سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(319) یکجائی تین طلاق کا حکم شریعت کی روشنی میں

  • 14419
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 3904

سوال

(319) یکجائی تین طلاق کا حکم شریعت کی روشنی میں

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین درج ذیل مسئلہ میں کہ میرے بھائی محمد الیاس نے گھر یلو ناچاقی اور اختلافات سے تنگ آکر اپنی بیوی مسمات زیب النساء کومورخہ 94۔11۔5 کو اکٹھی تین طلاقیں دے دی تھیں ۔اب وہ اس اپنی مطلقہ بیوی سے رجوع کرنا چاہتا ہے کیا قرآن وحدیث کی روشنی کےمطابق وا پنا گھر آباد کر سکت ہے یا نہیں ؟ شرعی فتویٰ صادر فرمائیں۔

نوٹ: میں حلفیہ بیان دیتا ہوں کہ میرے بھائی نے اس سے پہلے اپنی اس بیوی کو کوئی طلاق نہیں دی ۔

(سائل :محمد جاوید ولد محمد الطاف نیو شالامار ٹاؤن مکان نمبر 78 گلی نمبر 2رحمٰن پارک لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرک صحت سوال صورت مسؤلہ میں صرف ایک رجعی طلاق واقع ہوئی ہے ، قرآن وحدیث کی نصوص صریحہ، ماہرین شریعت اور محققین علمائے امت کی تصریحات کے مطابق اکٹھی تین طلاقیں شرعا ایک رجعی طلاق واقع ہوتی ہے ۔جیساکہ قرآن مجید میں ہے

﴿الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ...٢٢٩﴾...البقرة

کہ رجعی طلاق دومرتبہ ہے ،پھر یا تو اچھے طریقہ کے ساتھ بیوی کو آباد کھنا ہے یا پھر بھلے طریہ کے ساتھ اسے چھو ڑ دینا ہے ۔اس آیت شریفہ میں لفظ مرتان مرہ کا تثنیہ ہے اور مرۃ کامعنی ایک دفعہ اور ایک وقت اور ایک مجلس ہے جیسا کہ قرآن مجید کی سورۃ النور میں ہے :

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ۚ مِّن قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَةِ وَمِن بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ۚ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَّكُمْ...﴿٥٨﴾...النور

اے ایمان والو تمہارے غلام ،لونڈی اور تمہارے نابالغ بچے تین اوقات میں جازت لے کر تمہارے پاس آیا کریں ۔ایک نماز فجر سے پہلے دوسرے جب تم دوپہر کےوقت آرام کے لئے کپڑے اتار رکھتے  ہو اور تیسرے عشاء کی نماز کےبعد یہ تین وقت تمہاری بے پر دگی کےوقت ہیں۔،،

اس آیت شریفہ میں ثلث مرات سے مراد صرف تین وقت ہی ہیں ۔تین کا عدد ہرگز نہیں ۔ اور قاعدہ القرآن  یفسر بعضہ بعضا کے مطابق  الطلاق مرتان کامعنی بھی لا محالہ طلاق دو دفعہ ہی ہے ،دو طلاقیں ہر گز نہیں ۔ورنہ قرآن کی عبارت الطلاق  طلقتان ہوتی  جب کہ ایسا ہر گز نہیں۔ بس قرآن سے ثابت ہوا کہ یکجائی تین طلاقیں ایک رجعی طلاق ہوتی ہے ۔اب احادیث صحیحہ مرفوعہ متصلہ غیر معللہ ولا شاذ  ملاحظہ فرمائیے۔

3۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " كَانَ الطَّلاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلافَةِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، طَلاقُ الثَّلاثِ: وَاحِدَةً. (1)مسلم کتاب الطلاق ج1ص 477

’’حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق ﷜ کے عہد سے لے کر حضرت عمر کی خلافت کے ابتدائی دو برسوں تک اکٹھی تین طلاقیں ایک رجعی شمار ہوتی تھی۔،، اس صحیح حدیث کےبعد ایک سچا واقعہ بھی پڑ ھئے۔

4۔ عن ابن عباس، قال: طلق ركانة بن عبد يزيد - امرأته ثلاثاً في مجلس واحد، فحزن حزناً شديداً، قال: فسأله رسول الله صلى الله عليه وسلم: "كيف طلقتها؟ " قال: طلقتها ثلاثاً، فقال: "في مجلس واحد؟ " قال: نعم، قال: "فإنما تلك واحدة، فأرجعها إن شئت"، قال: فراجعها،(2) اخرجه احمد وابو یعلی وصححه ۔فتح الباری شرح صحیح البخاری ج9 ص 216 ونیل الاوطار ج6ص 361

کہ حضرت رکانہ  ﷜ اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے کر بڑے غمگین ہوئے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دریافت فرمانے پر عرض کیا کہ حضرت !اکٹھی تین طلاقیں دے بیٹھا ہوں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :یہ تو ایک رجعی طلاق واقع ہوئی ہے آپ رجو ع رکر سکتے ہیں ۔ تو انہوں نے اپنی مطلقہ بیوی سے رجوع کر لیا (1)التعلیق المغنی :ج4ص47

5۔ہزار سے زائد صحابہ کا مذہب اور فتویٰ ہے کہ اکٹھی تین طلاقیں ایک رجعی طلاق پڑ تی ہے ۔.(2)مقالات علمیہ :ص247

6۔حنفیہ میں سے امام محمد بن مقاتل الرازی (شاگر د امام ابو حنیفہ )،مفتی ظفیرالدین مفتی دارلعلوم دیوبند ،علامہ سعید احمد اکبر آبادی حنفی، علامہ عروج قادری حنفی اور مشہور بریلوی عالم پیر کرم شاہ بھیروی کی رائے بھی یہی ہےکہ اکٹھی تین طلاقیں ایک رجعی طلاق واقع ہوتی ہے(4)

7۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ،امام بن قیم شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی اور شیخ الاسلام ثناء اللہ امر تسری کابھی یہی فتوی   اور اسی طر ح مفتی اعظم سعودی عر ب الشیخ عبد العریز بن باز کا بھی یہی فتویٰ ہے ۔ان مذکورہ بالاآیات ،احادیث صحیحہ اور محققین علمائے امت اور ماہرین شریعت کی تصریحات سامیہ کے مطابق صورت مسؤلہ میں ایک رجعی طلاق واقع ہو ئی ہے ۔ بشرطیکہ طلاق دہندہ کی یہ پہلی ہی طلاق ہو۔چونکہ یہ طلاق مورخہ 94۔11۔5 کو دی گئی ہے ، جیسا کہ سوال نامہ کے خط کشیدہ تصریح سے واضح ہے ،لہذا طلاق موثر ہو کر نکاح سابق ٹوٹ چکا ے اور مسماۃ ریب النساء اپنے شوہر محمد الیاس ولد عبد العزیر کے حبالہ عقد سے آزاد ہو چکی ہے ،لہذا اب رجوع شرعا ممکن نہیں،ہاں چونکہ یہ طلاق رجعی اور پہلی ہے ، اس لئے اب شرعا جدید نکاح بلا حلالہ کے جائز ہے ۔جیساکہ قرآن مجید میں ہے

﴿وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ... ٢٣٢﴾...البقرة

کہ جب تم اپنی بیوی کو طلاق دے دو اور وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں توان کو اپنے خاوندوں کے ساتھ دوباہ نکاح کرلینے سے مت روکو جب  وہ آپس میں شریعت کے مطابق راضی ہوجائیں ۔

یہ آیت شریفہ ا س وقت نازل ہوئی جب حضرت معقل بن یسار نےاپنی ہمشیرہ  کو اپنے خاوند سے دوبارہ نکاح کرنے سے روک دیا تھا۔(5)

پس صورت مسؤلہ میں نکاح ثانی کی گنجائش اور اجازت ہے ۔حلالہ جیسے لعنتی  فعل کی ہرگز ضرورت نہیں ۔یہ جواب بشرط صحت سوال تحریر کیا گیا ہے ۔مفتی کسی عدالتی کاروائی کا ہرگز ذمہ دار نہ ہوگا ۔ھذا ماعندی واللہ تعالی اعلم بالصواب

 (1)التعلیق المغنی :ج4ص47.(2)مقالات علمیہ :ص247(3)صحیح بخاری: کتاب الطلاق وکتاب التفسیر.

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص786

محدث فتویٰ

تبصرے