سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(293) ساس کے ساتھ زنا کرنے پر بیوی حرام نہیں ہوتی

  • 14393
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 7085

سوال

(293) ساس کے ساتھ زنا کرنے پر بیوی حرام نہیں ہوتی

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان  کرام اس مسئلہ کے  بارے میں کہ میرے خاوند نے میری والدہ کے ساتھ زنا کر لیا تو مولوی حضرات نے فتویٰ دیا کہ تمہارا نکاح ٹوٹ گیا ہے تو اپنے خاوند پر حرام ہوگئی ہے ،اس کے بعد میرے خاوند نے مجھے زبانی اور تحریری طلاق دے دی ،طلاق کے تین ماہ بعد میں نے ایک دوسرے آدمی سے نکاح  کر لیا۔عرصہ ۴/۲سال گزرنے کے بعد اس نے بھی مجھے طلاق دے دی ۔اس کے نطفہ سے  ایک بچہ  ہے جس کی عمر ۴/۲سال ہے وہ بھی میرے پاس ہے ۔طلاق دی کو ۴/۱ ماہ کا عرصہ ہوگیا ہے ۔اب میں اپنے پہلے خاوند کی طرف جانا چاہتی ہوں یعنی پہلے خاوند سے نکاح کرنا چاہتی ہوںمیرے لئے شریعت میں کیا حکم ہے ؟فتویٰ دے کر ثواب دارین حاصل فرمائیں ۔(سائلہ فاطمہ بیگم گرین ٹاؤن لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مسئولہ  میں بشرط صحت  سوال  قرآن مجید میں  حُرِِمَت عَلَیکُم اُمھٰتُکم وبَنَاتِ کُم سے لے کر وَالمُحصَناتُ مِن النساءِ اِلا ماَ مَلکت ایمانُکم تک پندرہ رشتے  حرام کئے گئے ہیں بیوی کی والدہ ،یعنی اپنی ساس  سے بدکاری  کرنے کی صورت میں بیوی  کو ان میں ذکر نہیں کیا بلکہ ان حرام رشتوں کے ذکر کے بعد فرمایا اُحلَ لکم ماوَرَاءَ ذَالِکم سورۃ النساء آیت ۲۴ رشتوں کے علاوہ عورتیں تمہارے لئے حلال کردی گئیں ہیں  معلوم ہوا کہ ساس سے زنا کرنے پر زوجہ حرام نہیں ہوتی ۔جمہور علماء کا یہی مذہب ہےہاں حنفیہ کے نزدیک بیوی حرا م ہوجاتی ہے کیونکہ ان کے نزدیک جیسے کسی عورت سے نکاح کرنے سے اس کے اصول (یعنی والدہ ،نانی اور فروع منکو حہ بیوی کی بیٹی پوتی  وغیرہ) حرام ہو جاتے ہیں اسی طرح زنا سے حرام ہوجاتے ہیں مگر احناف کا یہی مذہب  مذکورہ بالا آیت شریفہ اور حسب ذیل  احادیث کے مخالف ہے  لہٰذا  صحیح نہیں ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :

(عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ: سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرَّجُلِ يُتْبِعُ الْمَرْأَةَ حَرَامًا أَيَنْكِحُ ابْنَتَهَا، أَوْ يُتْبِعُ الِابْنَةَ حَرَامًا أَيَنْكِحُ أُمَّهَا؟ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يُحَرِّمُ الْحَرَامُ الْحَلَالَ، إِنَّمَا يُحَرِّمُ مَا كَانَ بِنِكَاحٍ حَلَالٍ " قَالَ إِسْحَاقُ: قَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ نَافِعٍ: وَبِهِ نَأْخُذُ) (۱: السنن  الکبریٰ  للبیہقی  ج۷ ص۱۶۹ و فتح الباری باب  مایحل من  النسا وما یحرم ج۹ ص۱۹۱)

کہ حرام کو حرام نہیں کرتا کیونکہ شرعی نکاح ہی سے حرمت مصاہرت ثابت ہوتی ہے مگر اس حدیث کا ایک راوی متروک ہے ،لہٰذا یہ ضعیف ہے ۔

(حَدِيث بن عُمَرَ لَا يُحَرِّمُ الْحَرَامُ الْحَلَالَ سنن إبن ماجة  باب لا يحرم  الحلال ج1 ص 146-قال الحافظ  ابن الحجر  و إسناده  أصلح من الأول  أى من إسنادحديث عائشة  المذكورة ) (۲: فتح الباری باب ما  بحل من النساء ومابحرم ج۹ ص ۱۹۴)

حضرت عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا حرام حلال کو  حرام نہیں کرتا۔

(عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا فِي رَجُلٍ غَشِيَ أُمَّ امْرَأَتِهِ قَالَ: " تَخَطَّى حُرْمَتَيْنِ، وَلَا تُحَرَّمُ عَلَيْهِ امْرَأَتُهُ)( السنن الکبری  باب الزنا لا یحرم الحلال ج7 ص 168)

حضرت ابن عباس  ایک ایسے شخص کے متعلق سوال کیا گیا جس نے اپنی ساس کے ساتھ زنی کیا تھا تو حضرت ابن عباس  نے فرمایا کہ اس نے حرمتیں پامال کیں،تاہم اس زنی سے اس کی بیوی اس پر حرام نہیں ہوئی۔

حافظ ابن حجر عسقلانی﷫ اس حدیث پر لکھتے ہیں اسناد صحیح ۔(فتح الباری ج9 ص 134)

بخاری  کے محشی مولانا احمد علی حنفی صحیح بخاری کے بین السطورلکھتے ہیں اسناد صحیح بخاری ج2ص725۔کہ اس اثر کی سند صحیح ہے ۔

الشیخ السید محمد سابق المصری لکھتے ہیں :

قوله تعالى وأحل لكم ما ورآء ذالكم فهذا بيان عما يحل من النساء بعد بيان ما حرم منهن  ولم يذكر أن الزنا من أسباب التحريم .فقه السنة ج2ص65

کہ آیت :

"وأحل لكم ما ورآء ذالكم"میں اللہ نے حرام رشتوں کے ذکر کے بعد حلالرشتوں کو بیان فرمایا ہے اور زنا کو اسباب تخریم میں ذکر نہیں کیا۔

شیخ الإسلام حافظ ابن حجر فرماتے ہیں :

أبى ذالك ذهب الجمهور وحجتهم  أن النكاح فى الشرع إنما يطلق على المعقود عليها  لا على مجرد الوطءوأيضا  فالزنا  لا صداق فيه ولا عدة ولا ميراث.فتح الباري ج9ص195

کہ جمہو رعلمائے  امت اس طرف گے ہیں کہ زنا سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوتی ،ان کی ایک دلیل یہ ہے کہ شریعت میں نکاح عدم کا نام ہے  مطلق وطی کا نہیں ،علاوہ ازیں ان میں زنی کی وجہ سے نہ تو زانی ذمہ مہر کی ادائیگی واجب ہوتی ہے اور نہ مزنیہ عورت پر عدت  آتی ہے اور نہ اس میں قانون میراث لاگو ہوتا ہے ،لہذا حرمت مصاہرت زنا سے ثابت نہیں ہوتی ۔

مذكوره بالا دلائل كی رو سے ساس سے زنا کے ارتکاب سے بیوی حرام نہیں ہوتی ،نکاح قائم رہتا ہے اور حنفیہ کا موقف ہر لحاظ سے کچا  اور کمزور ہے ، لہذا ان کا یہ قو ل قابل اعتبار اور در خور اعتناء نہیں ،پس جن مولویوں نے بیوی کی حرمت کا فتوی دیا  تھا  ان طا یہ فتوی اگرچہ حنفی رو  سے درست تھا مگر مذکورہ دلائل کی رو سے غلط تھا ۔ چونکہ اس غلط فتوی کی بنیاد پر آپ کے شوہر نے آپ کو طلاق دی ،اس لئے آپ کا نکاح طلاق کی وجہ سے ٹوٹا تھا زنا کی وجہ سے نہیں ۔

اب آپ کے بیان کے مطابق آپ کے دوسرے شوہر  نے آپ کو طلاق دے ڈالی ہے اور دوسرے شوہر کی طلاق پرسوال نامہ کی  تصرح کے مطابق صر ف ۴/۱،۱ ماہ کا عرصہ گزر ا ہے  ،لہٰذا ابھی عدت پوری نہیں ہوئی  مطلقہ غیر حاملہ کی عدت تین حیض ہے ۔

﴿وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ ۚ ... ٢٢٨﴾ ...البقرۃ

اور حاملہ کی عدت وضع حمل ہے

﴿وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ ... ٤﴾...الطلاق

لہٰذا جب تک آپ کوتین حیض نہ آجائیں اس وقت تک آپ اپنے پہلے شوہر کے  ساتھ نکاح شرعاً نہیں کر سکتیں اور حمل کی صورت میں وضع حمل سے پہلے نکاح نہیں کر سکتیں ۔عدت (بصورت حیض  یا وضع حمل ) پوری ہوجانے پر آپ اپنے پہلے شوہر کے  ساتھ نکاح شرعاً کر سکتی ہیں  اگر چہ حنفی مولوی کے  مطابق آپ ایسا نہیں کر سکتیں کہ سابقہ بنیاد  قائم ہے مگر نہ ان کا فتویٰ صحیح ہے اور نہ اس کے فتویٰ  کی بنیاد صحیح ، لہٰذا ان کا فتویٰ قابل عمل نہیں ۔ مفتی کسی قانونی سقم کا ہرگز ذمہ دار نہ ہوگا ۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص728

محدث فتویٰ

تبصرے