائے تو واقع ہو جاتی ہے ۔ جیسا کہ حسب ذیل احادیث صحیحہ سے ثابت ہوتاہے ۔

(1)عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي مَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا، مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَتَكَلَّمْ . (1)صحیح البخاری ج 2 ص 794 باب الاغلاف فی الطلاق والکر ہ ولنسیان

(2)  عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي مَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا، مَا لَمْ  یتکلموا  او یعملوا بہ.(2) باب ما تجاوز اللہ عن حدیث النفس ج1 ص 78۔ صحیح مسلم ج1 ص 78

 ان دونوں احادیث صحیحہ کا تر جمہ یہ ہے کہ  اللہ نے میری امت کے قلبی خیالات اور وسوسوں کو معاف کر رکھا ہے جب تک  وہ اپنے ارادوں اور وسو سوں کو زبان سے بول کر ادا نہ کرے یا ان پر عمل در آمد نہ کرے ۔

یہ دونوں احادیث صحیحہ مرفوعہ متصلہ ، غیر معلل ولا شاذ اپنے مضمون میں بڑی  واضح ہیں اور وہ اس مسئلہ کی کھلی دلیل ہیں کہ زبانی طلاق بلاشبہ شرعا واقع ہو جاتی ہے : جیسا کہ پہلی حدیث کا آخری جملہ  او تتکلم اور دوسری حدیث کا پہلا جملہ مالم یتکلموا اس حقیقت پر د لالت کر رہا ہے ۔

3۔ امام تر مذی اس حدیث پر یہ تصریح فرماتے ہیں :

" وَالعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ العِلْمِ: أَنَّ الرَّجُلَ إِذَا حَدَّثَ نَفْسَهُ بِالطَّلَاقِ لَمْ يَكُنْ شَيْءٌ حَتَّى يَتَكَلَّمَ بِهِ۔(3) تحفة الاحوذی شرح تر مذی : ج 2 ص 215.

 کہ اہل علم سلف صالحین کا اسی حدیث پر عمل ہے کہ جب تک شوہر کا لفظ طلاق اپنی زبان سےبول کر اد ا نہ کرے گا توطلاق واقع نہ ہوگی مگر جب بول کر لفظ طلاق ادا رکرے گا تو طلاق واقع ہو جائے گی ۔

4۔امام ابن رشد قرطبی لکھتے ہیں :

أجمع المسلمو ن علی أن الطلاق یقع إذا کان بنیه ولفظ صریح فمن إشترط فیه النیة والفظ الصریح فاتباعا لظاھر الشرع فالمشهور عن مالک أن  الطلاق لا یقع إلا بلفظ ونیة . (1)بدایة المجتھد :ج2 ص 55،56

تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ نیت کے ساتھ جب لفظ طلاق بولا جائے گا تو طلاق پڑ جائے گی اور جن اہل علم نے طلاق میں نیت اور لفظ صریح (الطلاق ) کی شرط عائد فرمائی ہے انہوں نے ظاہر شرع کی اتباع کی ہے ۔

5۔امام ابن قدامہ فرماتےہیں:

وجملة ذلک أن الطلاق لا یقع الا بلفظ فلو نواہ بقلبهمن غیر لفظ لم یقع فی قول عامةأھل العلم منھم عطاء وجابر ن زید وسعید بن جبیر ویحییٰ بن ابی کثیر امام شافعی ،امام اسحاق ،امام قاسم ،امام سالم ،امام حسن بصری ،امام عامر شعبی .(2) معنی لابن ابی قدامه:ج 7 ص 294

کہ طلا ق زبان سے بول دینے پر واقع ہوجاتی ہے ۔ بصری دل کی نیت سے واقع نہیں ہوتی ۔امام عطاء جابر بن  زید ،یحییٰ بن ابی کثیر ، سعید بن جبیر تابعی امام شافعی ، امام اسحاق ،امام قاسم ،امام سالم ،حسن بصری او شعبی جیسے فقہاء اور عام اہل علم کا یہی مذہب اور فتوی ہے ۔(3)فتاویٰ نذیریہ :ج 3 ص73

6۔شیخ الکل فی الکل السید نذیر حسین المحدث الدہلوی اور عبد الحق محدث ملتانی کابھی یہی فتوی اور مذہب ۔

7۔السید محمد سابق مصری ارقام فرماتے ہیں 7

یقع الطلاق بکل مایدل علی انھاء العلاقةالزوجةسواء کان ذلک  بلفظ ام بالکتابةالی الزوجةاو باشارة اخرس او بارسال رسول ۔.(4) فقةالسنة:ج 2 ص 216

طلاق ہر اس قول وفعل سےواقع ہو جاتی ہے جو میاں بیوی کے باہمی ازدواجی تعلق کے انقطاع پر دلالت کرتا ہے ۔خواہ لفظ طلاق ہو یا بیوی کے نام طلاق کی تحریر ہو یا طلاق کی مجلس میں گونگے انسان کا اشارہ ہو یا قاصد کے ذریعہ بیوی کوطلاق کی اطلاع دی گئی ہو توان چاروں صورتوں میں بلاشبہ طلاق پڑ جاتی ہے ۔

8۔خلاصہ محمد شفیع حنفی دیو بند ی بھی زبانی کلام طلاق کے وقوع  کے قائل ہیں۔فتاوی ٰ دار العلو م دیوبند ج 2 ص 658۔

خلاصہ بحث یہ کہ  صورت مسؤلہ میں بشرط صحت سوال مذکورہ احادیث صحیحہ او ر جمہور علمائے امت کی تصریحات او تد قیقات کےمطابق طلاق واقع ہو کر موثر ہو چکی اور نکاح ٹوٹ چکا ہے ۔ کیو نکہ اس طلاق پر عرصہ تین سال کا بیت چکا ہے ۔

لہذا آپ  کی بیٹی اپنے شوہر  کے حبالہ عقد سے آزاد ہو چکی ہے ۔ مفتی کسی قانونی سقم اور عدالتی جھمیلہ کا ہر گز ذمہ دار نہ ہوگا۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص801

محدث فتویٰ

تبصرے