السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
خدمت اقدس میں گزارش ہے کہ ہماری والد ہ محترمہ نے ستر سال کی عمر میں میری بھتیجی شمیم اختر دختر شمس دین کو چپ کرانے کے لئےدودھ پلایا ہے جب کہ اس وقت ہماری والدہ دو سال سے بیوہ تھیں بچی رو رہی تھی اس کو چپ کرانے کے لئے ہماری والدہ کی چھاتی اس کے منہ میں ڈال دی ،اب ہم دونوں بھائی اپنی اولاد کا آپس میں رشتہ کرنا چاہتے ہیں یعنی میں اپنے لڑکے حافظ ادریس کا نکاح شمیم اختر سے پڑھا سکتا ہوں یا نہیں ؟ کیا اس عمل سے یہ لڑکی اس کی رضاعی پھوپھی تو نہیں بن گئی؟
حضور والا سے التماس ہے کہ آپ قرآن و حدیث اور فقہ کی روشنی میں شرعی فتویٰ صادر فرمائیں ۔(سائل : نظام دین ولد رسول شاہ ساکن گلی نمبر ۳۵ کوارٹر نمبر ۳۲ داتا نگر بادامی باغ لاہور)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرط صحت سوال واضح ہو کہ یہ سوال اپنے مفہوم اور مضمون میں واضح نہیں یعنی اس میں یہ نہیں بتلایا گیا کہ شمیم اختر دختر شمس الدین نے اپنی ستر سالہ دادی کا دودھ کتنے وقفوںمیں پیا ہے ۔لہٰذا اب اس سوال کا جواب دو صورتیں فرض تسلیم کر کے علیحدہ علیحدہ لکھا جاتا ہے ۔
۱: لہٰذا اگر اس بچی نے اپنی دادی کا دودھ تین یا چار وقفوں پیا ہے تو یہ بچی حافظ ادریس کی رضاعی پھوپھی شرعاً نہیں بن سکتی ،لہٰذا ان دونوں کا آپس میں شرعاً نکاح جائز ہے کہ شرعاًجب تک پانچ سانسوں دودھ نہ پیا جائے اس وقت تک رضاعت ثابت نہیں ہوتی چنانچہ حدیث میں مروی ہے ۔
(عن عائشة قالت أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لا تحرم المصة والمصتان) (۱: رواہ الجماعة الا البخاری (نیل الاوطار کتاب الرضاع باب عندالرضعات ج۶ ص ۳۴۷)
”حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
ایک دفعہ دودھ چوسنے اور دو دفعہ چوسنے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی ۔یعنی ایک دفعہ پستان منہ میں ڈالنے یا دو دفعہ پستان منہ میں ڈال کر دودھ پینے سے رضاعت کا حکم ثابت نہیں ہوتا ۔
(وَعَنْ أُمِّ الْفَضْلِ: «أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: أَتُحَرِّمُ الْمَصَّةُ؟ فَقَالَ: لَا تُحَرِّمُ الرَّضْعَةُ وَالرَّضْعَتَانِ، وَالْمَصَّةُ وَالْمَصَّتَانِ» وَفِي رِوَايَةٍ قَالَتْ: «دَخَلَ أَعْرَابِيٌّ عَلَى نَبِيِّ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَهُوَ فِي بَيْتِي فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ إنِّي كَانَتْ لِي امْرَأَةٌ فَتَزَوَّجْت عَلَيْهَا أُخْرَى فَزَعَمَتْ امْرَأَتِي الْأُولَى أَنَّهَا أَرْضَعَتْ امْرَأَتِي الْحُدْثَى رَضْعَةً أَوْ رَضْعَتَيْنِ فَقَالَ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: لَا تُحَرِّمُ الْإِمْلَاجَةُ وَلَا الْإِمْلَاجَتَانِ»)(۲: رواہ احمد و مسلم نیل الاوطار ج۶ ص ۲۴۷)
”حضرت ام الفضل رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺسے دریافت کیا کہ کیا ایک دفعہ دودھ چوسنے سے حرمت رضاعت شرعاً ثابت ہو جاتی ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر بچہ ایک دفعہ پستان منہ میں لے کر چوسے یا دو دفعہ چوسے تو اس عمل سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی اور ایک دوسری روایت کے مطابق بچہ کے منہ میں ایک دفعہ یا دو دفعہ پستان دے دینا حرمت رضاعت ثابت نہیں کرتا۔
(عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: " كَانَ فِيمَا أُنْزِلَ مِنَ الْقُرْآنِ: عَشْرُ رَضَعَاتٍ مَعْلُومَاتٍ يُحَرِّمْنَ، ثُمَّ نُسِخْنَ، بِخَمْسٍ مَعْلُومَاتٍ، فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُنَّ فِيمَا يُقْرَأُ مِنَ الْقُرْآنِ ")(۱: رواہ مسلم و ابو داؤد ،نیل الاوطار ج۶ ص ۳۴۸ و سبل السلام )
” ام امومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ پہلے قرآن مجید میں دس رضعات (دس دفعہ دودھ پینا) سے حرمت رضاعت ثابت ہونے کا حکم نازل ہو تھا پھر یہ حکم منسوخ ہو کر پانچ رضعات سے حرمت رضاعت ثابت ہونے کا حکم نازل ہو ا “
امام بو حنیفہ اور اکثر فقہا کے نزدیک مطلق رضاعت سے حرمت رضاعت ثابت ہوجاتی ہے ،قلیل ہو خواہ کثیر ۔
(قال فى المسوى ذهب الشافعى إلى أنه لا يثبت حكم الرضاع فى أقل من خمس رضعات متفرقات وذهب أكثر الفقهاء منهم مالك و أبو حنيقة إبى أن قليل الرضاع وکثیرہ محرم )(۳: فتاویٰ نزیریه ج۳ ص۱۵۲)
اکثر فقہا ء کا استدلال نصوص مطلقہ سے ہے ۔اور امام شافعی وغیرہ کا استدلال نصوص مقیدہ بخمس رضعات سے ہے ۔ اور مطلق کو مقید پر محمول کرنا فقہائے اسلام ک امسلمہ قاعدہ ہے ۔لہٰذا بناء علیہ امام شافعی ایک بڑی جماعت کا مسلک اور فتوی ٰ راجح ہے۔ امام شوکانی فرماتے ہیں :
(فاالظاهر ما ذهب إليه القائلون بإعتبار الخمس)
یعنی ظاہر انہی فقہاء کا قول ہے ، جو خمس (پانچ)رضعات کے قائل ہیں ۔ان کے نام نامی یہ ہیں ۔حضرت عبداللہ بن مسعود، حضر عائشہ ، حضرت عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہم امام عطاء ،امام طاؤس ، سعید بن جبیر عروہ بن زبیر ،لیث بن سعد جیسے تابعین عظام امام شافعی ، امام احمد بن حنبل ، امام اسحاق بن راہویہ ، امام ابن حزم و جماعۃ من اھل لعلم رحمھم اللہ اور حضر ت علی رضی اللہ عنہ سے بھی یہی مذہب مروی ہے (کذا فی نیل الاوطار ج۶ ص ۳۵۰و ۳۵۱)
فیصلہ :ان مذکورہ بالا احادیث صحیحہ ،مرفوعہ ،متصلہ ، قویہ ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تابعین اور فقہائے کرام امام شافعی ، امام احمد ، امام اسحاق اور عطاء طاؤس اور سعید بن جبیر جیسے تابعین عظام کے مطابق ،حافظ ادریس ولد نظام دین مذکور بالا مسمات شمیم اختر دختر شمس الدین کے ساتھ نکاح کر سکتا ہے ۔ اور یہ نکاح شرعی اور صحیح نکاح ہوگا ، کیونکہ ایک وقت میں دو چار وقفوں سے دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی ۔
۲-اگر بالفرض مذکورہ لڑکی شمیم اختر نے اپنی والدہ کا دودھ پانچ دفعہ پیا یا اس سے زیادہ دفعہ پی چکی ہو تو پھر حرمت رضاعت ثابت ہوچکی اور اس صورت میں نکاح نہیں ہو سکتا کہ وہ حافظ ادریس مذکور کی رضاعی پھو پھی شرعاً بن چکی ہے۔مفتی کسی قانونی سقم کا ہرگز ذمہ دار نہ ہوگا۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب