سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(305) خاوند کا اپنی بیوی کا پستان چوسنا اور اس کا شرعی حکم

  • 14405
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 14495

سوال

(305) خاوند کا اپنی بیوی کا پستان چوسنا اور اس کا شرعی حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرا خاوند میری چھاتی  منہ میں   عرصہ دو سال ڈالتا رہا جب اس کو اس غلطی کا احساس  ہوا تو وہ مولانا سید احمد شاہ  صاحب (مرحوم ) گجرات والے کے پاس گیا اوران سے مسئلہ دریافت کیا تو انہوں  نے یہ لکھ کر دیا۔صورت مذکورہ میں بیان ہے کہ اگر کوئی  مرد اپنی عورت کی چھاتی منہ میں ڈالے  تو فعل مکروہ ہے اس سے نکاح میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

لیکن ان کے اس فیصلے  پر  میں نے دل سے یقین نہ کیا اور اپنے خاوند کے پاس  جاتی رہی لیکن دس سال  گزرنے کے بعد پھر میں نے  اپنے  خاوند سے یہ کہنا شروع کر دیا  کہ ہمارا نکاح  ٹھیک نہیں ہے  لیکن میرا خاوند  مجھے بار ہا کہتا رہا کہ ہمارا نکاح ٹھیک ہے  لیکن زیادہ  مجبور کرنے پر  ایک دن غصہ میں آکر  مجھے سمجھانے کے لئے  اس نے یہ کہہ دیا   کہ  میں تو تیر ی چھاتی  دودھ چوسنے کےلئے تو منہ میں نہیں ڈالتا تھا  لیکن تیر ے کہنے پر  منہ میں ڈالتا تھا ،یہ الفاظ میرے خاوند کو  کہے ہوئے  دو ماہ  ہوگئے ہیں ۔(براہ مہربانی ) آپ یہ فرمائیں کہ اس میں میرے خاوند کا کیا جرم ہے  اور میرا جرم کیا ہے ؟ہمارا نکاح ٹھیک ہے یا غلط ہو گیا ہے(سائلہ :صفیہ بیگم  گجرات)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مسئولہ میں مفتی سید  احمد شاہ  مرحوم کا  جواب بالکل درست اور صحیح ہے  یعنی مذکورہ  فعل کی وجہ سے نکاح پر کوئی اثر  نہیں  چنانچہ امام نووی نے صحیح مسلم  کی شرح کتاب الرضاعةمیں وضاحت کی ہے کہ اگر شوہر اپنی بیوی کے ساتھ   اختلاط کے وقت اپنی  بیوی کاپستان منہ میں ڈال  کر چوس لے اور دودھ کاقطرہ  منہ میں چلا جائے تب بھی نکاح نہیں ٹوٹتا گویا فعل مکروہ   ہے تاہم نکاح بالکل صحیح اور قائم رہتاہے دوسری یہ بات ذہن میں رہے  رضاعت اس وقت ثابت ہوتی ہے  جب دودھ یا پستان چوسنے والے کی عمر دو سال  سے زیادہ نہ ہو اور اس کی غذا  صر ف دودھ ہی ہو اور یہ جمہور علمائے امت کے ہاں  اتفاقی اور اجماعی ہے  جیساکہ موطا امام محمد میں ہے :

(أخبرنا مالك   أخبرنا نافع أن عبد الله بن عمر كان يقول  لا رضاعة إلا لمن أرضع فى الصغر) (۱: باب الرضاع ص ۲۷۰،۲۷۴)

”حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ  نے فرمایا کہ رضاعت نہیں ثابت ہوتی مگر اس صورت میں جب کسی بچے کو اس کے بچپنے  میں دودھ پلایا جائے “

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اگر کسی  بالغ مرد کی کوئی عورت دودھ پلادے  تو وہ مرد اس کا دودھ کا بیٹا نہیں بن سکتا ،اس لئے آپ کا یہ خیال قطعاً غلط ہےکہ اس طرح آپ کا شوہر  آپ کا بیٹا بن چکاہے ۔یہ سراسر شیطانی وسوسہ ہے اس کو پرے جھٹک دیں ۔آپ کا نکاح بہر حال درست اور قائم ہے  شیطان کے پیچھے لگ کر گھر کا  سکون تباہ نہ کریں تاہم  آئندہ  اپنے  شوہر کو محتاط رکھنے کی کوشش کریں 

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص744

محدث فتویٰ

تبصرے