سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(322) زبانی تین طلاقوں کا حکم

  • 14422
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1670

سوال

(322) زبانی تین طلاقوں کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتےہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ مسمی غلام محمد ولد مہر دین قوم میو موضع ہفت مدر تحصیل ننکانہ ضلع شیخوپورہ کا رہائشی ہوں یہ کہ مجھے ایک شرعی مسئلہ  دریافت کرنا مقصود ہے ۔جو ذیل میں عرض کرتا ہوں میری دختر مسمات مختار بی بی کا نکاح ہمراہ مسمی محمد اسلم ولد ہمر دین قوم میو موضع نیا پنڈ تحصیل شیخوپورہ سےہوا ۔عرصہ قریب ایک سال نو ماہ ہوئے کر دیا تھا۔ مسمات مختار بی بی اپنے خاوند کےہاں ایک ماہ رہ کرحق زوجیت ادا کرتی ہی ۔ دوران آبادگی مابین قریقین ناچاقی پیدا ہوگئی کیونکہ مذکورہ  آوارہ قسم کا آدمی تھا۔دوران آبادگی مذکور ماتا پٹبتا رہتا اور لڑائی جھگڑا کرتا ۔مختار بی بی کو ذو وکوب کرکے اپنے والدین کے گھر چھوڑ آتا ۔اس کے بعد مسمی محمد اسلم نےایک سال سات ماہ قبل روبر گواہان ذیل کے زبانی کلامی تین بار طلا ق ،طلاق، طلاق  کہہ کر حق زوجیت سے علیحدہ کر دیا اور کوشش مصالحت کےباوجود رجوع نہیں کیا ۔ اب علمائے دین سے سوال ہے کہ آیا تین بار زبانی کلامی طلاق کہنےسے طلاق ہوجاتی ہے یا کہ نہیں ،ہمیں قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دے کر عند اللہ ماجور فرمائیں  ۔کذب بیانی کا سائل خود ذمہ دار ہو گا۔

تصدیق :ہم اس سوال کی حرف بحرف تصدیق کرتے ہیں کہ سوال بالکل صداقت پرمبنی ہے اگر غلط ثابت ہو گا تو ہم اس  کے ذمہ دار ہو ں گے ہمیں شرعی فتویٰ دیا جانا مناسب ہے ۔

(عبدا لحمید ولد عبد المجید قوم راجپوت موضع ہفت مدر تحصیل ننکانہ ضلع شیخوپورہ رانا ولی محمد ولد غلام حیدر قوم راجپوت موضع ہفت مدر تحصیل ننکانہ شیخوپورہ بذریعہ قاضی احسان الحق چک نمبر 240 گ ب جڑانوالہ )


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال وبشرط صحت واقعہ صورت مسؤلہ میں طلاق میں شروع اسلام سے یہی طریقہ متو ارث چلا آرہا ہے جیسا کہ ہر صاحب علم پر یہ حقیقت روشن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا  :امة امیة لا تکتب  ولا نحسب ۔(بخاری ج:1ص 256)شروع اسلام سے جس طرح گواہوں کے روبرو زبانی نکاح متعقد ہوتا چلا آیا ۔اسی طرح گواہوں کی موجودگی میں زبانی طلاق بھی بلاشبہ واقع ہوتی چلی  آرہی ہے ۔ہاں البتہ تحریری طلاق کے وقوع کے بارے میں اختلاف کاگمان ہوتا ہے ۔تا ہم جمہور علمائے امت تحریر ی طلاق کے وقوع کے بھی قائل ہیں اور یہ بھی بلاشبہ واقع ہوجاتی ہے ۔ اب ان دونوں قسم کی طلاقوں کے وقوع کے دلیل ملا حظہ فرمائیے ۔

1۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي مَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا، مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَتَكَلَّمْ» قَالَ قَتَادَةُ: «إِذَا طَلَّقَ فِي نَفْسِهِ فَلَيْسَ بِشَيْءٍ(1)صحیح بخاری شرح فتح الباری با ب الطلاق فی الاغلال والکر ہ والسکران والمجنون ومرھما والعلظ والنسیاد ج9 ص ،340،345

’’ حضرت ابو ہریرہ ﷜ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں  کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالی ٰ نے میری امت کے دل کے خیالات کا محاسبہ معاف کر رکھا ہے جب تک ان پر عمل نہ کرے یا بو ل کر بیان نہ کر ے ۔اس حدیث دو باتیں ظاہر ہوئیں ۔

1۔کہ زبانی طلاق واقع ہو جاتی ہے جوکہ او تتکلم کے جملہ سے صاف ظاہر ہے ۔ چنانچہ امام تر مذی فرماتے ہیں :والعمل علی ھذا عند اھل العلم ان الرجل اذا حدث نفسه بالطلاق لم یکن شیا حتی یتکلم به . (2)تر مذی مع تحفة الاحوذی باب ماجاء فی من یحدث نفسه بطلاق امراته ج9ص 215.

کہ اہل علم کا اسی حدیث پ عمل ہے کہ جب کسی آدمی کے دل میں اپنی بیوی کو طلاق دنیے کا خیا ل پیدا ہوتو جب تک زبان سے طلاق کا لفظ اد ا نہ کرے اس وقت تک طلاق واقع نہیں ہو تی ۔

امام شوکانی ﷫ لکھتے ہیں ۔اور حدیث ابو ہریرۃ:

واورد حدیث ابی  ہریرة للاستدلال به علی من طلق زوجة بقلتبه ولم یلفظ بلسانه لم یکن لذٰلک حکم الطلاق لأن خطرات القلب مغفورة للعباد الخ . (1)نیل الاوطار ج 6 ص طبع ثانی 245

کہ مصنف رحمۃ اللہ علیہ حضرت ابو ہریرہ کی حدیث یہ بتلانے کی لئے لائے ہیں کہ دل ہی دل میں طلاق  دے دینے سے طلاق واقع نہیں ہوتی جب تک زبان سے لفظ طلاق ادا نہ کرے ۔کیو نکہ اللہ تعالی ٰ نے بندوں کے ولی خیالات کو معاف کر رکھا ہے ۔

2۔دوسری یہ بات بھی واضح ہوئی کہ تحریری طلاق بھی شرعا معتبر ہے ، جیساکہ حدیث کے الفاظ مالم تعمل اس پر دلالت کرتے ہیں ۔شیخ الاسلام ابن حجر عسقلانی رقمطراز ہیں :

وإستدل به علی ان من کتب الطلاق طلقت إمرأته لانه عزم بقلبه وعمل بکتابة وھوقول الجمہور وشرط مالک فیه لاشہاد علی ذٰلک . . (2) فتح الباری ج9 ص345

یعنی اس حدیث سے استدلال کیاگیا ہے کہ جو شخص ابنی بیوی کو تحریری طلاق دے  دے تو طلاق واقع ہو جائے گی کیو نکہ اس نے دل سے ارادہ رکیا اور لکھنے کا عمل کیا ۔ جمہور علمائے اسلام کا یہی مذہب ہے ۔ تاہم امام مالک گواہوں کی شہادت کی شرط بھی لگاتے ہیں ۔نیز ملاحظہ ہو(3) تحفۃ الاحوذی ج2 ص 315

2۔فتاویٰ نذیر یہ میں ہے :واضح ہو کہ جب شوہر شریعت کے مطابق اپنی زوجہ کو طلاق دے گا زبانی دے یا تحریری تو طلاق خواہ مخواہ پڑ جاوے چاہے زوجہ اس کو منظور کرےیا نہ کرے ۔. (4) فتاوی نذیریہ ج3 ص 73

3۔مولانا مفتی محمد شقیع دیو بندی کا بھی یہی فتو یٰ ہےکہ زبانی طلاق ہو جاتی ہے ۔.(فتاوی دارالعلوم دیوبند ج2ص658

صورت مسؤلہ میں مندرجہ بالا حدیث صحیح ۔سلف صالحین اور علمائے فتاوٰی کی مذکورہ بالا تصریحات مسمات مختار بی بی  بنت غلام محمد ولد مہر دین میو ساکن مدر ضلع شیخو پورہ کو طلاق ہو چکی ہے اور چونکہ سوال کی خط کشیدہ تصریح کےمطابق مسمی محمد اسلم نےیہ طلاق آج سے ایک سال اور سات ماہ یعنی انیس ماہ قبل دی تھی ،لہذا عدت گزر چکی اور  نکاح  ٹوٹ چکا ہے ۔اس لئے مسمات مذکورہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی شرعا مجاز ہے ۔ مفتی کسی قانونی  سقم کا ہر گز ذمہ دار نہ ہوگا ۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص792

محدث فتویٰ

تبصرے